منگرال راجپوت پارٹ 32

 

لیفٹیننٹ راجہ کرم داد خان 
راجہ کرم دادا خان بیسویں صدی کے شروع میں پیدا ہوئے لیکن آپ کی صحیح تاریخِ پیدائش کسی کو بھی معلوم نہ ہے۔ آپ کے والد راجہ روڈا خان گڑھوتہ میں درمیانی درجے کے زمیندار تھے۔ ان کی زندگی کا زیادہ تر حصہ گائوں میں ہی گزرا۔ راجہ روڈا خان نے اپنے بیٹے کی پرورش ناز و نعم سے کی۔
راجہ کرم داد خان نے ابتدائی تعلیم لوہر مڈل سکول کٹھار سے حاصل کی۔ ابتدا" آپ کھیتی باڑی میں اپنے والد کا ہاتھ بٹانا چاہتے تھے۔ ابتدائی عمر میں آپ گھر پر ہی رہے اور 1930ء میں آپ برٹش آرمی میں سولجر بھرتی ہو گئے۔ والد صاحب کی خصوصی ہدایت تھی کہ آپ ہر کام وقت پر کیا کریں۔ آرمی میں آپ اس اصول پر کاربند رہے اور ترقی آپ کے قدم چومتی رہی۔
  
سنہ 1945ء میں آپ برما کی محاز پر خدمات سر انجام دے رہے تھے۔ برما کے محاز پر آپ نے بہادری کے جوہر دکھائے اور حکومتِ برطانیہ نے آپ کو بہادری کے تمغے سے نوازا۔ دوسری جنگِ عظیم کے اختتام پر آپ نے برٹش آرمی سے ریٹائرمنٹ لے لی۔ آپ بحیثیت صوبیدار ریٹائر ہوئے۔ آپ کی ریٹائرمنٹ کے ساتھ ہی ریاست میں تحریکِ آزادی نے زور پکڑا۔ آپ ایک منظم آرمی میں خدمات سرانجام دے چکے تھے اور جنگی حکمتِ عملی سے خوب واقف تھے آپ اس تحریک میں کس طرح پیچھے رہ سکتے تھے۔ 
سنہ 48-1947ء میں تحریک کے دوران میں آپ نے سہنسہ میں تحریکِ آزادی کشمیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور سہنسہ کی ڈوگرہ فوج سے  آزادی میں اہم کردار ادا کیا۔ آپ کےدستے میں جہاں مجاہدین کی بڑی تعداد شامل تھی  وہاں آپ کے ساتھ کیپٹن نتھا خان، صوبیدار سردار بارو خان جیسے لوگ بھی شامل تھے۔ آپ تمام ہدایات کرنل راجہ محمود خان سے حاصل کرتے تھے۔
جنگِ آزادی کے بعد آپن نے 12 اے کی میں شمولیت اختیار کی اور پاکستان آرمی میں جحیثیت لیفٹیننٹ ریٹائر ہوئے۔ آپ نے کچھ عرصہ سولجر بورڈ میں بحیثیت آرمی ویلئیر آفیسر کے خدمات سرانجام دیں اور اپنے دور کے بہر پیچیدہ کیسز حل کروائے۔ آپ بقیہ تمام عمر گھر پر ہی رہے۔
آپ بڑے بااصول، بارعب اور سخت گیر مئوقف رکھنے والے شخص تھے۔ آپ جس بات پر اڑ جاتے اسے کر کے ہی دم لیتے۔ آپ کے دو بیٹے ہیں۔ بڑے بیٹے راجہ محمد سلیم خان 1968ء میں ووچر سسٹم کے تحت انگلینڈ گئے جب کہ چھوٹے بیٹے راجہ محمد نواز خان 1986ء میں انگلینڈ گئے۔ آپ کے دونوں صاحب زادے انگلینڈ میں مسلم کمیونٹی میں ایک اہم مقام رکھتے ہیں۔
آپ دمہ کے مرض میں مبتلا تھے، کچھ عرصہ بسترِ مرگ پر رہے۔ آپ 22 اکتوبر 1960ء میں اس دینائے فانی سے کوچ کر گئے۔ اللہ تعالی آپ کو جنت میں جگہ عطا فرمائے۔ آپ کی وفات جہاں آپ کا خاندان اپنے بزرگ سے محروم ہوا وہاں منگرال ابیلہ بھی ایک دلیر اور مدبر ہستی سے ہمیشہ کے لیے محروم ہو گیا۔ قوم آپ کے کارناموں پر ہمیشہ فخر کرتی رہے گی۔
راجہ پرویزخان ایڈووکیٹ
 راجہ پرویزخان ایڈووکیٹ 25 اپریل 1960ء کو نمب جاگیر سہنسہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا نام راجہ فتح خان ہے۔ وہ 1979ء میں پاکستان آرمی میں بحیثیت آنریری کیپٹن ریٹائر ہوئے۔ راجہ فتح خان ایک بارعب شخصیت کے مالک تھے۔ عوام علاقہ بہت کم ان کے سامنے بات کرتے تھے۔ جہاں وہ ایک بارعب شخصیت تھے وہاں وہ باصول زندگی گرزارنے کے بھی قائل تھے۔ راجہ فتح خان نے اپنی زندگی میں کسی کو کوئی تکلیف دی اور نہ ہی کوئی بے جا فائدہ حاصل کیا۔ آپ ایک صلح جو انسان کے طور پر جانے جاتے تھے۔ راجہ فتح خان ایک بہادر اور جنگ جو انسان تھے۔ آپ 48-1947ء میں سری نگر میں گوریلہ وار کے دوران داخل ہوئے۔ آپنے وہاں دشمنوں سے کئی معرکے لڑے لیکن آخر کار جب سیز فائر ہوا تو آپ دیگر ساتھیوں سمیت واپس آ گئے۔
راجہ پرویز خان نے اپنی ابتدائی تعلیم مڈل سکول پلیٹ سیداں سے حاصل کی۔ میٹرک 1976ء میں گلبرگ ہائی سکول لاہور سے پاس کی۔ 1978ء میں آپ نے گورنمنٹ کالج ایف سی کالج لاہور سے ایف اے امتیازی نمبرات سے پاس کی۔ بءی اے کی تعلیم کے لیے آپ راولپنڈی تشریف لائے اور کارڈن کالج راولپنڈی تشریف لائے اور وہاں سے 1980ء میں آپ نے ایل ایل بی کی ڈگری ایس ایم لاء کالج سے حاصل کی۔  دورانِ تعلیم آپ کا دھیان صرف حصولِ تعلیم کی طرف تھا اس لیے آپ نے پڑھائی پر خصوصی توجہ دی۔
وکالت کے لیے آپ اپنے گائوں سہنسہ واپس آئے۔ آپ نے 1985ء میں سہنسہ بار پیزہ وکالت شروع کیا۔ آپ جسٹس راجہ رفع اللہ سلطانی کے چیمبر سے منسلک ہوئے ۔دورانِ وکالت آپ نے خوب محنت کی اور بہت کم عرصہ میں آپ کا شمار سہنسہ کے بہترین قانون دانوں میں ہونے لگا۔ آپ نے دو مرتبہ سہنسہ بار کے صدر کی حیثیت سے الیکشن لڑا ور کامیاب ہوئے۔
عملی سیاست میں آپ کی وابستگی مسلم کانفرنس سے تھی۔ جب آزاد کشمیر میں مسلم لیگ [ن] کا آغاز ہوا تو آپ نے اس میں شمولیت اختیار کر لی۔ آپ مسلم لیگ [ن] کے پلیٹ فارم سے انتخابی سیاست کا ارادہ  رکھتے ہیں۔ ہماری دعا ہے کہ آپ اسی طرح ہر میدان میں کامیابی کے جھنڈے گاڑتے ہیں۔
پروفیسر راجہ محمد رفیق خان
راجہ محمد رفیق خان 15 جنوری 1959ء کو کھوئی رٹہ کے نواحی گائوں بنڈلی میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا نام حاجی راجہ صاحب داد خان ہے جو ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ حاجی راجہ صاحب داد خان نے انتہائی نا مساعد حالات میں اپنے بچوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کیا جو ان کی علم دوستی کی واضع مثال ہے۔
راجہ محمد رفیق خان نے میٹرک تک تعلیم ہائی سکول کھوئی رٹہ سے حاصل کی۔ آپ نے میٹرک سائنس مضامین میں امتیازی نمبرات سے پاس کی اور ایف ایس سی میں آپ گورنمنٹ کالج کھوئی رٹہ میں داخل ہو گئے۔ آپ نے ایف ایس سی میں اعلی نمبرات حاصل کیے۔ دورانِ تعلیم آپ نصابی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ ہم نصابی سرگرمیوں میں بھی بھرپور حصہ لیتے رہے۔ آپ گورنمنٹ ڈگری کالج کھوئی رٹہ میں طلبہ یونین میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے۔ آپ کالج یونین کے صدر بھی رہے۔
ایف ایس سی کے بعد راجہ محمد رفیق خان مزید تعلیم کے لیے میر پور چلے گئے جہاں آپ نے مشہور درسگاہ گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج میر پور میں بی ایس سی میں داخلہ لیا۔ آپ نے بی ایس سی اعلی نمبرات میں آزاد جموں کشمیر ینیورسٹی سے پاس کی۔ آپ کو تعلیم سے بے حد لگائو تھا۔ آپ کا شمار ذہین طلباء میں ہوتا تھا۔
راجہ محمد رفیق خان نے ایم ایس سی کے لیے پشاور یونیورسٹی کو منتخب کیا جہاں آپ نے ایم ایس سی ذوالوجی  فرسٹ ڈویژن میں پاس کی ۔ راجہ محمد رفیق خان نے تعلیم مکمل کرنے کے بعد عملی زندگی میں تعلیم کے شعبے کو ہی منتخب کیا۔ آپ کی پہلی تعیناتی بطور لیکچرر گورنمنٹ ڈگری کالج کوٹلی میں ہوئی۔ کچھ عرصہ بعد آپ نے آزاد جموں و کشمیر ینیورسٹی مظرآباد میں بطور لیکچرر ملازمت اختیار کر لی۔ آپ نے دورانِ ملازمت طلبہ میں علمی شعور بیدار کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ آپ طلبا کو محنت اور لگن سے تعلیم حاصل کرنے پر زور دیتے ہیں اور جہاں انھیں کوئی مشکل پیش آتی ہے آپ ان کی ہر حوالے سے رہنمائی کرتے ہیں اور طلبہ کو حوصلہ دیتے ہیں تا کہ وہ جستجو کریں اور علمی میدان میں اپنا ایک مقام بنائیں۔
راجہ محمد رفیق خان ملازمت میں ترقی کی منازل طے کرتے کرتے اسسٹنٹ پروفیسر آزاد جموں کشمیر ینیورسٹی کے عہدے پر تعینات ہوئے ۔ 2010ء میں جب میر پور میں، میر پور ینیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کا قیام عمل میں لایا گیا تو آپ اس میں بطور ایسوسیٹ پروفیسر تعینات ہوئے اور آج تک اسی یونیورسٹی میں اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔
پروفیسر راجہ محمد رفیق خان کے چھوٹے بھائی راجہ شکیل احمد خان ایڈووکیٹ شعبہ وکالت سے منسلک ہیں۔ راجہ شکیل احمد خان نے وکالت کا آغاز لاہور سے کیا تھا۔ آپ نے لاء کی ڈگری پنجاب ینیورسٹی لاہور سے حاصل کی تھی۔ آپ لاہور بار میں کچھ عرصہ وکالت کرنے کے بعد کوٹلی آگئے۔ راجہ شکیل احمد خان کوٹلی بار کے لائق وکلاء میں شمار کیے جاتے ہیں۔ آپ کی تعلیم میں راجہ محمد رفیق خان کا بہت اہم کردار ہے۔
پروفیسر راجہ محمد رفیق خان نیک سیرت، باکردار اور انتہائی ملنسار انسان ہیں۔ آپ منگرال قبیلہ کی پہلی شخصیت ہیں جو کسی ینیورسٹی میں اس عہدہ تک پہنچے ہیں۔ آپ کا شمار یونیورسٹی کے لائق اساتزہ میں ہوتا ہے۔ اگر پروفیسر راجہ محمد رفیق خان نے اسی طرح محنت جاری رکھی تو وہ دن دور نہیں جب وہ ینیورسٹی میں کسی اہم ترین ذمہ داری پر تعینات کر دیے جائیں گے۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالی انھیں مزید کامیابیوں و کامرانیوں سے ہمکنار کرے۔ آمین۔
راجہ حق نواز خان
کشمیر کی آزادی کی تڑپ رکھنے والے راجہ حق نواز خان عملی طور پر جہادِ کشمیر میں بھر پور حصہ لیتے رہے ہیں۔ اپنے بہادر والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے آپ نے جہادِ کشمیر میں حصہ لیا اور درجنوں بار سرحد پار مہمات میں شریک ہوئے۔ وہ این ایل اے کے سپریم کمانڈر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ علاقہ میں رفاعی کاموں میں بڑھ چڑھ کر شریک رہتے ہیں۔
راجہ حق نواز خان یکم نومبر 1959ء میں راجہ محمد سوار خان کے ہاں موضع گلہوٹیاں سہنسہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد راجہ محمد سوار خان ایک کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ راجہ محمد سوار خان کے والد راجہ باز خان علاقہ کے نمبردار تھے اور اس زمانے میں پانچویں تک تعلیم بھی حاصل کر رکھی تھی۔ راجہ محمد سوار خان نے آٹھویں تک تعلم حاصل کی۔ چونکہ اس وقت علاقہ سہنسہ میں کوئی ہائی سکول نہ تھا۔ اس لیے آپ مزید تعلیم جاری نہ رکھ سکے اور آپ "بونا ستارہ" ہندوستان چلے گئے۔ بونا ستارہ ہندوستان کا ایک علاقہ ہے  جہاں لقگ عموماً ملازمت کے لیے جایا کرتے تھے۔ راجہ محمد سوار خان نے بھی وہاں ملازمت اختیار کی ہوئی تھی۔ تقسیم ہنوستان کے وقت آپ کے بارے میں یہ بات مشہور ہو گئی تھی کہ آپ کو شہید کو دیا گیا ہے۔ کیونکہ تقسیمِ ہندوستان کے دوران میں ہندو مسلم فسادات ہوئے تھے جس میں لاکھوں مسلمانوں کو شہید کر دیا گیا تھا۔ 1948ء میں آپ اچانک گھر واپس آ گئے۔
راجہ محمد سوار خان 12 اے کے میں بھرتی ہوگئے۔ آپ 1965ء کی جنگ کے دوران میں "ماہل" پوسٹ تتہ پانی میں ڈیوٹی دے رہے تھے اور آپ کی پوری یونٹ یہاں تعینات وطن کی حفاظت کر رہی تھی۔ 1966ء میں آپ کی شہادت کی خبر پاکستان آرمی کے ذریعے آپ کے گھر پہنچائی گئی۔ پاکستان آرمی کی طرف سے راجہ محمد سوار خان کی بیوہ کی پنشن مقرر ہوئی لیکن آپ کا جسدِ خاکی آج تک گھر نہ پہنچایا جا سکا۔ کیونکہ اطلاعات یہ تھی کہ آپ دشمن کے خلاف لڑتے ہوئے سرحد پار چلے گئے تھے اور وہاں شہادت پائی تھی اس لیے آپ کا جسدِ خاکی واپس نہ لایا جا سکا۔ "ماہل" پوسٹ آج کل ہندوستان کے پاس ہے اور یہ 1966ء سے انڈیا کے زیرِ قبضہ ہے۔
راجہ حق نواز خان نے اپنے والد کو بہت کم عمری میں دیکھا تھا لیکن ان کی جرءات و دلیری کی داستانیں سن کی ان کے اندر بھی وطن کی محبت رچی بسی تھی۔ آپ کو اپنے وطن سے بے حد پیار ہے۔ راجہ حق نواز خان نے ابتدائی تعلیم گورنمنٹ ہائی سکول سہنسہ سے حاصل کی۔ 1983ء میں آپ نے اسی ادارے سےمیٹرک کا امتحان پاس کیا۔ میٹرک کے بعد آپ نے تعلیم کا سلسلہ منقطع کر دیا اور روزگار کے سلسلے میں سوچ بچار شروع کر دی۔ آپ نے ستمبر 1983ء مِن بحیثیت کلرک گورنمنٹ ہائی سکول پلیٹ سیداں میں ملازمت اختیار کی ۔ آپ ذہنی طور پر آزادی پسند تھے اس لیے ملازمت سے اکتا گئے اور ایک سال کے اندر اندر ہی ملازمت سے استعفی دے دیا۔
راجہ حق نواز خان 1985ء میں ٹرانسپورٹ سے وابسطہ ہو گئے۔ آپ نے سہنسہ ٹرانسپورٹ اڈا کو بہتر طریقہ سے چلایا اور تمام ٹرانسپورٹروں کی یونین قائم کی۔ آپ کو اس کاروبار میں کافی نقصان ہوا جس کی وجہ سے آپ کو یہ بزنس چھوڑنا پڑا۔ آپ کراچی چلے گئے جہاں پہلے چھ ماہ میں جی بھر سے سیر و تفریح کی اور پھر کام کاج شروع کیا۔ اس دوران میں آپ کا کسی کام میں جی نہ لگتا تھااس لیے گائوں  واپس آ گئے۔
یکم اپریل 1986ء میں آپ محکمہ مال میں بطور کلرک اسسٹنٹ کمشنر کے دفتر میں تعینات ہوئے۔ دورانِ ملازمت آپ پر بہت سی مشکلات آئیں اور 1995ء تک کسی نہ کسی صورت میں آپ ملازمت سے وابسطہ رہے۔ بعد میں آپ نے ملازمت سے استعفی دے دیا۔
راجہ حق نواز خان کی عملی زندگی شکست و ریخت سے بھری پڑی ہے۔ آپ میٹرک سے پہلے مختلف کام کرتے رہے جس میں ہوٹل کا کاروبار بھی تھا۔ آپ 1978ء میں ایران بھی گئے جہاں آپ ایک سال تک محنت مزدوری کرتے رہے۔ ایران سے واپس آپ کر 1979ء میں آپ حیدر آباد چلے گئے جہاں مختلف ملوں میں کام کیا۔ سنہ 1981ء میں آپ دبئی گئے جہاں ایک ماہ بعد ہی آپ قید ہوگئے، کچھ عرصہ بعد آپ واپس آگئے۔ میٹرک سے پہلے آپ نے عملی زندگی کا اتنا تجربہ حاصل کر لیا تھا کہ آپ نے میٹرک پاس کرنے کا ارادہ کیا اور امتیازی نمبرات میں پاس ہوئے۔
راجہ حق نواز خان 1988ء میں تحریکِ آزادی کشمیر کے لیے جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ میں شامل ہوگئے اور ابھی تک اسی پلیٹ فارم سے اپنی خدمات جاری رکھے ہوئے ہیں۔ عملی تحریک میں شامل ہونا آپ کے گھر کا ماحول اور بھر ہر وقت آپ کے والد کے کارناموں کا چرچا تھا جو انھوں نے 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران میں سر انجام دیے تھے۔ آپ نے لبریشن فرنٹ  جے کے ایل ایف کو تحصیل سنہسہ میں ازسرِ نو منظم کیا۔ نوجوانوں کو تحریک کے لیے ذہنی طور پر تیار کیا اور انھیں عملی جہاد کی ترغیب بھی دی۔
سنہ 1999ء میں آپ نیشنل لبریشن آرمی این ایل اے کے سپریم کمانڈر مقرر ہوئے۔ نیشنل لبریشن آرمی، جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کا عسکری ونگ ہے۔ اس پلیٹ فارم سے ہزاروں نوجوانوں نے جامِ شہادت نوش کیا۔ آپ کی زیرِ قیادتاین ایل اے کی جدید خطوط پر تنظیم کی گئی ، نئے خطوط پر جہاد کا کام شروع کیا گیا اور آپ نے نئے عسکری کیمپ قائم کیے جہاں نوجوانوں کی جدید اسلحہ کی ٹریننگ کے ساتھ ساتھ اخلاقی تربیت بھی کی جاتی تھی۔ آپ نے بہت تھوڑے عرصے میں ریاستِ جموں و کشمیر کے کونے کونے تک جہاد کا پیغام پہنچایا۔ آپ کے قافلے میں لاکھوں لوگ شریک ہوئے۔ ایک لاکھ سے زائد لوگوں کو بنیادی ٹریننگ پر آمادہ کیا گیا۔
راجہ حق نواز خان درجنوں بار مقبوضہ کشمیر گئے۔ وہاں انھوں نے عملی طور پر خود بھی جہاد میں حصہ لیا۔ آپ وہ واحد کمانڈر ہیں جن پر انڈیا نے کئی بار انعامات بھی رکھے کہ آپ کو زندہ یا مردہ گرفتار کیا جائے  لیکن ہندوستان کی یہ خواہش ہنوز پوری نہ ہو سکی۔ آپ کا شمار تحریکِ آزادی کشمیر کے پرانے لوگوں میں ہوتا ہے۔ آپ نے آٹھ ہزار رجسٹرڈ مجاہدین تیار کروائے  اور وہ عملی جہاد میں کسی نہ کسی صورت ہندوستان کے خلاف مقبوضہ کشمیر میں نبرد آرما ہیں۔ ریاست کے دونوں اطراف کے عوام آپ سے بہت پیار کرتے ہیں۔ آپ لوگوں کے دلوں کی دھڑکن ہیں۔ لوگ آج بھی آپ کو نجات دہندہ سمجھتے ہیں۔
راجہ حق نواز خان جہاں ہزاروں مجاہدین کے گھروں کی رکھوالی کر رہے ہیں اور ان گھروں کی تمام ضروریات کا فریضہ بخوبی سرانجام دے رہے ہیں وہاں وہ رفاحی کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔ لیکن آپ خود نمائی کو پسند نہیں کرتے اور تمام رفاعی کام ذاتی طور پر کرتے ہیں۔ تنظیم کا ایک روپیہ بھِی اپنے ذاتی اور رفاحی کاموں میں خرچ نہیں کرتے۔
اور ادویات تک بھی فراہم کرتے ہیں۔ آپ ضرورت مندوں کو خون کا عطیہ دے رہے ہیں اور یہ کام آپ کئی مرتبہ کر چکے ہیں۔ بنیادی طور پر آپ بریلوی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں۔ آپ کے دل میں اولیا اللہ کا بڑا احترام اور قدر و منزلت ہے۔
راجہ حق نواز خان نے اپنی زندگی تحریکِ آزادی جموں کشمیر کے لیے وقف کر رکھی ہے۔ آپ کی زندگی کا صرف ایک ہی مقصد ہے کہ آپ اپنی زندگی میں کشمیر کو آزاد ہوتا دیکھیں اور اس کے لیے آپ ہر قربانی کے لیے تیار ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالی آپ کی یہ خواہش ہوری کرے اور کشمیریوں کو غاصب ہندوستان کے قبضہ سے نجات دلائے۔ آمین۔
راجہ محمد ریاست خان 
راجہ محمد ریاست خان یکم جنوری 1963ء کو گلپور کے نواح میں تھروچی کے مقام پر پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا نام راجہ برکت اللہ خان تھا۔ وہ علاقہ میں اپنی شرافت اور صلح جو پالیسی کی وجہ سے مشہور تھے اور علاقہ میں منصف گردانے جاتے تھے۔
راجہ محس ریاست خان نے ابتدائی تعلیم کھٹلی پرائمری سکول سے حاصل کی۔ آپ نے میٹرک 1980ء میں گورنمنٹ ہوئی سکول گلپور سے حاصل کی ۔ مزید تعلیم کے لیے آپ گورنمنت ڈگری کالج کوٹلی داخل ہوئے جہان سے 1983ء میں آپ نے ایف اے امتیازی نمبرات سے پاس کیا۔ آپ نے بی اے میں داخلہ لیا لیکن طلباء سیاست کے جھمیلوں میں آپ کامیابی حاصل نہ کر سکے۔ اب آپ نے 2011ء کو گریجویشن کر لی۔  
سنہ 1985ء میں آپ یونائیٹڈ بنک لمیٹڈ میں کیشئیر بھرتی ہو گئے۔ بنک ملازمین کی ٹریڈ یونین کے پلیٹ فارم پر متحرک ہو گئے۔ 1986ء میں آپ نے پہلی بار بنک یونین کی طرف سے سینئیر نائب صدر کوٹلی زون کا الیکشن لڑا۔ آپ کامیاب ہو کر لگا تار دو ہفتے تک اس عہدے پر فائز رہے۔ پھر لگاتار دس سال تک اس عہدے کے لیے بلا مقابلہ منتخب ہوتے رہے۔ ایک وقت آپ اتنے مشہور ہو گئے کہ آپ کا تبادلہ جس برانچ میں ہوتا وہ چند ماہ میں ہی ٹاپ پر آجاتی۔ جب گورنمنٹ نے بنک یونین پر پابندی لگائی تو آپ نے ملازمت سے استعفی دے کر عملی سیاست میں قسمت آزمائی کا فیصلہ کر لیا۔
سنہ 1998ء میں استعفی کے بعد آپ عملی سیاست میں آ گئے اور مسلم کانفرنس میں شامل  ہو ئے۔ محنتی اور متحرک کارکن ہونے کی وجہ سے آپ مسلم کانفرنس کی مرکزی مجلس  عاملہ کے رکن بھی رہے۔ عملی سیاست میں آپ راجہ نصیراحمد خان سابق وزیرِ بلدیات کو اپنا پیرومرشن مانتے ہیں۔
دسمبر 2010ء میں جب آزاد کشمیر میں مسلم لیگ [ن] قائم ہوئی تو راجہ نصیر احمد خان کے مشورے سے آپ نے راجہ فاروق حیدر[سابق وزیرِ اعظم آزاد کشمیر] کی قیادت میں شمولیت اختیار کی۔ آپ کا شمار مسلم لیگ [ن] آزاد کشمیر کے بانی اراکین میں ہوتا ہے۔
راجہ محمد ریاست خان نے اجارہ داری کی ہمیشہ مخالفت کی۔ آپ نوجوان نسل کو معاشیات کے میدان میں انقلاب لانے کا پیغام دیتے ہیں۔ مظلوم اور بے کس لوگوں کی خدمت بذرِیعہ سیاست آپ کا شعار ہے۔ اللہ تعالی نیک مقصد میں آپ کوکامیابی و کامرانی عطا فرمائے۔
راجہ محمد الیاس خان
علاقہ سرساوہ کی سیاسی و سماجی شخصیتراجہ محمد الیاس خان کا تعلق گائوں "گنگ ناڑہ" سے ہے۔ انھوں نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ سے کیا۔ وہ کے ایچ خورشید کے معتمد ساتھی تھے۔ بعد ازاں وہ مسلم کانفرنس سے وابستہ ہو گئے اور سہنسہ کے یونٹ صدر بھی رہے۔
راجہ محمد الیاس خان 48-1947ء میں گنگ ناڑہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا نام راجہ سوار خان ہے۔ راجہ سوار خان پیشے پیشے کے اعتبار سے شروع میں برٹش آرمی میں رہے۔ راجہ سوار خان کے والد راجہ فضل داد خان ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ انھوں نے اپنے بیٹے راجہ محمد سوار خان کو سرساوہ پرائمری سکول میں داخل کروایا جہاں آپ نے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ بعد میں آپ نے تعلیم کو خیر باد کہ دیا۔
راجہ سوار خان جب بڑے ہوئے تو برٹش انڈین آرمی میں شمولیت اختیارکی۔ آپ نے جرمنی میں قید بھی کاٹی۔ آپ کو دیگر آرمی جوانوں کے ساتھ قید کر لیا گیاتھا جس کی وجہ سے آپ 1939ء سے 1945ء تک قید رہے۔ قید سے رہائی کے بعد آپ آرمی سے گھر واپس آ گئے۔ اس دوران آزادی کی تحریک زور و شور سے جاری تھی۔ آپ اپنے بھائی لیفٹیننٹ راجہ ولی داد خان کے ساتھ مل کر جہاد میں شامل ہو گئے۔ سہنسہ سے مہاراجہ کی فوج کع بھگانے میں لیفٹیننٹ راجہ ولی داد خان کا اہم کردار تھا۔ بعد میں آپ پاکستان آرمی میں شامل ہوئے اور 12اے کے سے بطور لیفٹیننٹ 55-1954ء میں ریٹائرڈ ہوئے۔
راجہ محمد سوار خان 1962ء میں انگلینڈ چلے گئے جہاں انھوں نے پہلے اپنا بزنس شروع کیا لیکن بعد میں آپ نحے ڈرائونگ کی۔ آپ کا شمار ان پہلے لوگوں میں ہوتا ہے جنھوں نے انگلینڈ ترکِ سکونت اختیار کی۔
راجہ محمد الیاس خان میں اپنے آباء و اجداد کی تمام خوبیاں موجود ہیں۔ آپ نے پرائمری تک ابتدائی تعلیم گنگ ناڑہ سے حاصل کی۔ چھٹی اور ساتویں جماعت آپ نے سہنسہ سے پاس کی۔ گھریلو مالی حالات تھوڑے بہتر ہوئے تو آپ کو آٹھویں جماعت میں گورنمنٹ ہائی سکول کوٹلی میں داخل کروایاگیا۔ 1964ء میں آپ نے میٹرک امتیازی نمبرات سے پاس کی۔ 1965ء میں آپ انگلینڈ اپنے والد کے پاس چلے گئے۔ وہاں کچھ عرصہ محنت مزدوری کرتے رہے لیکن آپ کا جی نہ لگا اور آپ واپس اپنے گائوں آ گئے۔ واپسی کی جہاں اور بہت سی وجوہات تھی وہاں تعلیم کو ادھورا چھوڑنے کا نہت دکھ تھا۔ چنانچہ آپ نے 1980ء میں ایف اے اور 1982ء میں بی اے پاس کی۔ آپ تعلیم میں کوئی بہت لائق طالب علم نہ تھے اپبتہ محنتی ضرور تھے۔
آپ کچھ عرصہ بعد واپس انگلینڈ چلے گئے اور وہاں بھی تعلیم حاصل کرنے کے لیے شام کی کلاسسز لینے لگے۔ 1989ء میں آپ نے ہالبرن کالج میں بحیثیت لاء طالب علم داخلہ لیا۔ یہ کالج ینیورسٹی سے جڑا تھا اور اس دور کے نامی گرامی کالجز میں شمار ہوتا تھا۔ آپ بوجوہ قانون کی ڈگری مکمل نہ کر سکے اور 1990ء میں واپس وطن آ گئے۔ 1990ء میں آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی کے الیکشن ہو رہے تھے۔ آپ نے راجہ فضل داد خان [مرحوم] کی نہ صرف سیاسی بلکہ مالی معاونت بھی کی اور وہ یہ الیکشن جیت گئے۔
راجہ محمد الیاس خان نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کشمیر لبریشن لیگ کے پلیٹ فارم سے کیا۔ آپ کشمیر لبریشن لیگ میں یو کے یونٹ کے سنئیر نائب صدر بھی رہے۔ آپ خورشید حسن خورشید [کے ایچ خورشید] کے بہت قریبی ساتھیوں میں شمار کیے جاتے تھے۔  کے ایچ خورشید جب بھی انگلینڈ تشریف لاتے تو وہ آپ کے ہاں قیام کیا کرتے تھے۔ انگلینڈ میں آپ پاکستان ویلفئیرایسوسی ایشن رچڑل لنکا شائر کے جنرل سیکرٹری رہے۔ پھر 1972ء سے 1974ء تک آپ ان تنظیم کے صدر بھی رہے۔ آپ نے سماجی کاموں میں بڑھ چڑھ کے حصہ لیا اور انگلینڈ میں مسلم کمیونٹی میں ایک اہل مقام بنایا۔
سنہ 1987ء میں آپ مسلم کانفرنس میں شامل ہوئے۔ آپ مسلسل نو سال تک حلقہ سہنسہ یں مسلم کانفرنس کے صدر رہے۔ آپ بلا مقابلہ منتخب ہوتے رہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ نے حلقہ بھر میں مسلم کانفرنس کو منظم کرنے میں بہت محنت کی اور جماعت کے اراکین آپ کے کام سے بہت مطمئین رہے۔ آپ کی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے مسلم کانفرنس نے 2012ء میں آپ کو حلقہ سہنسہ کا کنوینئیر نامزد کیا اور تمام اراکین نے آپ کی بھرپور حمایت کی۔
راجہ محمد الیاس خان ایک پڑھے لکھے سیاسی بسارت رکھنے والی شخصیت ہیں۔ وہ نہ صرف علاقائی سیاست میں اہم مقام رکھتے ہیں بلکہ برطانیہ کے اندر پاکستانی اور کشمیری کمیونٹی کی ہر دلعزیز شخصیت بھی ہیں۔ اللہ تعالی ان کا سایہ ہمیشہ ہمارے سروں پر قائم رکھے۔ آمین
میجر راجہ ابرار انور خان
 راجہ ابرار انور خانکا تعلق سہنسہ کی نواحی بستی "سائینلہ " سے ہے۔ آپ کو مجاہدانہ زندگی پسند تھی سو آپ نے پاک آرمی جوائن کی۔ اور ترقی کرتے کرتے اس وقت میجر کے عہدہ پر اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ آپ کی زندگی مجاہدانہ کارناموں سے عبارت ہے۔ غازیء سیاچن بھی رہے۔
میجر راجہ ابرار انوار خان 11 مئی 1979ء کو راجہ محمد انور خان کے گھر پیدا ہوئے۔ آپ کی جائے پیدائش سہنسہ کے ایک گائوں سائینلہ میں ہوئی۔ سائینلہ کی وجہ شہرت یہ ہے کہ منگرال قبیلہ کی جدِ امجد راجہ سینس پال نے علاقہ پر حکمرانی کے دوران دارلحکومت یہیں رکھا تھا۔ راجہ سینس پاک کے دور لگنے والے دربار کے نشانار اب بھی یہاں موجود ہیں۔ ولی عہد کے ماتھے پر لگنے والا تلک [ٹیکہ] جس پتھر سے لگایا جاتا تھا اور سائلین و زائرین کو جس کنویں سے پانی پلایا جاتا تھا، یہ سب نشانیاں یہاں موجود ہیں اور منگرال قبیلہ کی عظمتِ رفتہ کی یاد تازی کرتی ہیں۔
میجر راجہ ابرار انور خان کے والد راجہ محمد انور خان ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ آپ نے فوج میں ملازمت اختیار کی اور ترقی کرتے کرتے صوبیدار کے عہدے تک پہنچے۔ صوبیدار راجہ محمد انور خان نے ساری ملازمت توپ خانے میں کی اور ریٹائیرمنٹ تک آپ کا اس شعبے میں جانا پہچانا نام رہا۔ آپ 1979ء میں ریٹائر ہوئے۔ صوبیدار راجہ محمد انور خان کے والد راجہ محمد سوار خان علاقہ سائینلہ کے نمبر دارتھے اور بڑے بااصول اور بارعب شخص تھے۔ صوبیدار راجہ محمد انور خان نے اپنے والد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے تمام عمر انھی اوصاف کی پاسداری میں گزاری ۔ آپ کے بھائی راجہ محمد شریف خان ایڈووکیٹ بھی بڑے وضع دار انسان تھے۔ کاش، ہم ان کی صلاحیتوں سے استفادہ کر سکتے اور جلد ہی اس دینائے فانی سے کوچ کر گئے تھے۔
میجر راجہ ابرار انور خان نے ابتدائی تعلیم گورنمنٹ ہوئی سکول سہنسہ سے حاصل کی۔ آپ میٹرک تک اعلی نمبرات میں پاس ہوتے رہے۔ 1994ء میں آپ نء میٹرک میں اپنے سکول میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ ایف ایس سی 1996ء میں پوسٹ گریجویٹ کالج ایچ 9 اسلام آباد سے حاصل کی۔ آپ تعلیم کے ساتھ ساتھ ہم نصابی سرگرمیوں میں حصہ لیتے رہے۔ آپ کو تعلیم سے جنون کی حس تک لگائو ہے۔
میجر راجہ ابرار انور خان نے پاک ملٹری اکیڈمی کو 7 ستمبر 1996ء کو جوائن کیا۔ پی ایم اے میں ڈھائی سال تک ٹریننگ کی۔ آپ 18 اپریل 199ء میں پاس آئوٹ ہوئے اور سیکنڈ لیفٹیننٹ بنے۔ آپ نے پاکستان آرمی میں ڈسلن اور سخت محنت کو اپنا شعار بنایا۔ آپ کی لگن، محنت اور جزبے کو دیکھتے ہوئے 2001ء میں آپ کو کپتان کے عہدے پر ترقی دے دی گئی۔ آپ ترقی کی منازل طے کرتے کرتے 14 اگست 2007ء کو میجر بن گئے۔
جب آپ سیالکوٹ میں تعینات تھے تو گھر والوں نے آپ کی شادی کے لیے رضا مندی پوچھی لیکن اپ نے والدین کی خواہش پر 10 فروری 2007ء کو فیملی میں ہی شادی کی اور خوش و خرم زندگی گزار رہے ہیں۔
میجر راجہ ابرار انور خان کو تعلیم سے گہرا لگائو تھا۔ چنانچہ آپ نے 1999ء میں پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول سے بی ایس سی پاس کی۔ نیشل ڈیفنس ینیورسٹی اسلام آباد سے آپ نے 2011ء میں ایم ایس سی کی ڈگری حاصل کی۔ دورانِ سروس آپ کی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے آپ کو سٹاف کالج کوئٹہ میں کورس کے لیے نامزد کیا گیا۔ آپ نے ایک سالہ کورس [19جون 2010ء تا 19 جولائی 2011ء] کامیابی سے مکمل کیا۔
سٹاف کالج کوئٹہ میں پاکستان آرمی کے لائق آفیسران کے علاوہ مختلف ممالک کے آرمی آفیسران بھی کورس کے لیے آتے ہیں۔ یوں سٹاف کالج کوئٹہ کو ایک اہم ادارے ک ے طور پر پوری دنیا میں جانا جاتا ہے۔
میجر راجہ ابرار انور خان دورانِ ملازمت پاکستان کے مختلف علاقوں میں خدمات سرانجام دیتے رہے۔ آپ 2005ء تا 2006ء وادی نیلم میں کنٹرول لائن پر اپنی خدمات سرانجام دیتے رہے۔ 2006ء تا 2007ء آپ سیالکوٹ میں تعینات رہے۔ 2007ء تا 2009ء حیدر آباد رہے۔ 2009ء تا 2010ء آپ لاڑکانہ میں سندھ رینجرز میں رہے۔ آج کل آپ مری میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔
میجر راجہ ابرار انور خان کی زندگی مجاہدانہ زندگی ہے لیکن اپنی سروس کی واقعات کو بیان کرتے ہوئے وہ دو واقعات کا خصوصی زکر کرتے ہیں۔ پہلا واقعہ ستمبر 2001ء تا جولائی 2002ء  سیاچن گلیژئر تعناتی کے دوران پیش آیا، آپ اس وقت کیپٹن تھے لیکن وہاں بحیثیت پوسٹ کمانڈر تعینات کیے گئے تھے۔ یہاں کئی بار دشمن سے آپ کا معرکہ ہوا، ایک معرکہ میں آپ کی پوسٹ سے دشمن کو بھاری جانی نقصان بھی اٹھانا پڑا۔ آپ نے موت کو کئی بار اپنے قریب پایالیکن ہر بار اللہ نے آپ کو بچائے رکھا۔
دوسرا واقعہ آپ کی ڈیرہ بگٹی تعیناتی کے دوران میں پیش آیا۔ ڈیرہ بگٹی میں آپ اکتوبر 2007ء تا اپریل 2008ء رہے۔ یہاں حالات بہت خراب تھے اندرونی بغاوت کے ساتھ ساتھ پیرونی دشمن بھی تاک میں تھا۔ ہر روز کوئی نہ کوئی دھماکہ ہوتا تھا۔ آپ مردِ آہن کی طرح جواں مردی سے یہاں رہے اور شورش ختم کرنے میں اپنا پھرپور کردار ادا کیا۔ یہاں بھی موت سر پر منڈلاتی رہی لیکن آپ نہ ڈرے۔
میجر راجہ ابرار انور خان کی زندگی اب ملک و قوم کے لیے وقف ہے۔ انھیں شروع دن سے ہی مجاہدانہ زندگی پسند تھی اور مجاہدانہ زندگی بسر کر رہے ہیں۔ آپ کا نوجوان نسل کے لیے یہ پیغام ہے کہ " ملک و قوم کی بہتر انداز میں خدمت کریں"
راجہ شاہنواز خان
محکمہ تعلیم میں طویل عرصے تک خدمات سرانجام دینے والے راجہ شاہنواز خان کا تعلق "انوہی سرہوٹہ" سے ہے۔ اپنے کیرئیرکی ابتدا سیاست سے کی مگر جلد یہ دل پرداشتہ ہو کر محکمہ تعلیم سے منسلک ہو گئے۔ سروس کے دوران مختلف تعلیمی اداروں کے سربراہ رہے۔ محکمہ تعلیم کے انتظامی عہدوں پر بھی فائز رہے۔ اور ہر حیثیت میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ آج کل ریٹائرزندگی گزار رہے ہیں۔
راجہ شاہ نواز خان، راجہ جہانداد خان کے گھر 14 مارچ 1950ء میں پیدا ہوئے۔ آپ انوہی سرہوٹہ گائوں کی "ڈھوک بنی" میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد آسودہ حال تھے، انھوں نے آپ کی پیدائش پر بہت خوشی منائی۔ آپ کے والد راجہ جہاں داد خان کوئٹہ میں محکمہ پولیس میں ملازم تھے۔ گھر میں ہر طرح کی آسائش تھی۔ آپ کا بچپن انتہائی آسائش میں گزرا۔
راجہ شاہ نواز خان نے ابتدائی تعلیم گورنمنٹ پرائمری سکول انوہی سرہوٹہ سے حاصل کی۔ اس وقت انوہی سرہوٹہ پرائمری سکول کی کوئی عمارت نہ تھی بلکہ ایک ہندو کے گھر کو بطور سکول استعمال کیا جاتا تھا۔ آپ ابتدائی کلاسز سے ہی ذہین طلباء میں شمار ہونے لگے تھے۔ آپ کے استاد صاحب نے آپ پربہت محنت کی اور آپ نے باقاعدہ طالب علم کی حیثیت سے پہلی جماعت کا امتحان بھی پاس کر لیا۔ جب آپ دوسری جماعت میں تھے تو آپ کے استاد محترم کا تبادلہ ہو گیا۔ نئے استاد صاحب نے آپ کی جسامت کو دیکھتے ہوئے واپس پہلی جماعت میں بٹھا دیا۔ پورا سال گزرنے کے بعد ایک بار پھر آپ نے پہلی جماعت کا امتحان دیا، پاس ہوئے اور پھر دوسری جماعت میں بیٹھ گئے۔
پرائمری پاس کرنے کے بعد آپ نے چھٹی جماعت میں داخلہ کے لیے سوچا۔ علاقہ میں کوئی مڈل یا ہائی سکول نہ تھا اور چھٹی جماعت کے لیے کوٹلی جانا پڑتا تھا۔ اس لیے آپ نے اپنے والد کے پاس کوئٹہ جانے کا فیصلہ کیااور وہاں مزید تعلیم حاصل کرنے کا ارادہ کیا۔ چھٹی جماعت میں آپ نے کوئٹہ شہر کے "تعمیرِ نو" میں داخلہ لیا۔ آٹھویں جماعت آپ نے "بولان مچھ سے پاس کی۔ نویں جماعت "گورنمنٹ سیکنڈری سکول مستونگ سے اور میٹرک 1966ء میں ضلع ژوب کے "فورٹ سینٹر عین ہائی سکول" سے امتیازی نمبرات میں پاس کی۔
انٹرمیڈیٹ فرسٹ ائیر کے لیے آپ گورنمنٹ سائنس کالج کوئٹہ میں داخل ہوئے۔ یہ ادارہ 1934ء میں قائم ہوا تھا اور بلوچستان کے معیاری کالجز میں شمار کیا جاتا تھا۔ بعد میں اس ادارے کو بلوچستان یونیورسٹی کا درجہ دے دیا گیا۔ 1970ء میں آپ نے ایف ایس سیفرسٹ ڈویژن میں پاس کی۔ دورانِ ایف ایس سی آپ 1968ء، 1969ء اور 1970ء میں تین بار جی ڈی پائیلٹ کے لیے سیلیکٹ ہوئے لیکن ٹریننگ کے لیے ویکنسی نہ ہونے کی وجہ سے آپ ٹریننگ کے لیے نہ جا سکے۔ آپ ایف ایس سی کرنے کے بعد واپس گائوں آ گئے اور عملی سیاست میں حصہ لینا شروع کر دیا۔
سنہ 1974ء میں آپ اچانک سیاست کو چھوڑ کر محکمہ تعلیم میں بحیثیت سائنس ٹیچر گورنمنٹ سیکنڈری سکول پنجیڑہ میں بھرتی ہو گئے۔ یہ فیصلہ اتنا اچانک تھا کہ کسی کو یقین نہ آیا۔ شاید اس اچانک تبدیلی کی وجہ آپ کے پیشہ پیغمبری صلی اللہ علیہ وسلم سے بے انتہا محبت تھی۔ آپ اس مقدس پیشے میں انقلابی تبدیلیاں لانے کے خواہاں تھے جو انھوں نے بعد میں اپنی سروس کے دوران میں کیں۔
آپ نے تدریس کے ساتھ ساتھ اپن یتعلیم کو بھی جاری رکھا۔ 1978ء میں بی اے کیا۔ 1979ء میں بی ایڈ جب کہ 1983ء میں پنجاب ینیورسٹی سے ایم اے سیاسیات میں امتیازی نمبرات سے پاس کی۔ آپ نے تعلیم کو خیر باد نہیں کیا بلکہ 2010ء میں ایل ایل بی کی ڈگری "محی الدین اسلامی یونیورسٹی" نیریاں شریف سے لی۔
آپ ایک بہترین استاد گردانے جاتے تھے۔ آپ کے بے شمار طالب علم ڈاکٹرز، انجینئیرز اور آرمی آفیسر ہیں۔ علاقہ سرساوہ پنجیڑہ کے تقریباً سبھی سائنس ٹیچر اور ماہرینِ مضامین آپ کے شاگردوں میں سے ہیں۔ ان اساتزہ نےبعد میں تعلیم میں خوب نام کمایا۔ 
راجہ شا ہنواز خان مختلف تعلیمی اداروں میں بحیثیت سربراہ بھی تعینات رہے۔ ان میں ہائی سکول کجلانی، کرنل محمود خان سیکنڈری سکول گلپور شامل ہیں۔ آپ ملازمیں کی فلاح و بہبود کی تنظیموں میں بھی شامل رہے اور ان کے پلیٹ فارم کو استعمال کرنے ہوئے اساتذہ کے لیے مختلف پیکج منظور کروائے۔ آپ ٹیچر آرگنائزیشن اور سکول آفیسرز آرگنائزیشن میں بھی رہے۔ آپ نے ان فورمز کو ملازمین کے وسیع تر مفاد کے لیے استعمال کیا۔
آپ کی جہاں اساتزہ کی بہتری کے لیے بیش بہا خدمات ہیں وہیں آپ نے معیار ِ تعلیم کو بلند کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ آپ نے جہاں سرکاری تعلیمی اداروں کی اصلاح کی وہاں وہاں پرائویٹ تعلیمی اداروں کو بھی بہتر تعلیم کے لیے مفید مشورے اور تعلیمی کانفرنسز منعقد کروائیں۔ راجہ شاہنواز خان 14 مارچ 201۰ء کو ریٹائر ہوئے۔ آپ چالیس سال تک پیشہ پیغمبری سے وابسطہ رہے اور لوگوں کی خدمت کی۔
ریٹائرمنٹ کے بعد آپ گوشہ نشینی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ آپ کو کتب بینی کا بہت شوق ہے، خاص طور پر اسلامی کتب۔ آپ اکثر اسلامی معلوماتی کتب، اصلاحی کتب اور سائنسی کتب کا بڑے شوق سے مطالعہ کرتے ہیں۔ آپ کے پاس اسلامی معلومات کا بیش بہا خزانہ  موجود ہے۔ آپ مختلف نجی محفلوں میں دین پر گفتگو کرتے ہیں اور لوگوں کی دینِ اسلام سے محبت کا درس دیتے ہیں۔ آپ لوگوں کی دکھ درد میں بڑھ چڑھ کر حصہ  لیتے ہیں اور غرباء و مساکین دل کھول کر مدد بھی کرتے ہیں۔ آپ نے اپنی زندگی دوسروں کے لیے وقف کر رکھی ہے۔
چئیرمین راجہ سفتین خان
 خان چئیرمین راجہ سفتین خان سہنسہ کے ایک گائوں چھوچھ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا نام راجہ بوستان خان ہے۔ راجہ بوستان خان کے والد شیر خان علاقہ کے نامی گرامی نمبردار تھے۔ یوں نمبردار ہونے کی بناء پر یہ ایک کھاتا پیتا گھرانہ تھا اور لوگوں میں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے جاتے رہے ہیں۔ راجہ بوستان خان پیرانہ سالی کی وجہ سے کچھ عرصہ بیمار رہے اور بالآخر 1984ء میں اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔ اللہ تعالی انھین جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے۔ 
راجہ سفتین خان نے آٹھوین جماعت تک تعلیم ڈڈیال سے حاصل کی۔ آپ کو بچپن ہی سے گھڑ سوار اور بیل دوڑ کا شوق تھا جو ابھی تک پورا کرتے چلے آ رہے ہیں۔ آپ کا بچپن آرام و آسائش کے ساتھ گزرا۔
جب راجہ سفتین خان جوان ہوئے تو آپ نے سیاست میں بھی دلچسپی لینا شروع کر دی۔ آپ نے پہلی بار 1979ء میں الیکشن میں حصہ لیا اور یونین کونسل کٹھار سہنسہ سے ممبر منتخب ہوئے۔ آپ نے یہ الیکشن بلا مقابلہ جیتا کیوںکہ آپ کے مدِ مقابل امیدوار راجہ محمد اسلم خان دستبردار ہوگئے تھے۔ آپ نے عوام کی خدمت میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی اور لوگوں کی بنیادی مسائل حل کروانے کی پھرپور کوشش کی۔ آپ عوامِ علاقہ میں مشور ہو گئے۔ 1983ء میں دوبارہ بلدیاتی الیکشن کا انعقاد ہوا۔ آپ نے ایک بار پھر قسمت آزمائی کی اور عوام کے بھرپور اعتماد اور مخالف امیدوار کے دستبردار ہونے کی وجہ سے آپ لیکشن جیت گئے۔اس بار آپ کی منزل ممبر یونین سے تھوڑی آگے تھی۔ آپ یونین کونسل کے چئیرمین منتخب ہو گئے۔ آپ عوام کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کروانے میں پیش پیش رہے۔
چئیرمیں راجہ سفتین خان 1991ء کے بلدیاتی الیکشن میں ایک بار پھر وارد ہوئے۔ اس بار ان کا میدان ممبر کا نہ تھا بلکہ آپ ڈسٹرکٹ کونسلر کے امیدوار تھے۔ آپ کے مدِ مقابل راجہ شاہ پال خان آف کٹھار تھے۔ قسمت نے ہمیشہ کی طرح قرعہء فال آپ کے حق میں ڈالا اور آپ بھاری اکثریت سے جیت گئے۔ آپ نے اپنی سیاست کا آغاز مسلم کانفرنس کے پلیٹ فارم سے کیا تھا اور ابھی تک اسی پلیٹ فارم سے منسلک ہیں۔ 
چئیرمین راجہ سفتین خان کے بڑے بھائی راجہ منشی خان منگرال  قبیلہ کے اہم فرد جانے جاتے ہیں۔ راجہ منشی خان نے اپنا بچپن چھوچھ میں گزارا۔ گھریلو حالات آسودہ تھے اس لیے آپ کو کوئی پریشانی نہ تھی۔ جب بڑے ہوئے تو آپ نے بھی سیاست میں قسمت آزمائی۔ راجہ منشی خان نے 60-1959ء کے بلدیاتی الیکشن میں یونین کونسل کٹھار سے بحیثیت ممبر حصہ لیا اور کامیاب ہوئے۔ ان کی کامیابی میں جہاں ان کی اپنی کاوشیں شامل تھیں وہیں پر آپ کے والد کی عوام میں مقبولیت نے بھی اہم کردار ادا کیا۔
راجہ منشی خان نے کچھ عرصہ لکڑی کے کاروبار میں ٹھیکیداری کی۔ 64-1963ء میں آپ نے انگلینڈ ترکِ سکونت اختیار کی تھی۔ آپ نے انگلینڈ میں پہلے بس پر کنڈکٹری کی ۔ کچھ عرصہ بعد آپ نے اپنا بزنس شروع کر دیا۔ 1979ء میں آپ نے اپنا پہلا نرسنگ ہوم قائم کیا اور ابھی تک اسی کاروبار سے منسلک ہیں۔
راجہ منشی خان نے انگلینڈ میں بھی سیاست کو جاری رکھا۔ آپ پہلی بار 1984ء میں یو کے مسملم کانفرنس صدر منتخب ہوئے اورپھر لگا تار چار بار یو کے میں مسلم کانفرنس کے صدر رہے۔ 1985ء سے 1980 تک آپ اوور سیز ایم ایل اے رہے اور نہ صرف تارکین وطن کے مسائل کو حل کروانے میں اہم کردار اد کیا بلکہ آزاد کشمیر میں حلقہ سہنسہ کے عوام کی بھی بھرپور امدادکی۔
سنہ 1983ء میں قانون ساز اسمبلی کے ضمنی الیکشن میں آپ مسلم کانفرنس کے امیدواس کے طور پر حلقہ سہنسہ میں سامنے آئے۔ آپ نے یہ لیکشن مسلم کانفرنس کے ٹکٹ پر لڑا۔ آپ یہ الیکشن نہ جیت سکے۔
راجہ منشی خان برطانیہ اور آزاد جموں کشمیر میں ایک سیاسی اور سماجی شخصیت ہیں۔ آپ نے کئی سماجی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ آپ نے آٹھ کروڑ روپے کی لاگت سے بوستان ہیلتھ کئیر ٹرسٹ ہسپتال سہنسہ میں قائم کیا جو عوامِ علاقہ کو صحت کی سہولیات بہم پہنچا رہا ہے۔
چئیرمین راجہ سفتین خان اور راجہ منشی خان منگرال قبہلہ کا اثاثہ ہیں۔ اپ بھائی نہ صرف سیاست میں عوام کی خدمت جاری رکھے ہوئے ہیں بلکہ لوگوں کی خوشی اور غم میں بھی برابر کے شریک ہیں۔
چئیرمین راجہ سفتین خان کے بیٹے راجہ عبدالقدوس ایڈووکیٹ شعبہ وکالت سے منسلک ہیں اور سہنسہ بار میں راجہ پرویز خان ایڈووکیٹ کے چہمبر سے منسلک ہیں۔ آپ اپنے تایا اور والد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے عوام کی خدمت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ 
 

بلاگرراجہ ممتاز احمد

        نوٹ: بلاگر کا کتاب کے کسی بھی متن سے متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں ہے


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

MANGRAL RAJPOOT BOOK PART 9

منگرال راجپوت کتاب پارٹ 11

MANGRAL RAJPOOT BOOK PART 7