منگرال راجپوت پارٹ 30

راجہ نصیر احمد خان

 
گہری سیاسی بصیرت کے حامل نامور سیاست دان راجہ نصیر احمد خان آزاد کشمیر میں اپنا ایک الگ اور منفرد مقام رکھتے ہیں۔ حلقہ کے عوام کے دلوں پر راج کرنے والے "مردِ آہن" 1996ء سے مسلسل حلقہ سہنسہ کے عوام کی نمائندگی کرتے چلے آ رہے ہیں۔ اپنے سیاسی کیرئیر میں انھوں نے اٹھ الیکشن لڑے  اور ہر بار کامیاب رہے۔ آپ کافی عرصہ آزاد کشمیر حکومت میں وزیرِ بلدیات رہے۔ انھوں نے نہ صرف ااپنے حلقہ میں ریکارڈ ترقیاتی کام کروائے بلکہ دیگر علاقوں میں تعمیر و ترقی کے حوالے سے ان کی خدمات یاد رکھی جائیں گی۔
راجہ نصیر احمد خان 17 مارچ 1953ء کو راجہ محراب خان کے گھر انوہی سرہوٹہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد امیر کبیر آدمی نہ تھے مگر دل کے سخی تھے اور اپنے گھر سے کبھی کسی کو خالی ہاتھ نہ بھیجتے تھے۔ آپ کی پیدائش پر خوشی کی رسم خوب نبھائی گئی تھی۔ کون جانتا تھا کہ آج پیدا ہونے والا بچہ آنے والے کل میں ایسی تاریخ رقم کر جائے گا جو نہ صرف علاقہ اور منگرال قبیلہ کے لیے باعثِ فخر ہو گی بلکہ پوری آزاد ریاست میں آنے والی صدیوں کا یاد رکھا جائے گا۔
راجہ نصیر احمد خان نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی گائوں کے پرائمری سکول سے حاصل کی۔ آٹھویں جماعت آپ نے لوئر مڈل سکول پنجیڑہ سے پاس کی۔ 71-1970ء میں میٹرک گورنمنٹ ہوئی سکول کوٹلی سے پاس کی۔ آپ تعلیم میں زیادہ دلچسپی نہ لیتے تھے البتہ آپ نے اپنے والد کی خواہش کے احترام میں اپنا سلسلہ تعلیم جاری رکھا اور 1973ء میں ایف اے امتیازی نمبرات سے پاس کی جبکہ 1974ء میں بے اے میں گورنمنت ڈگری کالج کوٹلی میں داخل ہوگئے اور گریجویشن بنجاب یونیرسٹی کے تحت امتیازی نمبرات سے پاس کی۔ آپ گورنمنٹ ڈگری کالج کے باقاعدہ طالبِ علم رہے۔ دورانِ تعلیم آپ طلبہ سیاست میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے۔     شروع شروع میں آپ نیشنل سٹوڈنٹ فیڈریشن میں رہے، پھر آپ نے پیپلز سٹوڈنٹس فیڈریشن میں شمولیت اختیار کر لی۔ آپ ان تنظیموں میں مختلف عہدوں پر بھی فائز رہے۔
 تعلیم سے فراغت کےبعد جب آپ عملی زندگی میں آئے تو دیکھا کہ یہ دنیا آپ کی دورِ طالب علمی سے بہت مختلف تھی۔ آپ کاروبار کے سلسلے میں کراچی چلے گئے، اس وقت کراچی کام یا کاروباری لحاظ سے بہترین شہر گردانا جاتا تھا۔ 78-1977ء  میں آپ نے لوگوں کو بیرونِ ملک بھجوانے کی غرض سے ریکروٹنگ ایجنسی قائم کی۔ آپ کا دفتر طارق روڈ کراچی میں تھا۔ طارق روڈ کراچی شہر میں سب سے بڑا تجارتی مرکز تھا۔ آپ نے اہلِ علاقہ کے علاوہ بہت سے جاننے والوں کو بیرونِ ملک بسلسلہ روزگار بھجوایا۔ آپ نے اس کاروبار میں خوب روپیا کمایا۔ 1979ء میں آپ نے اپنا دفتر لاہور میں بیڈن روڈ پر منتقل کر لیا اور یہاں دوبارہ نئے سرے سے کام کا آغاز کیا۔ تھوڑے ہی عرصے میں آپ نے بڑا نام کما لیا۔ آپ نے لاہور اور کراچی کا سفر ہمیشہ ہوائی جہاز سے کیا۔آپ اپنے کاروبار اور کام سے بہت حد تک مطمئین تھے۔ 1979ء میں بلدیاتی انتخابات ہوئے تو علاقہ کے معززین جن میں راجہ محمد افضل خان اور راجہ امداد خان نمایاں تھے، کے اصرار پر آپ نے انتخابات میں حصہ لیا۔ آپ یونین کونسل بھنیر کے موضع انوہی سرہوٹہ سے بطور بی ڈی ممبر انتخابات میں حصہ لے رہے تھے۔ راجہ نصیر احمد خان اس انتخاب میں بھاری اکثریت سے کامیات ہوئے اور یونین کونسل بھنیر کے وائس چئیرمین بن گئے۔ یہ آپ کا پہلا انتخاب تھا لیکن آپ نے سیاست کے عبادت سمجھ کر اختیار کیا تھا۔ لوگوں کی خدمت آپ نے اپنا شعار بنا لیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے آپ سیاست میں اتنے مشور ہو گئے کہ ضلع کوٹلی کے بڑے سیاستدانوں میں شمار کیے جانے لگے۔ آپ نے سیاست میں ایک نئی جہت متعارف کروائی کہ کارکن کا کام پہلے، باقی سب کام بعد
میں۔  سنہ 1983ء میں آپ نے ضلع کونسل کا الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا۔ آپ کے مخالف امیدوار چودھری زمان علی تھے۔ الیکشن ایک بار پھر غیر جماعتی بنیادوں پر لڑے جا رہے تھے۔ قسمت نے ایک بار پھر قرعہ فال آپ کے حق میں ڈالا اور آپ ڈسٹرکٹ کونسلر منتخب ہو گئے۔ آپ نے والدِ محترم کی منشاء کے مطابق عوام کی خدمت کو اپنا شعار بنایا اور ان کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کی بھر پور کوشش کی، اس بناء پر عوام میں بے حد مقبول ہو گئے۔ آپ کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ نے 1987ء کے لیکن میں ایک بار پھر میدان مار لیا۔ آپ مسلم کانفرنس میں شامل ہو گئے، تعمیر و ترقی کو جاری رکھا اور عوام کی خدمت میں دن رات ایک کر دیے۔ 1991ء میں آپ ایک بار ڈسٹرکٹ کونسل کا الیکش لڑے اور کامیابی سے ہمکنار ہوئے- ایسا لگتا تھا کہ الیکشن میں کامیابی نے آپ کے گھر کا راستہ دیکھ لیا تھا۔راجہ نصیر احمد خان، مسلم کانفرنس کے حلقہ 3 سہنسہ، سرساوہ اور پنجیڑہ کے صدر رہے اور آپ نے پاس یہ عہدہ دس سال تک رہا۔ آپ ضلع کوٹلی کے مسلم کانفرنس کے صدر کے ساتھ ساتھ مرکزی مجلسِ عاملہ کء ممبر بھی رہے۔ آپ مسلم کانفرنس کے مرکزی نائب صدر بھی رہے۔
راجہ نصیر خان نے مسلم کانفرنس کے پلیٹ فارم سے قانون ساز اسمبلی کا الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا اور 1993ء کے ضمنی الیکشن میں کاغزاتِ نامزدگی بھی جمع کروائے۔ جماعتی قائدین کی مشاورت سے آپ مسلم کانفرنس کے امیدوار راجہ منشی خان کے حق میں دست بردار ہو گئے۔  راجہ منشی خان کا تعلق منگرال راجپوت قبیلے سے ہے وہ چھوچھ کے رہائشی ہیں۔ آپ یہ الیکشن چھ ہزار ووٹوں سے ہار گئے جب کہ پیپلز پارٹی کے امیدوار چوھدری مظہر حسین کامیاب ہوئے۔  
مسلم کانفرنس کی حکومت میں راجہ فضل داد خان [مرحوم] سابق وزیرِبلدیات اور وزیرِ امورِ نوجوانان بھی رہ چکے ہیں، نےتین بار قانون ساز اسمبلی کا الیکشن لڑا اور تینوں بار کامیاب ہوئےتھے۔ یوں یہ سیٹ مسلم کانفرنس کی وراثت سمجھی جاتی ہے۔
سنہ 1996ء میں آزاد ریاست میں قانون ساز اسمبلی کے جنرل الیکشن منعقد ہوئے۔ سہنہ کے حلقہ سے راجہ نصیر احمد خان مسلم کانفرنس کے مضبوط امیدوار کے طور پر سامنے آئے۔ آپ مسلم کانفرنس کے ٹکٹ پر لیکشن لڑے اور اپنے مخلاف امیدوار چوھدری مظہر حسین جو حلقہ کے ایم ایل اے رہ چکے ہیں، کو چھ ہزار ووٹوں سے شکست دی تھی۔ جو سفر آپ نے 1979ء میں بحیثیت ممبر یونین کونسل شروع کیا تھا وہ ممبر قانون ساز اسمبلی تک پہنچا تھا۔ آپ عوام کی خدمت کا عزم لے کر میدانِ سیاست میں اترے اور ثابت قدمی سے اس عزم پر قائم و دائم تھے۔ آپ علاقہ سرساوہ، پنجیڑہ سے پہلے شخص تھے جنھوں نے قانون ساز اسمبلی کے انتخاب میں حصہ لیا اورکامیاب ہوئے۔  [آپ لگاتار چار مرتبہ ممبر اسمبلی منتخب ہوئے]۔ آپ ایم-ایل -اے تو بن گئےلیکن پیپلز پارٹی کی گورنمنٹ ہونے کی وجہ سے آپ اہوزیشن میں پانچ سال رہے۔ آپ اسبلی کے فلور پر لوگوں کے حقوق کی بات کرتے رہے۔ آپ نے سیاست میں ایک نئی بات یہ ڈالی کہ عوام سے براہِ راست رابطہ رکھا  اور کھڑپینچوں کو نکال باہر کیا۔ آپ کا یہ اندازِ سیاست عام لوگوں میں بےحد مقبول ہوا اور لوگ آپ کے دل و جان سے چاہنے لگے۔ آپ نے اپوزیشن میں رہ کر حلقے کی بھرپور نمائندگی کی اور اپنے حلقہ کے فنڈز لا کر ترقیاتی کام کیے۔ آپ نے برادری ازم کا خاتمہ کیا اور لوگوں میں یہ شعور بیدار کیا کہ جب تک آپ برادی ازم کی لعنت سے باہر نہیں نکلیں گے تن تک آپ تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا نہ کر سکیں گے۔ اور آپ ہمیشہ کے لیے اس دوڑ سے باہر ہو جائیں گے جو آپ کی قسمت بدل سکتی ہے۔ 
سنہ 2001ء میں آپ دوسری بار قانون سان اسمبلی کے لیے مسلم کانفرنس کے مایدوار کے طور پر سامنے آئے۔ اس مرتبہ آپ کا مقابلہ چودھری مظر حسین کے علاوہ جماعتِ اسلامی کے امیدوار راجہ محمد ریاست خان کے ساتھ ساتھ آزاد امیدوار راجہ ضیاء الحمید خان سے بھی تھا۔ لوگوں کا خیال تھا کہ تین افراد منگرال قبیلہ سے الیکش لڑ رہے ہیں جبکہ باقی سب قبیلوں کے مشترکہ امیدوار ایک ہی ہیں لہزا راجہ نصیر احمد خان ہار جائیں گے لیکن یہ ناعاقبت اندیش یہ نہیں جانتے تھے کہ راجہ نصیر احمد خان لوگوں کے دلوں میں بستے ہیں اور نہیں ہرانا ناممکن ہے۔ آپ یہہ الیکشن بھی 5500 ووٹوں کی اکثریت سے جیت گئے۔ سنہ 2003ء میں پہلی بار آپ کو وزیرِ بلدیات و لوکل گورنمنٹ کی وزارت ملی۔ آپ نے پورے آزاد کشمیر میں تعمیر و ترقی کا انقلاب برپا کر دیا۔ ان آپ کی شہرت صرف اپنے حلقہ انتخاب تک محدود نہ رہی بلکہ پورے آزاد کشمیر میں ترقیاتی منصوبہ جات کی وجہ سے آپ کی شہرت کا ڈنکا بجنے لگا۔ 
سنہ 2006ء میں آپ ایک بار پھر الیکشن کے میدان میں اترے، لوگ آپ کو تعمیر و ترقی کا ہیرو مانتے تھے اس لیے آپ کو اب کی بار قانون ساز امبلی کا الیکشن جیتنے میں کوئی دشواری پیش نہ آئی۔ آپ کے مدِ مقابل ہمیشہ کی طرح پیپلز پارٹی کے امیدوار مظہر حسین، جبکہ پیپلز مسلم لیگ کے سردار بشیر پہلوان تھے۔ آپ مخالف امیدواروں سے 19000 ووٹوں کی لیڈ سے کامیاب ہوئے جو ایک ریکارڈ ہے۔ اس سے پہلے حلقہ کے اندر اتنی بڑی لیڈ سے کوئی امیدوار کامیاب نہ ہوا تھا۔ مسلم کانفرنس کی حکومت قائم ہوئی اور آپ وزیرِ بلدیات و دہی ترقی بنے۔ ڈھائی سال آپ بطور وزیرِ بلدیات و دہی ترقی رہے۔ پورے آزاد کشمیر میں نئے منصوبہ جات شروع کیے جن میں سڑکوں کی تعمیر، سکولوں کی تعمیر اور پلوں کی تعمیر کے علاوہ بے شمار واٹر سپلائی کے منصوبہ جات شامل تھے۔ آپ کا یہ دور کشمیر میں تعمیری کاموں کا سنہری دور شمار کیا جاتا ہے۔ 
آپ کی حکومت کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد لائی گئی لیکن وزیرِ اعظم سردار عتیق احمد خان نے استعفی دے دیا۔ یوں آپ کی وزارت بھی چلی گئی۔ مسلم کانفرنس میں فارورڈ بلاک بنا لیا گیا جو آپ کی کوششوں سے ختم ہوا اور مسلم کانفرنس دوبارہ متحد ہو گئی۔ اتحاد کے بعد پھر عدم اعتماد کی تحریک لائی گئی  اور اس بار یہ تحریک مسلم کانفرنس لائی تھی  اور وزیرِ اعظم سردار محمد یعقوب خان [موجودہ صدر آزاد کشمیر] نے استعفی دے دیا۔ راجہ فاروق حیدر خان وزیرِ اعظم منتخب ہوئے ۔ ایک معاہدہ طے پایا جس کی رو سے سردار عتیق احمد خان مسلم کانفرنس کے صدر اور راجہ فاروق حیدر خان وزیرِ اعظم آزاد کشمیر ہوں گے۔ راجہ فاروق حیدر نے بحیثیت وزیرِ اعظم نو ماہ میں آئین و قانون کی مکمل پاسداری کی اور آئین و قانون کی پاسداری میں آپ کسی کو خاطر میں نہ لاتے تھے۔ راجہ فاروق حیدر خان کا یہ دور سب وزراء اعظم کے دورِ حکومت سے بہترین تھا کیوں کہ اس دور میں آپ نے بہت سے انقلابی اقدامات کیے تھے۔ سردار عتیق احمد خان اور وزیرِاعظم راجہ فاروق حیدر خان کے درمیان اختلافات ہو گئے۔ راجہ نصیر احمد خان اور دیگر زعماء نے اختلافات کو دور کرانے کی بہت کوشش کی۔ اتحاد کو کوشش بار آور ثابت نہ ہوئی اور وزیرِاعظم راجہ فاروق حیدر خان نے استعفی دے دیا۔ سردار عتیق احمد خان ایک بار پھر وزیرِاعظم منتخب ہوئے۔ راجہ نصیر احمد خان نے وزیرِ اعظم راجہ عتیق احمد خان کی کابینہ میں شمولیت اختیار نہ کی۔ آپ پر بہت دبائو تھا اور بہت سے خفیہ ہاتھوں کے چاہنے کے باوجود آپ حکومت میں شامل نہ ہوئے اور اپنے کردار سے ایک مثال قائم کی۔ یہ ایسا دور تھا جس میں پاجچ سالوں میں چار وزراء اعظم تبدیل ہوئے اور چاروں وزراء اعظم مسلم کانفرنس سے تھے۔
 راجہ نصیر احمد خان نے ہمیشہ اصولوں کی سیاست کی اور کبھی بھی اپنے اصولوں کو مفادات کی بھینٹ نہ چڑھایا۔ 1991ء میں جب آپ ڈسٹرکٹ کونسلر تھےتو سردار عتیق احمد خان نے آپ کو سردار سکندر حیات خان کا ساتھ چھوڑنے کے لیے آپ کو مشیر حکومت بنانے کی پیش کش کی لیکن آپ نے انکار کیا۔ 1996ء میں جب آپ ایم-ایل -اے تھے تو اس وقت مسلم کانفرنس دو حصوں میں تقسیم ہو چکی تھی۔ ایک گروپ سردار سکندر حیات خان کا تھا جس کے چار ممبران اسمبلی تھے۔ دوسرا گروپ سردار عبدلقیوم خان کا تھا۔ اس وقت راجہ ممتاز حسین راٹھور سپیکر اسمبلی، جب کہ بیرسٹر چودھری سلطان محمود ریاست کے وزیرِ اعظم تھے۔ اسپیکر نے وزیرِ اعظم کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد لائی جو ناکام رہی۔ سردار سکندر حیات خان نے اپنے چار ممبران جن میں راجہ نصیر احمد خان بھی تھے، کہا کہ آپ حکومت میں شامل ہو جائیں، لیکن آپ نے اصولوں پر سمجھوتہ نہ کیا اور پیپلز پارٹی کی حکومت کا حصہ بننے سے انکار کر دیا۔
اس طرح جب 2010ء میں راجہ فاروق حیدر خان کے استعفی کے بعد سردار عتیق احمد خان وزیرِاعظم بنے تو راجہ نصیر احمد خان نے فیصلہ کیا کہ اب ہم مسلم کانفرنس کے ساتھ نہیں چل سکتے کیوں کہ جس جماعت کا صدر ہی اپنے ذاتی مفادات کے لیے جماعت کا استحصال کرے اور اپنے اقتدار کے لیے اوروں کی قربانی دے تو ایسے شخص کے ساتھ کون چل سکتا ہے۔ آپ نے طارق فاروق چوھدری آف بھمبر[یہ اس وقت ایم ایل اے نہ تھے] کے ساتھ مل کر مسلم لیح [ن] کے قیام کا فیصلہ کیا اور راجہ فاروق حیدر خان سے ملاقات کر کے تمام معاملات طے کیے۔ بعد میں دوسرے لوگ بھی شامل ہوئے اور یہ سفر قافلے کی شکل اختیار کر گیا بقل شاعر
میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کاررواں بنتا گیا
آخر کار آپ کی محنت رنگ لائی اور دسمبر 2010ء میں میاں نواز شریف نے ایک بڑے عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے مسلم لیگ {ن} کی آزاد کشمیر میں بنیاد رکھی۔ ایک نئی جماعت کا قیام اور پھر پہلے الیکشن میں اس جماعت کے پلیٹ فارم سے تیرہ سیٹوں کا حصول آپ کی سیاسی بسیرت کی عکاسی کرتاہے۔ آپ اکثر اپنے سیاسی جلسوں میں ایک بات کہا کرتے ہیں کہ "میں سیاسی پیر ہوں اور میں نے سیاست میں پی ایچ ڈی کی ہوئی ہے"سنہ 2011ء کے الیکشن میں آپ نئی جماعت مسلم لیگ [ن] کے امیدوار کے طور پر سامنے آئے۔ آپ کے مخالف امیدواروں میں مسلم کانفرنس کے راجہ ضیاالحمید خان جب کہ پیپلز پارٹی کے سردار بشیر پہلوان تھے۔ آپ یہ الیکشن 2300 ووٹوں کی لیڈ سے جیتے۔ لوگوں کا بھرپور اعتماد آپ کے کردار اور سیاسی فیصلوں کی حمایت کرتا ہے۔ آپ نے جہاں سیاست میں اتنا نام کمایا وہاں آپ کو اپنے خاندان کا بھی بھرپور تعاون حاصل رہا۔ آپ کی زوجہ نے ہر کام میں آپ کی معاونت کی۔ راجہ نصیر احمد خان کی کامیابی کے پیچھے جہاں ان کی اپنی محنت ہے وہاں ان کی بیوی کا بہت بڑا کردار ہے۔ انھوں نے اپنے گھر سے آج کسی کو کھانے کھلائے بغیر واپس نہیں بھیجا اور ہر ضرورت مند کی حاجت ورائی کی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ پورے علاقے میں "باجی" کے نام سے مشہور ہیں۔ 
راجہ نصیر احمد خان کے بارے میں ہم کہ سکتے ہیں کہ "آہ آیا، اس نے دیکھا اور فتح کر لیا"۔ آپ نے سیاست میں آٹھ الیکشن لڑے اور ان سب میں کامیاب ہوئے۔ آپ کی کامیابی کا راز عوام کی بے لوث خدمت اور غریبوں سے سچ پیار، آپ کی محنت، لگن اور جراءت مندی کا بڑا عمل دخل تھا، وہاں حلقہ کے بے شمار دوستوں کے ساتھ ساتھ آپ کے عزیزوں جن میں پروفیسر راجہ غضنفر علی خان، ماسٹر راجہ محمد ذاکر خان اور راجہ محمد طالب خان ایڈووکیٹ کی کوشیں بھی شامل تھیں جو ہمیشہ آپ کے دستِ راست کے طور پر کام کرتے رہے۔ آپ یہ شخصیات بھی حلقہ میں راجہ نصیر احمد خان کی وجہ سے ایک اہم سیاسی مقام رکھتی ہیں۔ آپ کے ترقیاتی کاموں کی فہرست بہت طویل ہے لیکن چند ایک کاموں کا احوال کچھ یوں ہے: 
  :سہنسہ شہر کی تعمیر و ترقی
سہنسہ حلقہ تحصیل کا صدر مقام ہے۔ آپ نے یہاں شہری سہولیات بہم رسانی کے لیے شبانہ روز محنت کی۔ تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال، گریڈ سٹیشن برقیات، گریٹر واٹر سپلائی، ایڈیشن جج کی عدالت کا قیام، گرلز ڈگری کالج کا قیام اور بوائز ڈگری کالج میں سائنس کلاسز کا اجراء آپ کے کارہائے نمایاں ہیں۔ 
شعبہ تعلیم
اپنے دورِ اقتدار میں آپ نے حلقہ میں، پرائمری، مڈل  اور ہائی سکولوں کا جال بچھایا اور حلقہ کے عوام کو ان کی دہلیز پر تعلیمی سہولیات بہم پہنچائیں۔ اپنے حلقہ میں اعلی تعلیم کے لیے گرلز ڈکری کالج سہنسہ، گرلز انٹر کالج سرساوہ اور گرلز انٹر سائنس کالج تریڑھ قائم کیے۔ فروغ تعلیم کے لیے آپ کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ 
رسل و رسائل
سہنسہ کا حلقہ ایک وسیع حلقہ ہے۔ اس حلقہ کے دور افتادہ دیہات تک رسائی کے ممکن بنانے کے لیے آپ کے دورِ اقتدار میں 400 کلومیٹر پختہ سڑکیں تعمیر کروائی گئیں اور لوگوں کو سفری صعوبتوں سے نجات دلوائی۔ ان سڑکوں کے علاوہ مختلف جگہوں پر درجنوں پل تعمیر کروائے، جن میں چھنی پینتھل، اودھے چک نور، شاہ پور، کینی، سیاہ، پیرہن، جرائی سیداں، کھجرولا، منڈی پتن، ڈنگی سنوت، چھنی، سہنسہ، بھرنڈ بھٹہ، داروناں ناڑ،  پتن سالگراں اور نالہ رنگڑ سرساوہ [چوہاڑہ] شامل ہیں۔  
روزگار کے مواقع
اپنے حلقہ کے عوام کو روزگار کے مواقع فراہم کرنے کے لیے آپ نے تین ہزار کے لگ بھگ آسامیاں تخلیق کروائیں۔ ان اسامیوں میں جریدہ و غیر جریدہ پوسٹیں شامل ہیں اور میرٹ پر نو جوانوں کو بھرتی کروایا۔ 
طبی سہولیات
اپنے حلقہ میں لوگوں کو طبی سہولیات بہم پہنچانے کے لیے آپ نے سہنسہ میں تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال کو جدید سہولیات سے آراستہ کیا۔ آپ نے سرساوہ میں پچاس بیڈ کا بیسیک ہیلتھ یونٹ کا پی سی ون منظور کروایا اور حلقہ میں متعدد ڈسپنریوں کو عملہ فراہم کیا۔ 
ریسٹ ہائوس
اپنے حلقہ میں سرساوہ کے مقام پر ریسٹ ہائوس تعمیر کروایا۔ وادی نیلم میں آپ نے سیاحت کے فروغ کے لیے تین ریسٹ ہائسز تعمیر کروائے۔ اس بات سے آپ کا سیاحت سے لگائو کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ 
راجہ فضل داد خان
ممتاز قانون دان راجہ فضل داد خان تین بار حلقہ سہنسہ سے ممبر قانون ساز اسمبلی منتخب ہوئے۔ آپ اخلاق، متانت اور وضع دای کا مجسم نمونہ تھے۔ آپ کا تعلق شہنسہ کے منگرال راجپوت خاندان سے ہے۔ آپ شرافت اور خدمتِ خلق کی وجہ سے شہرت رکھتے ہیں۔ حکومتِ آزاد کشمیر میں کافی عرصہ وزیر بھی رہے۔  
راجہ فضل داد خان 1946ء میں سہنسہ کے ایک گائوں کلہوڑ میں پیدا ہوئے۔ یہ خاندان اپنی شرافت کی وجہ سے معتبر جانا جاتا ہے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم پرائمری سکول جبری مہوری سے حاصل کی۔ مڈل کلاس آپ نے گورنمنٹ مڈل سکول اٹکورہ سے پاس کیا۔ میٹرک آپ نے گورنمنٹ پائیلٹ ہائی سکول کوٹل یسے امتیازی نمبرات سے پاس کیا۔ جب میٹرک پاس کی تو متوسط طبقہ سے تعلق کی بناء پر مزید تعلیم جاری رکھنا محال ہو گیا۔ چناچہ آپ نے معاش کے سلسلے میں کراچی کا رخ کیا جہاں آپ نے ریلوے میں ملازمت اختیار کی۔ آپ کو تعلیم سے بے حد لگائو تھا اور تعلیم ادھوری چھوڑنے کا دکھ بھی تھا۔ اسی لیے آپ نے ملازمت کے ساتھ ساتھ تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔  
یہ 1960ء کا عرصہ تھا جب آپ نے تعلیم کا ارادہ کیا۔ پھر کیا تھا، دن گزرتے گئے اور آپ تعلیم اور معاش ساتھ ساتھ چلاتے رہے۔ آپ کی محنتِ شاقہ رنگ لائی اور آپ نے 1973ء میں سروس کے ساتھ لاء کی ڈگری بھی حاصل کر لی۔ تعلیم کی تکمیل کے ساتھ ہی آپ کا دل کراچی سے بھر گیا اور وطن کی یاد ستانے لگی۔ چنانچہ آپ واپس سہنسہ آ گئے اور سہنسہ میں وکالت شروع کر دی۔ آپ اپنے پیشے سے مخلص رہے اور خوب محنت کی۔ چند برسوں میں محنت اور لگن سے آپ کا نام چوٹی کے وکلاء میں لیا جانے لگا۔ 
راجہ فضل داد خان وکالت کے ساتھ ساتھ سماجی اور سیاسی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیتے رہے۔ یوں حلقہ نمبر 3 سہنسہ میں آپ منگرال فیملی کے ابھرتے ہوئے نوجوان وکلاء میں سر فہرست آئے۔ وکالت کے دوران آپ نے سب جج کے لیے پبلک سروس کمیشن کا امتحان دیا اور کامیابی حاصل کی۔ لیکن آپ کا میلان سیاست تھا نہ کہ نوکری۔ چنانچہ آپ نے سیاست اور لوگوں کی خدمت کو نوکری پر ترجیح دی۔ آپ نے عملی سیاست کے لیے مسلم کانفرنس کا پلیٹ فارم پسند کیا۔ چنانچہ آپ نے 1975ء میں مسلم کانفرنس کے ٹکٹ پر سہنسہ سے امیدوار قرار پائے لیکن قسمت کے کچھ اور ہی منظور تھا۔ پی پی پی کی دھاندلی اور غنڈی گردی کی وجہ سے مسلم کانفرنس نے الیکشن کا بائیکاٹ کر دیا۔ یوں آپ کا اکمیابی کا خواب ادھورا رہ گیا۔ آپ نے ہمت نہ ہاری اور لوگوں کی خدمت کو اسی جزبے اور لگن سے جاری رکھا  
راجہ فضل داد خان نے 1985ء میں ایک بار پھر لیکش لڑا اور کامیاب قرار پائے۔ آپ کو 1987ء مین وزیرِ بلدیات کا قلم دان سونپا گیا۔ 1990ء میں آپ نے دوبارہ الیکشن لڑا اور اللہ تعالی نے ایک بار پھر آپ کو کامیابی سے نوازا تا کہ آپ ادھورے کام مکمل ہو سکیں۔ ایک سال کے بعد 1991ء میں راجہ ممتاز حسین راٹھور نے اسمبلی تحلیل کر دی اور نئے انتخابات کروائے جس میں راجہ فضل داد خان پھر کامیاب قرار پائے اور کامیابی کی ہیٹرک مکمل کی۔ اس دوران آپ کو ہیپیٹائٹس کا مرض لاحق ہو گیا اور 20 جون 1991ء کو آپ علاج کی غرض سے لندن چلے گئے لیکن ڈاکٹروں نے آپ کو لاعلاج قرار دے کر واپس بھیج دیا۔ 
آزاد حکومت کے وزیرِاعظم سردار عبدلقیوم خان نے آپ کو وزارتِ نوجوانان کا قلمندان دیا جو تا دمِ مرگ آپ کے پاس رہا۔ زندگی نے وفا نہ کی اور آپ 20 فروری 1993ء کو خالقِ حقیقی سے جا ملے آپ نے اپنی سیاسی زندگی میں کبھی کسی سے کوئی خلاش نہ رکھی  اور کبھی تھانے کچہری کی سیاست نہ کی۔ یہی وجہ ہے کہ شرافت اور ایمانداری کی وجہ سے لوگ آج بھی آپ کو اچھے الفاظ میں یاد کرتے ہیں۔ اللہ تعالی آپ کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے۔  
آپ کی فیملی میں آپ کے بیٹے راجہ ممتاز فضل داد نے وکالت کی ڈگری حاصل کی اور سہنسہ میں وکالت شروع کر دی۔ تھوڑی ہی عرصہ میں ان کا شمار بڑے وکلاء میں ہونے لگا لیکن شاید انہیں اپنے والد کے مقام تک پہنچنے کے لیے بہت محنت کی ضرورت ہے۔ البتہ ہمیں راجہ ممتاز فضل دادایڈووکیٹ کی شکل میں ایک اور راجہ فضل داد نظر آ رہا ہے جو اپنے والد کی ساری خوبیاں  اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔  
کرنل راجہ محمد محمود خان 
تحریک آزای  کشمیر کے دستہ کے سرخیل کمانڈر راجہ محمد محمود خان نے گل پور کے قلعہ تھروچی سے ڈوگرہ فوج کو بھگانے میں قائدانہ کردار ادا کیا۔ وہ ریٹائر آرمی کمانڈر تھے اور دورانِ سروس آپ نے جرءات اور بہادری سے کارہائے نمایاں سر انجام دیے اور کیپٹن کے عہدے تک پہنچے۔ مہاراجہ ہری سنگھ نے دورہ کوٹلی کے دوران آپ سے ملاقات کی اور تحریک آزادی سے آپ کے کردار کو کم کرنے کی کوشش کی مگر ناکام رہا۔ اور آپ نے اس خطہ کی آزادی میں نمایاں کردار ادا کیا۔  
کرنل راجہ محمود خان 1892ء میں گلپور کے علاقے موضع کھٹلی میں پیدا ہوئے۔ گلپور کا نام گل محمد گکھڑ کے نام پر رکھاگیا۔ گل محمد گکھڑ، گکھڑ خاندان کا بہت بڑا رئیس تھا۔ گل محمد گکھڑ کے بھائی جسرت گکھڑ کے ہم زلف ملک مسعود [وزیرِ اعظم کشمیر] نے اس علاقے پر بہت عرصہ حکومت کی۔ ملک مسعود کی سلطنت میں جموں کشمیر کے علاوہ گلگت، بلتستان اور ملتان بھی شامل تھے۔ ملک مسعود بے قلعہ تھروچی 1425ء میں تعمیر کروایا۔ جموں کشمیر میں بارشیں بہت زیادہ ہوتی تھیں جس کی وجہ سے چاول کی فصل عموماً خراب ہو جایا کرتی تھی۔ ملک مسعود قحط سے بچنے کے لیے غلہ مختلف علاقوں سے اس راستے کشمیر لاتا تھا اور اس نے غلہ محفوظ کرنے کے لیے قلعہ تھروچی کی تعمیر کی تھی۔ بعد میں وہ اسے عسکری مقاصد کے لیے بھی استعمال کرتا رہا۔ وزیرِ اعظم کشمیر ملک مسعود نے 1424ء میں منگرال قبیلہ کے جدِ امجد راجہ سہنس پال کو دعوتِ اسلام دی جو انھوں نے قبول کر لی۔ راجہ سہنس پال کے کہنے پر تمام علاقہ نے اسلام قبول کیا۔ 
کرنل راجہ محمود خان کی ابتدائی تعلیم محض حروف شناسی تک تھی۔ آپ نے کوئی باقاعدہ تعلیم حاصل نہ کی۔ جب آپ 1908 ء میں فوج میں بھرتی ہوئے تو وہاں آپ نے سیکنڈ انگلش آرمی کورس پاس کیا۔ آپ نے فوج میں نظم و نسق پر عمل کیا اور اپنی محنت اور لگن سے خدمات انجام دیں۔ آپ کی فوج میں دلچسپی، جنگی حکمتِ عملی اور جرءات و بہادری کے دیکھتے ہوئے 1937ء میں صوبیدار میجر ترقی یاب ہوئے۔ آپ ایک بہترین جنگی کمانڈر کی تمام خوبیاں رکھتے تھے۔ 1941ء میں آپ کو سیکنڈ لیفٹیننٹ کے عہدے پر ترقی دے دی گئی۔ افواجِ ہند میں بھرتی ہونا بہت مشکل بات تھی۔ اس وقت بہت کم تعداد میں مسلمان اس عہدے تک ترقی پاتے تھے۔ لیکن کامیابی نے آپ کو دیکھ لیا اور آپ کی منزل کہیں آگے تھی۔ سنہ 1946ء میں آپ کیپٹن بن گئے۔ آپ کی تعیناتی فرسٹ فنٹئیر رجمنٹ [انفنٹری] میں کر دی گئی۔ یہاں کچھ عرصہ فوج میں گزارنے کے بعد آپ فوج سے ریٹائیر ہو گئے۔  
ریٹائیرمنٹ کے بعد آپ اپنے گائوں واپس آئے۔ اس زمانے میں مہاراجہ کے خلاف تحریک زوروں پر تھی۔ ایک جنگی کمانڈر کا تحریک سے دور رہنا ممکن نہ تھا۔ چنانچہ آپ بھی اس تحریک کے ہر اول دستے میں شامل ہو گئے۔ آپ نے علاقے کے لوگوں کو منظم کر کے چھوٹی چھوٹی کمپنیوں میں تقسیم کر دیا۔ آپ اکست 1947ء میں 10 کوٹلی بٹالین کا قیام عمل میں لائے جو آزادی کے بعد 12 اے کے، کے نام سے موسوم ہوئی۔ آپ اس بٹالین کے کرنل بنے۔
1946ء  کے آخر میں مہاراجہ ہری سنگھ بغاوت کی بو محسوس کر کے کوٹلی کے دورے پر آیا۔ علاقے کے تمام زیلدار ملاقات کے لیے آئے ہوئے تھے۔ کرنل راجہ محمود خان بھی ملاقات کے لیے گئے لیکن ڈیوٹی پر مامور فوجی افسر نے آپ کو اند جانے سے روک دیا۔ آپ مہاراجہ کا راستے میں سڑکے کنارے کھڑے ہو کر انتظار کرنے لگے۔ مہاراجہ کی گاڑی آپ کے پاس آ کر رک گئی اور مہاراجہ نے آپ کو اپنے ساتھ پیچھے گاڑی میں بٹھا لیا۔ راستے میں کرنل صاحب نے تمام واقع مہاراجہ کو سنایا۔ جب کوٹلی پہنچے تو مہاراجہ گاڑی سے اتر کر اند چلا گیا۔ کرنل صاحب جب اندر گئے تو وہی فوجی افسر آپ سے دوبارہ آنے پر بحث کرنے لگا۔ جب بات توتومیں میں تک پہنچ گئی تو مہاراجہ ہری سنگھ جو شاہی لباس اتار رہا تھا وہ پاجامے بنیان میں باہر آیا۔ مہاراجہ جب بھی کسی میٹنگ میں جاتا تو فوجی لباس پہنتا تھا۔ اس نے فوجی افسر کے کندھوں پر لگے سٹکرز اتار پھینکے اور اسی وقت اسے نوکری نے نکال دیا۔ کرنل صاحب کا سابقہ ریکارڈ مہاراجہ کے سامنے تھا۔ 
مہاراجہ ہری سنگھ نے ذیلداروں سے ملاقات میں امن و امان کو یقینی بناے پر زور دیا۔ ذیلداروں نے مہاراجہ کو صحیح صورت حال سے آگاہ کیا۔ کرنل صاحب نے بھی اپنی بات مہاراجہ تک پہنچائی کہ منگرال قوم نے پچھلی صدی میں حکومت کے ساتھ مکمل تعاون کیا لیکن اب حالات بدل چکے ہیں اور لوگ آزادی پسند ہو چکے ہیں۔ لہزا انھیں ان کی خواہش کے مطابق زندگی گزارنے دی جائے۔ مہاراجہ کو یہ بات پسند نہ آئی لیکن اس نے کوئی جواب نہ دیا اور دربار ختم کر دیا۔  
جنگِ آزادی قلعہ ادین سے خوشخال خان ستی راجپوت، آزاد پتن سے راجہ سخی دلیر خان منگرال راجپوت، سہنسہ سے کیپٹن نتھا خان گجر، صوبیدار سردار بارو خان، لیفٹیننٹ راجہ کرم داد خان منگرال راجپوت کی سرکردگی میں زور و شور سے جاری تھی۔ ان علاقوں سے ڈوگرہ فوج تقریباً بھاگ گئی تھی۔ ڈوگرہ فوج نے قلعہ تھروچی میں پناہ لی۔ یہاں ڈوگرہ فوج کی دو پلٹن فوج تھی۔ ایک پلٹن مسلمان تھی جب کہ دوسری پلٹن غیر مسلم تھی۔ فوجہ آفیسران میں کیپٹن پریتم سنگھ گھورکھا، کرنل محمد حسین اور کمانڈنٹ کرنل رحمت اللہ تھے۔ فوج کی اعلی قیادت کرنل رحمت اللہ کے پاس تھی۔ ڈوگرہ فوج  قلعہ میں محصور تھی۔ اس کے پاس غلہ تقریباً ختم ہو چکا تھا۔ باہر کے حالات ٹھیک نہ ہونے کی وجہ سے ذرائع رسد بند تھے۔ کرنل رحمت اللہ نے کرنل راجہ محمد محمود خان کو قلعہ کے اندر ملاقات کے لیے بلایا۔ آپ تشریف لے گئے، کرنل رحمت اللہ نے آپ سے استدعا کی کہ خوراک کی رسد پہنچائی جائے اور سلاسلے میں مقامی ہندو آبادی کو بھی شامل کیا جائے۔ کرنل راجہ محمود خان نحے اسی بہانے علاقے کا دورہ شروع کر دیا اور ہندو آبادی کی نقل و حرکت سے بھی باخبر رہنے لگے۔ ایک دن سہنسہ سے واپسی پر آپ کو اطلاع ملی کہ فوج قلعہ چھوڑ کر چلی گئی ہے تو آپ فوراً قلعہ میں پہنچے ، دیکھا تو واقعی کوئی آرمی نہ تھی قلعہ خالی تھا۔  آپ نے فوراً سفید کپڑے کا جھنڈا لہرایا، اسے سلامی دی اور وہاں موجود توپوں، جو ڈوگرہ فوج چھوڑ کر چلی گئی تھی، سے چند فائر کئے۔ یہ اس بات کا اعلان تھا کہ قلعے پر ہمارا قبضہ ہو گیا ہے اس وقت آپ کے ساتھ کل آٹھ لوگ قلعے میں موجود تھے۔  
اگلی صبح کازب آپ نے دیکھا کہ ڈوگرہ فوج دو کمپنیوں سمیت قلعے کی طرف آ رہی ہے اور وہ اسلحے سے لیس ہے ۔ آپ نے جنگی حکمتِ عملی کے تحت قلعہ خالی کر دیا۔ جب ڈوگرہ فوج قلعے میں پہنچی تو انھیں کسی طرح بھی یہ احساس نہ ہوا کہ یہاں کسی کا قبضہ تھا۔ کرنل صاحب صبح ہوتے ہی اپنے گھر پہنچ چکے تھے۔ چند گھنٹوں بعد کوٹلی منگرالاں سے ستائیس جوانوں پر مشتمل ایک دستہ پہنچا لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ تھوڑی سی نفری اور محدود جنگی ساز و سامان سے ڈوگرہ فوج سے مقابلہ عقل مندی نہ تھی اس لیے آپ نے خاموشی بہتر جانی اور اچھَے وقت کا انتظارکیا۔  
کرنل رحمت اللہ نے قلعہ پر قبضہ کے بعد پریتم سنگھ سے صلاح مشورہ کے بعد علاقے کی گشت کا فیصلہ کیا۔ کرنل راجہ محمود خان کے گھر سے ملحق ایک فوجہ چوکی قائم کی۔ اس چوکی کا مقصد کرنل صاحب پر نظر رکھنا تھا اور یہاں گورکھا فوجی تعینات کیے گئے۔ کرنل صاحب کے لیے مشکلات بڑھ گئیں۔ اگلے روز جن کرنل رحمت اللہ گارڈ کی تبدیلی کے لیے آیا تو کرنل راجہ محمود خان نے اکیلے میں ملاقات کی خواہش ظاہر کی جو کرنل رحمت اللیہ نے منظور کر لی۔ دونوں میں ایک قدر مشترک تھی کہ مسلمان تھے۔ کرنل راجہ محمود خان نحے انھیں سارے حالات سے آگاہ کیا کہ اگر اب کی بار ہمیں آزادی نہ مل سکی تو پھر مسلمان یہ خواب کبھی بھی شرمندہ تعبیر ہوتا نہیں دیکھ سکیں گے اور ہماری آنے والی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔ 
دونوں کی ملاقات نتجہ خیر رہی۔ فیصلہ یہ ہوا کہ یہاں صرف مسلمان فوجی تعینات کیے جائیں گے۔ اس کے لیے یہ پلاننگ بھی کی گئے کہ اگلی صبح جب کیپٹن پریتم سنگھ ڈوگرہ فوجیوں کے ہمراہ چوکی کی طرف آئے گا تو راستے میں اس پر فائرنگ کی جائے گی تا کہ وہ ڈر کر مسلمان فوجیوں کو یہاں تعینات کرے۔ پلان کامیاب ہوا اور کیپٹن پریتم سنگھ نے کرنل رحمت اللہ سے مسلمان فوجیوں کی تعیناتی پر زور دیا۔ اب کرنل صاحب کے لیے کوئی خاص مشکل نہ تھی وہ مسلمان فوجیوں کی موجودگی میں اپنے آپ کو آزاد سمجھتے تھے اور اپنا کام جاری رکھے ہوئے تھے۔ کرنل رحمت اللہ اور کرنل راجہ محمود خان کی ملاقات تقریباً روز ہی ہو جایا کرتی تھی اور نئی نئی تدبیریں اختیار کی جاتیں تھیں۔  
آخر کار یہ فیصلہ کیا گیا کہ قلعے پر حملہ کیا جائے۔ ایک رات اندھیرے میں کرنل رحمت اللہ قلعے کے اندر چلے گئے۔ ڈوگرہ فوج نے آنے کی وجہ پوچھی تو کرنل رحمت اللہ نے بتایا کہ کل صبح حملہ ہونے والا ہے  اس لیے وہ مزید کمک کے لیے آئے ہیں۔ کیپٹن پریتم سنگھ بھانپ گیا کہ اب حالات ٹحیک نہیں ہیں چنانچہ وہ چپکے سے قلعے سے نکل کر بھاگ گیا۔ کچھ دیر بعد کرنل راجہ محمد محمود خان نے ہمراہ مسلمان ڈوگرہ سپاہیوں اور مجاہدین کے قلعہ پر ہلہ بول دیا۔ گھمسان کی جنگ ہوئی۔ آخر کا فتح کرنل رحمت اللہ اور کرنل راجہ محمد محمود خان کے حصے میں آئی اور قلعہ تھروچی کو ڈوگرہ فوج سے آزاد کروا لیا گیا۔ 
بعد میں مجاہدین نے کرنل راجہ محمد محمود خان کی سربراہی میں کوٹلی کو فتح کرنے کے لیے پیش قدمی کی جب کہ دیگر کمانڈر بھی اپنے اپنے محازوں کو فتح کرنے کے بعد ٹلی کا رخ کر چکے تھے جن میں راجہ سخی دلیر خان راجوری فتح کرنے کے بعد واپس آ چکے تھے۔ کرنل صاحب نے راجہ سخی دلیر خان کی قیادت میں کعٹلی پر حملہ کیا لیکن دشمن پہلے ہی علقہ خالی کر کے جا چکا تھا اور تھوڑی سے مزاحمت کے بعد کوٹلی فتح ہو گیا۔
کرنل راجہ محمد محمود خان نے 1979ء میں وفات پائی۔ نہ صرف منگرال قبیلہ بلکہ پوری مسلم امہ اس عظیم کمانڈر سے محروم ہو گئی جو دشمن کے لیے خوف کی علامت تھا۔ قوم آپ کے کارنامے صدیوں تک یاد رکھے گی۔ خدا انھی
ں غریقِ رحمت کرے۔  
راجہ محمد اسلم خان ایڈووکیٹ
سابق ممبر آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی محترم راجہ محمد اسلم خان ایک ذہین، نامور اور عوام کا درد رکھنے والے انسان تھے۔ زندگی کے نشب و فراز میں وہ ہمیشہ حق کا ساتھ دیتے رہے اور لوگوں کو ان کے حقوق دلانے میں ہمیشہ کوشاں رہے۔ آپ کا شمار ضلع کوٹلی کی نامور شخصیات میں ہوتا ہے۔  
راجہ محمد اسلم خان کے والد کا نام راجہ علی اکبر خان تھا۔ آپ ضلع کوٹلی کے دور افتادہ گائوں براٹلہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے دادا صوبیدار دوست محمد خان نے آپ کی پیدائش پر منوں مٹھائی تقسیم کی۔ آپ کا نسب راجہ سینس پال کے دوسرے بیٹے راجہ تتار خان سے ملتا ہے۔ آپ کے دادا راجہ دوست محمد خان نے  آپ کے تعلیم پر بھرپور توجہ دی ۔ ان کی کاوشوں سے ہی آپ نے ابتدائی تعلیم کے دوران اعلی کارکردگی دکھائی اور اساتزہ کی خصوصی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ آپ کی ذہانت اور مئودب رویہ ہی آپ کی کامیابی کا ذریعہ بنا۔ چنانچہ 1950ء  میں آپ نے سندھ مسلم لاء کالج سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی اور دادا کی تصیحت پر عمل کرتے ہوئے واپس اپنے گائوں آئے اور لوگوں کی خدمت کو اپنا شعار بنایا۔ 
راجہ محمد اسلم خان ایڈووکیٹ نے 1951ء میں میر پور بار سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا۔ آپ نے ہمیشہ وکالت کے پیشے کو لوگوں کی فلاح و بہبور کے لیے استعمال کیا۔ آپ نے پورے علاقے میں اپنی ذہانت اور محنت سے وکالت میں ایک نام بنایا اور منگرال قبیلہ کے سب سے نامور وکیل کہلائے۔ آپ وکالت میں لوگوں کی خدمت تو کر ہی رہے تھے، سیاست میں بھی قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا۔ لوگوں نے آپ کے اس فیصلے کو سر انکھوں پر لیا۔ لوگوں کی شدید خواہش پر آپ نے 1962ء میں ڈسٹرکٹ کونسلر کا لیکشن لڑا اور کامیاب ہوئے۔ آپ کی وکالت کی شہرت تو تھی ہی ، سیاست میں بھی آپ نے ایک مقام پیدا کیا۔ جلد ہی آپ کے ایچ خورشید کے خاص آدمیوں میں شمار کیے جانے لگے۔  
سنہ 1975 کے عام انتخابات میں آپ نے بھرپور حصہ لیا اور حلقہ نمبر 4 چڑھوئی سے ممبر قانون ساز اسمبلی منتخب ہوئے۔ آپ نے اس دوران پیپلز پارٹی میں شمولیت کا فیصلہ کیا۔ آپ نے پانچ سال اسمبلی کے اندر اپنے حلقے کی بھرپور نمائندگی کی اور لوگوں کے حقوق کا تحفظ کیا۔ آپ نے دوسری بات 1985ء کے الیکشن میں حصہ لیا لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔ آپ کا علاقے میں بالعموم اور اپنے قبیلہ میں بالخصوص بڑا مقام ہے۔ 
آپ دل کے عارضے میں مبتلا تھے۔ آپ کا وصال دسمبر 1985ء میں حرکتِ قلب بند ہونے سے ہوا۔ اللہ انھین کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے۔
آپ کے بیٹے بلال اسلم ایڈووکیٹ والد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے پیشہ وکالت سے منسلک ہیں اور آپ میر پور ہی میں وکالت کر رہے ہیں اور سینئیر وکلاء میں شمار کیے جاتے ہیں۔ میر پور بار میں آپ نے مختلف عہدوں کے لیے کئی بار الیکشن لڑا اور کامیاب ہوئے۔ آپ وکلاء کے پلیٹ فارف سے ان کے حقوق کے لیء جدو جہد کرتے رہے۔ آپ نے اپنے والد کی طرح عوام کی خدمت کو اپنا شعار بنا رکھا ہے۔ اللہ تعالی انھیں اپنے والد کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔
 

بلاگرراجہ ممتاز احمد

        نوٹ: بلاگر کا کتاب کے کسی بھی متن سے متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں ہے
 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

MANGRAL RAJPOOT BOOK PART 9

منگرال راجپوت کتاب پارٹ 11

MANGRAL RAJPOOT BOOK PART 7