منگرال راجپوت پارٹ 31

راجہ کریم داد خان عرف کیماں خان

 
علاقہ سرساوہ کی تاریخ ساز شخصیت اور "جہاد فی سبیل للہ" کا ایوارڈ حاصل کرنے والے مجاہد کریم داد خان نے 1932ء میں ڈوگرہ راج کے خلاف علمِ بغاوت بلند کیا۔ اپنے علاقہ میں وہ باغیوں کے سرخیل تھے۔ بعد ازاں 48-1947ء میں جنگِ آزادی کے دوران میں آپ کا کاردار قابلِ ستائش رہا۔ 
جب ہم دنیا بھر کی آزادی کی تحریکوں پر نظر ڈالتے ہیں تو تاریخ ایسے بے شمار غازیوں اور مجاہدوں سے بھری نظر آتی ہے جنھوں نے اپنی قوم کی آزادی کی خاطر علم جہاد بلند کیا اور اپنی قوم کی نظروں میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے امر ہو گئے۔
ایسے ہی ایک مجاہد تحریکِ آزادی کشمیر میں اونچے درجے پر فائز نظر آتے ہیں جن کا نام راجہ کریم داد خان عرف راجہ کیماں خان تھا۔ آپ 1890ء کے لگ بھگ راجہ نواب خان کے گھر پیدا ہوئے۔ آپ کی جائے پیدائش منور پنجیڑہ کے مقام پر ہے مگر آپ کی درست سن پیدائش شاید کوئی نہیں جانتا۔ راجہ نواب خان کوئی امیر آدمی تو نہ تھے مگر اس دور میں خوشحال تھے۔ آپ کے گھر جب بیٹے کی پیدائش ہوئی تو اس وقت کی رسم کے مطابق آپ نے بیٹے کی پیدائش کی خوشی بڑی دھوم دھام سے منائی۔ آپ نے اپنے بیٹے کا نام راجہ کریم داد خان رکھا جو کیماں خان کے نام سے مشہور ہوئے۔ راجہ کریم داد خان عرف کیماں خان کی عمر ابھی آٹھ سال تھی کہ باپ کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔
آپ کی والدہ نے انتہائی نا مسائد حالات میں آپ کی پرورش کی مگر آپ تعلیم حاصل نہ کر سکے کیوں کہ اس زمانے میں اس علاقے میں کوئی سکول نہ تھا۔ آپ بچپن ہی سے ذہین، بےباک اور جست و چالاک تھے۔ جب جوان ہوئے تو آپ کی شادی کر دی گئی۔ آپ کے ہاں ایک بیٹا اور ایک بیٹی پیدا ہوئے۔ آپ نے دوسری شادی کی جس نے دو بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ آپ کا قد تقریباً ساڑھے پانچ فٹ تھا۔ آپ کا بدن چست تھا اور آپ بہت حاضر دماغ تھے۔ ریاستِ جموں کشمیر میں ڈوگرہ حکومت کے خلاف پہلے بغاوت 1988 بکرمی میں نکیال سے سردار فتح محمد خان کریلوی [سابق صدر ریاست سردار سکندر حیات خان کے والد ] کھوئی رٹہ سے لال خان اور پنجیڑہ سے راجہ کریم داد خان عرف کیماں خان نے ہمراہ راجہ ہاشو خان شروع کی تھی۔
پنجیڑہ کے مقام پر ہندو آباد تھے جہاں ان لوگوں کی دکانیں بھی تھیں۔ پنجیڑہ شہر [موجودہ] کے ساتھ ہی باغ بخشیاں کی طرف ایک ہندو "پھمی" کا مکان تھا۔ اس کے مکان کے سامنے بالکل قریب ہی ایک مسجد تھی جس کا صحن "پھمی" کے گھر کی طرف تھا وہ اس صحن کو اپنے مال مویشیوں کا چارہ رکھنے کے لیے استعمال کرتا تھا۔ مسجد چونکہ بوسیدہ ہو چکی تھی اس لیے مسلمانوں نے اس کی دوبارہ تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا۔ جب یہ خبر ہندوئوں تک پہنچی تو انھوں نے واویلہ کرنا شروع کر دیا اور ہندو مسلم آپس میں الجھ پڑے۔ مسلمانوں نے اکٹھے ہو کر جمعہ کی نماز یہاں ادا کی۔ راجہ کریم داد خان کے مشورے سے مسلمانوں نے ایک ہی دن میں مسجد کو تعمیر کیا۔

اس تعمیر سے ہندو مسلمانوں کے خلاف ہو گئے۔ ہر روز جلسے جلوس ہونے لگے۔ ان جلسوں سے تنگ آ کر ہندو اپنے سامان سمیت کوٹلی شہر کی طرف روانہ ہو گئے۔ کوٹلی شہر اس وقت ہندئوں کا بڑا تجارتی مرکز تھا۔ کوٹلی پہنچ ہندئوں نے مسلمانوں کے خلاف حکومتی سطح پر واویلہ شروع کر دیا۔ 
جب ہندوئوں کا احتجاج اپنے عروج پر تھا مسلمانوں نے نمازِ جمعہ اسی مسجد میں ادا کی۔ نمازِ جمعہ کے بعد مسلمانوں کے ایک بڑے جلوس نے حملہ کر کے پنجیڑہ اور باغ بخشیاں سے ہندوئوں کے مکانات جلا دیے۔ دوسرے دن ایک بڑا جلوس پیدل "اللہ اکبر"، "اللہ اکبر"، جے نعرے لگاتا ہوا کوٹلی کے جانب روانہ ہوا۔ یہ جلوس جب سرساوہ کے مقام پر پہنچا تو بجائے کوٹلی شہر کے  اس نے سرساوہ شہر کی طرف رخ کر لیا اور عظیم فساد برپا ہو گیا۔ جلوس کے شرکاء نے ہندوئوں کے مکانات اور دوکانیں جلا ڈالیں البتہ کوئی جانی نقصان نہ ہواکیونکہ ہندو پہلے ہی اپنے مال مویشیوں سمیت سرساوہ شہر چھوڑ کر کوٹلی روانہ ہو چکے تھے۔ 
اس جلوس کی باگ ڈور راجہ کیماں خان کے ہاتھ میں تھی۔ شرکاء جلوس کی زبان پر ایک ہی نعرہ تھا "راجہ کیماں خان بادشاہ اور ہاشو خان وزیر"۔ سرساوہ میں جلائو کے بعد یہ  جلوس کوٹلی روانہ ہوا۔ دریا میں پانی بہت کم تھا اس لیے دریائے پونچھ عبور کرنے میں دشواری نہ ہوئی جب جلوس شہر میں داخل ہوا تو فوج کی فائرنگ سے سائیں محمد قوم مہرہ[ولد جھلو مہر] جو چھیتراں کے سہنے والے تھے، گولی لگنے سے شہید ہو گئے اور یوں پہلے شہید ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ زخمیوں میں سید عالم آف گوڑہ سرساوہ کے علاوہ کافی تعداد تھی۔
ہندوئوں نے جب مسلمانوں کے اس جلوس کو دیکھا تو بلیا محلہ [کوٹلی] کو آگ لگا دی اور خود بھاگ کر باجی الف دین عرف ریاں شریف کے گھر پناہ لی۔ مسلمانوں کے جلوس میں جہاں پنجیڑہ سرساوہ کے لوگ شامل تھے۔ وہاں پلندری سے سدھن قبیلہ کے لوگ بھی شامل تھے جو سائیں حضوری اپنے ساتھ لائے تھے۔ سائیں حضوری سدھن قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کا اصل نام تو معلوم نہ ہو سکاالبتہ یہ نام ان کو باجی الف دین عرف ریاں شریف نے دیا۔ یہ ان کے خاص مریدین میں شامل تھے۔
کئی دنوں کی دست بدست لڑائی کے باوجود مسلمانوں کو کامیابی نہ ملی۔ بہت سے مجاہدین شہید اور زخمی ہوئے۔ آخر کار یہ جلوس کوٹلی فتح کئے بغیر واپس چلا آیا۔ جلوس کی ناکامی کے بعد ہر روز یہ خبر ملتی کہ ڈوگرہ فوج سرساوہ پنجیڑہ کی طرف آ رہی ہے۔ آخر کار ایک دن بلدیو سنگھ بٹھانیاں کی زیرِ نگرانی ڈوگرہ فوج "پناکھ" کے مقام سے نمودار ہوئی اور سوئیاں ناون سے "نالہ رنگڑ" عبور کیا۔ خبر ملتے ہی تمام مسلمان مجاہدین گھروں سے بھاگ گئے۔ جن بلدیو سنگھ پٹھانیاں پہاڑی چڑھ کر اوپر آیا تو اس کا استقبال سردار بہادر لیفٹیننٹ راجہ زمان علی خان نے ہمراہ چند آدمیوں کے کیا۔ بلدیو سنگھ پٹھانیاں کے ہمراہ لیٹیننٹ راجہ بہادر زمان علی خان ساتھیوں سمیت سرساوہ شہر آئے۔ [اس وقت سرساوہ شہر آج کے سرساوہ شہر سے شمال ایک کلومیٹر پہاڑی پر واقع تھا] 
بلدیو سنگھ پٹھانیاں کے استفسار پر سردار بہادر نے بتایا کہ یہ کام جن لوگوں نے کیا وہ شمالی پہاڑی علاقوں سے آئے تھے۔ یہاں انھیں کوئی نہیں جانتا۔ البتہ بلدیو سنگھ پٹھانیاں کو اطلاع تھی کہ یہ کام راجہ کیماں خان، راجہ ہاشو خان، مستری قطب دین وغیرہ نے کیا تھا، وہ ان کی گرفتاریوں کے لیے آیا تھا۔ بلدیو سنگھ پٹھانیاں نے پہلا کیمپ سید پور کے مقام پر لگایا اور تمام نمبرداروں کو بلا کر یہ واضع کیا کہ جتنے بھی لوگ [ہندو] علاقہ چھوڑ کر چلے گئے ہیں، انھیں اپنی ضمات پر واپس بلایا جائے اور ان کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے۔ کیمپ میں ایک سب انسپکٹر "پھامی چند" مسلمانوں کو گالیاں دیتا تھا اس کو تبدیل کر کے ایک مسلمان سب انسپکٹر"مرزا اقبال دین" کو تعینات کیا گیا۔ 
چند دن کے بعد کیمپ کو پنجیڑہ منور کے مقام پر منتقل کر دیا گیا۔ جب یہ خبر راجہ کیماں خان کو ملی کہ کیمپ میں مسلمانوں کو تنگ کیا جا رہا ہے کہ کیماں خان کو حاضر کرو تو انھوں ہمراہ ساتھی راجہ ہاشو خان کے گرفتاری دے دی۔ ان کی گرفتاری کے بعد یہ کیمپ کعٹلی منتقل کر دیا گیا۔ بعد میں راجہ سیف علی خان زیلدار نے فوج سے معاملات طے کیے کہ جن لوگوں کی دکانیں اور مکانات جلائے گئے ہیں عوام علاقہ کے تعون سے دوبارہ تعمیر کیے جائیں گے۔ تھوڑے عرصے کے بعد لوگوں نے تعمیر شروع کر دیجس کو دیکھ کر ہندو واپس آ گئے۔ ہندوئوں کو مکانوں اور دکانوں کا سرکار کی طرف سے معاوضہ دیا گیا۔ معاوضہ لوگوں سے مالیہ کی صورت میں ایک روپے کے ساتھ ایک روپیہ زائد وصول کیا گیا۔ یہ مالیہ عوام علاقہ نے ادا کیا۔ بعد میں مہاراجہ نحے کچھ انگیز افسروں کو علاقے میں بھیجا کہ حالات کا مشاہدہ کریں۔ انھوں نے سب اچھا کی رپورٹ دی جس کی وجہ سے کیماں خان معہ ساتھیوں کے رہا کر دیا گیا۔ رہائی کے بعد جب یہ لعگ بناکھ کے مقام پر پہنچے تو انھیں عوام کے جمِ غفیر نے ڈھول کی تھاپ پر بھنگڑے ڈال کر سرساوہ سے پنجیڑہ تک لایا گیا۔
سنہ 48-1947ء کی جنگِ آزادی مِیں بھی راجہ کیماں خان کا بڑا اہم کردار تھا۔ راجہ سخی دلیر خان  آپ کو 32-1931ء کی واقعات کی وجہ سےبڑی قدر کی نگاہ سے سیکھتے تھے۔ راجہ کیماں خان اپنے ماضی میں بے مثال کردار کی وجہ سے سدھن قبیلہ میں بھی بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔
سنہ 16 اکتوبر 1947ء کی ایک شام کو مستری الف دین عرف مستری الفی، راجہ محمد اسماعیل خان کا پیغام لے کر آپ کے پاس آئے۔ انہیں اطلاع ملی تھی کہ کل 17 اکتوبر 1947ء کو ڈوگرہ فوج سرساوہ کی طرف چڑھائی کرے گی۔ راجہ محمد اسماعیل خان تک یہ پیغام "شام دین" ملاح جو کہ منڈی کا رہنے والا تھا اور جاٹ برادری سے تعلق رکھتا تھا نے بذریعہ عنایت خان [والد خورشید بلا] پہنچایا۔ راجہ کیماں خان نے راتوں رات یہ بات راجہ سخی دلیر خان تک پہنچائی اور مشورہ دیا کہ آپ صبح سہنسہ کے بجائے آج رات کو ہی سرساوہ نالہ رنگڑ پر مورچہ بندی کر دیں ۔ جس پر راجہ سخی دلیر خان نے عمل کیا اور ڈوگرہ فوج کو بھاری جانی نقصان پہنچایا۔
کرشن دیو سیٹھی نے راجہ محمد اکبر خان کی 55 وہں برسی کے موقع پر خطاب کیا جس کا اقتباس؛
"جب 32-1931ء میں عوامی سطح پر شخصی راج کے خلاف بغاوت ہوئی تو میرپور اور کوٹلی میں تحریک کی باگ ڈور جن ہاتھوں میں تھی اس میں پنجیڑہ راجہ کریم داد خان عرف کیماں خان شامل تھے۔
منٹر جارڈین [وزیرِ خزانہ ریاستِ جموں کشمیر] نے منٹر آر ای ایل ونگیٹ جو کہ ڈپٹی سیکرٹری گورنمنٹ آف انڈیا محمہ خارجہ و سیاسی معاملات شملہ انڈیا میں فرائض انجام دے رہے تھے، نے 18 مئی 1932ء کو ایک مرا
سلہ نمبر 467 لکھاجس میں انھوں نے لکھا کہ؛
"گائوں سرساوہ اور پنجیڑہ میں خاصہ نقصان ہوا ہے۔ یہ علاقہ دریائے پونچھ کے دائیں کنارے پر واقع ہے۔ وہاں کی عمارات زیادہ پر کچی ہیں۔ توقع ہے کہ ان کی تعمیر مقامی مسلمانوں کے ہاتھوں جلد شروع ہو جائے گی۔"
اس مراسلے میں وہ آگے چل کر لکھتا ہے کہ "ایک شخص کیماں خان نامی جو اپنے علاقے سرساوہ کے ڈاکوئو کا سردار کہلاتا ہے، کو اس کے ہمراہیوں سمیت گرفتار کر لیا گیا ہے۔ ایک وقت وہ علاقہ کے لیے دہشت بنا ہوا تھا۔ اس نے ان بڑے سرکردہ مسلمانوں کو بھی لوٹا جو حکومت کے ساتھ تعاون کر رہے تھے۔
بلدیو سنگھ پٹھانیاں ایڈمنسٹریٹر آفیسرکیمپ چنگھڑ نے 26 جوں 1932ء کو اپنے ایک خط جو انھوں نے منٹر وینگیٹ ڈپٹی سیکرٹری خارجہ و سیاسی معاملات گورنمنٹ آف برٹش انڈیا کو لکھا تھا کہ؛
"پنجیڑہ قتل کیس میں جس میں کیماں خان اور کمپنی لوث تھے کی تفتیش درست انداز میں نہیں ہوئی تھی۔ یہ تفتیش اس قابل نہ تھی کہ اسے عدالت میں پیش کیا جائے۔ انسپکٹر پولیس لالہ نرنجن داس کے ذمہ یہ کام اور کوٹلی کی دوسری دو عدد انکوائریاں تھی ان کے متعلق بھی احتمال یہ ہے کہ ان میں بھی کیماں خان ملوث تھا
  Kashmiris Fight for Freedomمحمد یوسف صراف اپنی کتاب 
 
کے صفحہ نمبر 434 پر یوں رقم طراز ہیں کہ؛
 مئورخہ 18 اور 19 جنوری 1932ء کو کوٹلی شہر کو ایک بڑے مسلم ہجوم نے گھیرے میں لے لیا۔ یہ حملہ ناکام ہوا اس لیے کہ حملہ آوروں کے پاس ہتھیار پرانی قسم کے تھے اور ایمونیشن بھی محدود تھا۔ یہ حملہ چند گھنٹوں میں ختم ہو گیا۔ چھ مسلمان اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ چہاولہ، پنجیڑہ، کوٹلی سوہلناں، سیری اور کھوئی رٹہ میں ہندوئوں کے مکانات اور دکانیں جلانے سے قبل کوٹلی کا یہ حادثہ رونما ہوا جس میں 22 مسلمان جنھوں نے گل محمد کے مکان میں پوزیشن لے رکھی تھی اور ایک قریبی پوسٹ کے ساتھ مقابلہ کر رہے تھے کہ ان کا ایمیونیشن ختم ہو گیا اور وہ فوجیوں کے گھیرے میں آ گئے۔ فوجیوں نے مکان کو آگ لگا دی اور وہ سب کے سب زندہ جل گئے۔ دوسرے دن انھیں کوٹلی شہر کے مضافات میں ایک ہی قبر میں دفن کیا گیا۔یہ قبر کرٹلی ائیر فیلڈ کے سامنے سڑکے کے کنارے واقع ہے۔ ان کے ناموں کا پتہ نہ چلنا کوٹلی کی بد قسمتی ہے۔ اس واقع کے بعد سینکڑوں مسلمانوں کی گرفتاریاں ہوئیں جن میں خاص طور پر پنجیڑہ سے کیماں خان، ہاشم خان عرف ہاشو خان اور فضل الہی راٹھور کوٹلی شہر شامل ہیں
راجہ کیماں خان نہ صرف منگرال قبہلہ کے لیے باعث فخر ہیں بلکہ اہلِ کوٹلی بجا طور پر ان پر ناز کر سکتے ہیں۔ انگریز افسروں کا اعتراف اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ وہ نہ صرف علاقہ سرساوہ پنجیڑہ کے ہیرو تھے بلکہ ایک راسخ العقیدہ مسلمان بھی تھے۔ آپ نے ساری عمر مسلمان قوم کی فلاح و بہبور کے لیے وقف کر رکھی تھی۔ یوں تو آپ کی زندگی کارناموں سے بھری پڑی ہے لیکن کوٹلی تا پلندری روڈ، پنجیڑہ کے لیے پرائمری سکول کی مہاراجہ سے منظوری ہمیشہ تاریخ میں جلی حروف میں لکھی جائے گی۔
آپ نے 15 اگست 1955ء کو اس دنیائے فانی کو خیر باد کہا۔ آپ ٹی بی کے مرض میں مبتلا ہو کر دو سال تک بسترِ مرگ پر رہے اور 65 سال کی عمر میں وفات پائی۔ آزاد حکومت ریاستِ جموں کشمیر نے آپ کو 1989ء میں بعد از مرگ "جہادِ فی سبیل اللہ" کے ایوارڈ سے نوازا۔ آپ کی آزادی کی جلائی ہوئی شمع آج بھی روشن ہے۔ ہزاروں کشمیری اپنی جانوں کا نزرانہ ہر روز پیش کر رہے ہیں۔
قتل گاہوں سے چن کے ہمارے علم
اور نکلیں گے عشاق کے قافلے
جن کے راہِ طلب سے ہمارے قدم
مختصر کے چلے درد کے فاصلے  

راجہ ضیاالحمید خان 
مشہور سیاسی شخصیت راجہ ضیا الحمید خان تحصیل سہنسہ کے گائوں "پیاہی" میں پیدا ہوئے۔ میر پور کالج سے بی اے کرنے کے بعد یورپ چلے گئے۔ ایک دہائی بعد وطن واپس لوٹے تو سیاست سے وابسطہ ہو گئے۔ مسلم کانفرنس کے اعلی عہدیدار ہیں۔ 
راجہ ضیا الحمید خان 1948ء میں راجہ برکت خان کے ہاں پیہائی سہنسہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد یک نیک انسان تھے۔ آپ ملنسار، نفاست پسند اور بااخلاق انسان تھے۔ راجہ برکت خان اکثر تہ بند زیب تن کیا کرتے تھے اور سر پر سفید بگ ہوتی تھی۔ راجہ برکت خان کے دادا گلپور سے ہجرت کر کے پیہائی آ کر آباد ہوئے تھے۔ آپ کی قبیلہ بنی لعل کے نام سے مشہور ہے جع منگرال قبیلہ کی ایک شاخ ہے ۔ راجہ ضیا الحمید خان نے اپنی ابتدائی تعلیم لوئیر مڈل سکول سہنسہ سے حاصل کی۔ آپ نے میٹرک 1965ء میں میر پور سے پاس کیا۔ آپ تعلیم میں درمیانے درجے کے طالبِ علم جانے جاتے تھے۔ 1967ء میں آپ نے انٹرمیڈیٹ امتیازی نمبرات سے پاس کی۔ آپ نے گریجویشن 1970ء میں پاس کی۔ آپ نے میٹرک سے لے کر آخر تک تمام تعلیم میر پور میں مکمل کی۔ آپ ایک کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ والد گرامی کی شدید خواہش تھی کہ آپ تعلیم مکمل کریں۔ والد صاحب کی ہر خواہش آپ کے لیے حکم کا درجہ رکھتی تھی۔
سنہ 1972ء میں آپ انگلیڈ چلے گئے جہاں آپ نے لندن میں کمپیوٹر کی تعلیم حاصل کرنا شروع کی۔ آپ نے وہاں کمپیوٹر کا بنیادی کورس مکمل کیا۔ آپ اس ملک سے اتنے متاثر ہوئے کہ آپ نے وہاں قیام کا فیصلہ کر لیا۔ آپ نے پانچ سال تک تعلیم حاصل کی، تعلیم کے ساتھ ساتھ آپ مختلف جگہوں پر کام بھی کرتے رہے۔ آپ کو انگلیڈ کے موسم سے بڑا پیار تھا۔ آپ وہاں کی زندگی کو بہت پسند کرتے ہیں کیونکہ وہاں زندگی کی ہر سہولت موجود ہے۔
نہ جانے ایک سن آپ کے من میں کیا سمایا کہ آپ نے وطن واپسی کا فیصلہ کر لیا۔ آپ 1978ء میں واپس اپنے وطن لوٹے۔ جب علاقہ میں قدم رکھا تو یہاں کا نقشہ ہی تبدیل ہو چکا تھا۔ ماشل لاء کا دور دورہ تھا۔ بریگیڈئیر حیات خان آزاد کشمیر میں چیف ایگریکٹو تھے۔ بریگیڈئیر صاحب نے یہاں تعمیر و ترقی کا انقلاب برپا کر رکھا تھا۔ چنانچہ چیف ایگزیکٹو نے یہاں بلدیاتی الیکشن کروائے۔ آپ 1979ء کے بلدیاتی الیکشن میں کامیاب ہوئے۔ پھر اگلا الیکشن بھی آپ جیت گئے۔ یوں یکے بعد دیگرے دو الیکشن جیت کر آپ نے ثابت کیا کہ آپ لوگوں کے بنیادی مسائل حل کر رہے ہیں اور لوگ آپ پر اعتماد کرتے ہیں۔ 
آپ نے بلا تخصیس عوامی خدمت کو اپنا شعار بنائے رکھا جس کی وجہ سے عوام نے 96-1997ء کے ٹائون کمیٹی کی الیکشن میں آپ کو بلا مقابلہ منتخب کیا لیکن بد قسمتی سے وہ الیکشن بعض نا گزیر وجوہات کی بنا پر ملتوی کر دیا گیا۔ آپ عوام کے مسائل بلا تامل حل کرتے رہے۔ آپ کا سیاسی پلیٹ فارم مسلم کانفرنس تھا۔ 2001ء کے انتخابات قانون ساز اسمبلی میں آپ مسلم کانفرنس حقیقی کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑے جو مسلم کانفرنس کا ناراض تھڑا تھا، آپ اس الیکشن میں کامیابی حاصل نہ کر سکے۔
راجہ ضیاالحمید خان مسلم کانفرنس میں بحیثیت کارکن شام ہوئے لیکن آپ کی محنت لگن اور جماعت سے گہری وابستگی کو دیکھتے ہوئے 98-1997ء میں آپ ضلعی صدر منتخب ہوئے۔ 2001ء میں آپ کو مرکزی مجلسِ عاملہ میں نمائندگی دی گئی۔ جب مسلم کانفرنس کو تقسیم کر کے مسلم لیگ [ن] کا قیام عمل میں آیا تو آپ نے اس عمل کی پر زور مخالفت کی۔ آپ کی جماعت سے گہری وابسطگی کو دیکھتے ہوئے آپ کو مرکزی نائب صدر تعینات کیا گیا۔
آپ نے 2011ء کے قانون ساز امبلی کے انتخابات میں مسلم کانفرنس کے ٹکٹ پر حصہ لیا لیکن شومئی قسمت آپ اس میں کامیاب نہ ہوسکے۔ آپ کی زندگی کا مشن عوام کی خدمت ہے جو تا دمِ مرگ جاری و ساری رہے گا۔ آپ کے بیٹے راجہ شکیل ضیا ایڈووکیٹ بھی اپنے والد کے نقشِ قدم پر چل کر عوام کی خدمت میں پیش پیش ہیں اور سہنسہ بار میں راجہ پرویز خان ایڈووکیٹ کے چیمبر سے وابسطہ ہیں۔ آپ میں اپنے والد کی تمام خوبیاں بدرجہ اتم موجود ہیں۔ دعا ہے کہ کامیابی ہر میدان میں آپ کے قدم چومے۔
ڈاکٹر محمد شبیر خان
 سہنسہ سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر راجہ محمد شبیر خان میڈیکل کے شعبہ میں گزشتہ تین دہائیوں سے عوام علاقہ کی خدمت کر رہے ہیں۔ ان کی پیشہ ورانہ خدمات کا سبھی اعتراف کرتے ہیں۔ نرم دل، ہمدرد اور ملنسار انسان ہیں۔ اپنے پیشہ میں مہارت کے ساتھ ساتھ گہری سیاسی سوجھ بوجھ بھی رکھتے ہیں۔ اور عوامی مسائل کو حل کروانے میں کوشاں رہتے ہیں۔
ڈاکٹر راجہ محمد شبیر خان، راجہ اکبر داد خان کے گھر 15 اپریل 1955ء کو پیدا ہوئے۔ راجہ اکبر داد خان ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ جب بیٹے کی پیدائش ہوئی تو آپ نے اپنی بساط کے مطابق گائوں والوں کو اپنی خوشی میں شامل کیا۔ آپ پاکستان آرمی سے ریٹائیرڈ حوالدار میجر تھے۔ پوری زندگی بچوں کی پرورش اور سماجی خدمت میں لگے رہے۔
ڈاکٹر راجہ محمد شبیر خان نے اپنی ابتدائی تعلیم گورنمنٹ ہائی سکول سہنسہ سے حاصل کی۔ آپ ایک ذہین طالبِ علم تھے اور اساتذہ آپ پر بہت محنت کرتے تھے ۔ 1972ء میں میٹرک پاس کرنے کے بعد آپ نے مزید تعلیم کے حصول کے لیے سہنسہ سے کوٹلی کا رخ کیا۔
آپ کے والد نے نا مساعد حالات میں بھی آپ کی تعلیمی سرگرمیوں کو متاثر نہ ہونے دیا۔ چنانچہ آپ نے خوب محنت کی اور 1973ء میں پوسٹ گریجویٹ کالج کوٹلی سے ایف ایس سی کی۔ دورانِ تعلیم آپ نے ہم نصابی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیا لیکن ہمیشہ نصابی سرگرمیوں میں اعلی اعزازات حاصل کیے۔
جب آپ نے ایف ایس سی پاس کی تو آپ کو بالکل بھی میڈیکل فیلڈ میں جانے کا کوئی خیال نہ تھا کیونکہ آپ کو کوئی آئیڈیا نہ تھا کہ ایف ایس سی کے بعد میڈیکل کے شعبہ میں جانا ہوتا ہے۔ میڈیکل کے شعبہ میں جانے کے لیے آپ کے چچا زاد بھائی راجہ امیر داد نے مائل کیا اور میڈیکل کے شعبے کی افادیت سے آگاہ کیا۔ اس سے پہلے آپ کو کوئی گائیڈ لائین نہ دی گئی تھی۔ جب کہ بزاتِ خود آپ وکالت کے شعبے کی طرف مائل تھے۔
شومئی قسمت اسی سال کوٹلی کو ضلع کا درجہ دیا گیا، جس کی وجہ سے کوتلی ضلع سے تین میڈیکل سیٹوں کا اعلان ہوا جس میں سے دو سیٹیں پہلے سے ڈویژن ایمپروورز طلبا نے حاصل کیں جب کہ تیسری سیٹ آپ کے حصے میں آئی اور آپ کا داخلہ چانڈکا میڈیکل کالج لاڑکانہ میں ہوا۔ 1975ء میں آپ نے بحیثیت میڈیکل طالبِ علم تعلیم شروع کی۔  
سنہ 1982ء میں آپ نے میڈیکل تعلیم مکمل کی۔ دورانِ تعلیم ذولفقار علی بھٹو کی شہادت کا سانحہ پیش آیا جس کی وجہ سے کچھ عرصہ میڈیکل کالج بند رہا۔ جب حالات بہتر ہوئے تو آپ نے دیگر طلبا کے ساتھ چانڈکا میڈیکل کالج کو خیرباد کہا۔ جب گائوں واپس آئے تو جلد ہی آپ جی ڈی ایم او بھرتی ہوئے۔ تقریباً تین ماہ میر پور میں گزارنے کے بعد آپ کا تبادلہ سہنسہ کر دیا گیا، ایک سال اپنے گائوں میں خدمات سرانجام دینے کے بعد آپ کو چھ ماہ  کے لیے مظفر آباد بھیج دیا گیا۔ 1984ء میں ایک بار پھر تبدیل کر کے آپ کو سرساوہ واپس بلا لیا گیا کہاں کچھ عرصہ آپ بحیثیت میڈیکل آفیسر رورل  ہیلٹح سنٹر سرساوہ میں تعینات رہے۔  سنہ 1988ء میں آپ ایک سالہ ڈپلومہ کے لیے لاہور چلے گئے جہاں سے آپ نے ڈپلومہ ان چیسٹ ڈیزیز اینڈ ٹی پی مکمل کیا اور واپس اپنی جائے تعیناتی رورل ہیلتھ سنٹر سرساوہ آ گئے۔
آپ نے سرکاری نوکری کے ساتھ ساتھ پرائویٹ پریکٹس بھی شروع کر دی اور سہنسہ میں پرائویٹ کلینک شروع کر دیا۔ اسی دوران 1995ء میں آپ کو بحیثیت میڈیکل آفیسر فتح پور تھکیالہ [نکیال] تبدیل کر دیا گیا۔ آپ ابھی تک سرکاری شعبے میں خدمات سرانجام دینے کے ساتھ ساتھ سرساوہ میں پرائویٹ کلینک میں بھی لوگوں کا علاج معالجہ کر رہے ہیں۔ آپ اپنی زندگی کی تمام کامیابیوں کو اپنے والدین کی دعائوں اور اساتزہ کرام کی محنت اور کوشوں کا مرہون منت سمجھتےہیں۔ آپ کے نامور اساتزہ میں پروفیسر مسعود قابلِ زکر ہیں۔
ڈاکٹر راجہ محمد شبیر خان نے اپنی ازدواجی زندگی کا آغاز دورانِ طالب عملی کیا۔ آپ نے پہلی شادی گھر والوں کی مرضی سے 1979ء میں کی جب کہ دوسری شادی نومبر 1994ء میں اپنی پسند سے کی۔ آپ کے بیٹے ماجد شبیر ایبٹ آباد میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس مکمل کر چکے ہیں۔ وہ آپ کی شخصیت سے متاثر ہو کر میڈیکل کے شعبے میں آئے۔
ڈاکٹر راجہ محمد زبیر خان نے جہاں دورانِ سروس پورے خطہ آزاد کشمیر کی سیر و تفریح کی ۔ انھوں نے دو بار انگلیڈ وزٹ کیا۔ انھوں نے پورے انگلینڈ میں گھوم کر وہاں کی بود و باش اور رہن سہن کو قریب سے دیکھا۔ پہلی بار آپ 2006ء میں انگلینڈ گئے جب کہ دوسرا دورہ 2007ء میں کیا۔ آپ نے وہاں کے ماحول اور پنے ملک کے بارے میں تقابلی جائزہ لیا۔ آپ نے خیال میں انگلینڈ میں ہر شخص گھڑی کی سوئیوں کے ساتھ چلتا ہے جب کہ ہمارے ملک میں وقت کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی۔ اگر ہمارے ملک میں بھی وقت کو اہمیت دی جائے تو اس ملک کی قسمت کو بدلا جا سکتا ہے۔
سیاست میں بھی ڈاکٹر راجہ محمد شبیر خان بڑی گہری نگاہ رکھتےہیں۔ آپ سیاسی زندگی میں راجہ عبدلمجید خان [مرحوم] ، راجہ فضل داد خان [مرحوم]، اور راجہ نصیر احمد خان کے ہم رکاب رہے۔ آپ ان تینوں بڑی شخصیات کے بارے میں یوں لب کشائی کرتے ہیں؛
سیاسی سوجھ بوجھ میں راجہ عبدالمجید خان [مرحوم] کا کوئی ثانی نہ تھا۔ راجہ فضل داد [مرحوم] جیسا نرم دل اور شگفتہ لب و لہجے میں شاید ہی کوئی اور ہوا ہو۔ راجہ نصیر احمد خان سیاست میں پانے آپ کو بہت اوپر لائے، جب کہ  ان کے لیے بہت مشکلات تھیں، آپ نے پورے آزاد کشمیر میں بحیثیت ایک قومی لیڈر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔
راجہ محمد شبیر خان نوجوان نسل کے لیے تعلیمی میدان میں محنت پر بڑا زور دیتے ہیں۔ آپ کے خیال میں پندرہ پیس سالوں سے تعلیمی میدان میں کافی بہتری آئی ہے، جب کہ ابھی بھی بہت ترقی کرنا باقی ہے۔ آپ اتفاق و اتحاد پر یقین رکھتے ہیں اور آپ کے خیال میں ایک شخص کو ہمیشہ کمپرو مائزنگ ہونا چاہیے۔ ڈاکٹر محمد شبیر جیسے دانش مند شخصیات ہمارے لیے نعمتِ خدا وندی ہیں۔ اللہ ان کا سایہ ہم پر ہمیشہ قائم رکھے۔ 
پروفیسر راجہ غضنفر علی 
 راجہ غضنفر علی 18 اگست 1965ء کو انوہی سرہوٹہ میں پیدا ہوئے۔ آپ نے پرائمری تعلیم گورنمنٹ پرائمری سکول انوہی سرہوٹہ سے حاصل کی۔ آٹھویں جماعت گورنمنٹ ہائی سکول پنجیڑہ سے پاس کی۔ 1983ء میں آپ نے گورنمنٹ اینٹرمیڈیت کالج پنجیڑہ سے میٹرک امتیازی نمبرات میں پاس کی۔
آپ کی تعلیمی سرگرمیوں کو دیکھتے ہوئے گھر والوں نے مزید تعلیم جاری رکھنے پر زور دیا۔ آپ نے انتہائی سامساعد حالات میں بھی تعلیم کو نہ چھوڑا بلکہ تعلیم کے حصول کے لیے ہر قسم کے حالات کا مقابلہ کیا۔ چنانچہ علمی پیاس بجھانے کے لیے آپ نے گورنمنٹ ڈگری کالج کوٹلی میں داخلہ لیا۔  آپ نے 1985ء میں آئی کام کیا اور بعد میں بی بی اے کیا اور بھر ایم بی اے آزاد جموں کشمیر یونیورسٹی سے 1992ء میں کیا۔
آپ ذہین طلباء میں شمار ہوتے تھے۔ تعلیمی میدان میں طلبہ کی تعمیری سوچ کو پروان چڑھانے کے لیے آپ نے اسلامی جمیعتِ طلبہ کا پلیٹ فارم منتخب کیا۔ سکول، کالج اور پھر یونیورسٹی میں طلبہ کے مسائل کے حل کے لیے ان تھک کام کیا اور ان جزبہ حصولِ تعلیم کو اجاگر کیا۔ دورانِ تعلیم آپ ہم نصابی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیتے رہے۔ کرکٹ آپ کا پسندیدی کھیل رہا جس میں آپ نے ایک اچھے کھلاڑی کی حیثیت سے بڑا نام کمایا۔
سنہ 1992ء میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد آپ نے شعبہ تعلیم کو منتخب کیا اور اسی سال گورنمنٹ ڈگری کالج سہنسہ میں بحیثیت لیکچررکام شروع کیا۔ تعلیم سے خصوصی لگائو اور نوجوان نسل کی تعلیم و تربیت آپ کا مشن تھا۔ آپ نے چار سال تک اس مشن کی تکمیل کی لیکن حالات و اقعات کو دیکھتے ہوئے پروفیسر راجہ غضنفر علی نے 1993ء کے ضمنی الیکشن میں راجہ نصیر احمد خان کے معتمد ساتھی کے طور پر پورے حلقہ میں کام کیا۔ آپ الیکشن مہم میں بھرپور حصہ لیا۔ 1996ء میں قانون ساز اسمبلی کے لیکشن منعقد ہوئے جس میں راجہ نصیر احمد خان نے مسلم کانفرنس کے پلیٹ فارم سے حصہ لیا تھا، آپ نے راجہ نصیر احمد خان کی الیکشن مہم میں بطور انچارج کام کیا۔ آپ نے اپنی صلاحتیوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے فرائض کو احسن طریقے سے انجام دیا جس کا پورا حلقہ معترف تھا۔ 
سنہ 1996ء کے الیکشن میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی اور بیرسٹر سلطان محمود چودھری وزیرِ اعظم منتخب ہوئے تھے۔ وزیرِ اعظم نے اپنی پہلی کیبنٹ میٹنگ میں جن لوگوں کو ملازمت سے فارغ کیا تھا آپ ان میں سرِ فہرست تھے۔ آپ نے ملازمت کو ہمیشہ کے لیے خیر باد کہا اور سیاست سے منسلک ہو گئے۔ آپ آج تک راجہ نصی احمد خان کے معتمد ساتھی گردانے جاتے ہیں۔ راجہ نصیراحمد خان آپ پر بھرپور اعتماد کرتے ہیں اور حلقہ کے معاملات کو سلجھانے اور حل کرنے میں آپ کی رائے کو ہی معتبر مانتے ہیں۔
سنہ 2006ء میں آپ سیاست کے ساتھ ساتھ پرائویٹ بزنس بھی کر رہے ہیں جو اپ کے حصولِ روزگار کا زریعہ ہے اور خدمتِ خلق بھی۔ دسمبر 2010ء میں جب مسلم لیگ [ن] آزاد کشمیر قائم ہوئی تو آپ اس میں شامل ہو گئے اور اس وقت حلقہ سہنسہ سے مسلم لیگ {ن} کے ڈسترکٹ کونسلر منتخب ہوئے۔ حلقہ کے اندر تین ممبران جن کا ضلع اور مرکز میں ووٹ ہوتا ہے، ان صدر، جنرل سیکرٹری اور کونسلر شامل ہیں۔
آپ کے کردار، اعتدال پسندی، نرم مزاجی اور صلح جوئی کی وجہ سے آپ عوام میں بے حد مقبول ہیں۔ آپ کے دوست اور مخالف آپ کی ان خوبیوں کے معترف ہیں۔ اللہ تعالی آپ کو اپنے مشن میں کامیاب کرے۔ آمین۔

بلاگرراجہ ممتاز احمد

        نوٹ: بلاگر کا کتاب کے کسی بھی متن سے متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں ہے

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

MANGRAL RAJPOOT BOOK PART 9

منگرال راجپوت کتاب پارٹ 11

MANGRAL RAJPOOT BOOK PART 7