منگرال راجپوت پارٹ 28

زیلدار راجہ کرم داد خان
زیلدار راجہ کرم داد خان ، راجہ فجو خان کے گھر پیدا ہوئے۔ راجہ فجو خان علاقہ سہنسہ میں زیلدار، نمبردار تھے۔ نمبردار اور زیلدار ہونے کی وجہ علاقہ کے لوگ آپ کی بہت عزت کرتے تھے۔ راجہ کرم داد خان کی پیدائش پر آپ کے والد نے منوں مٹھائی تقسیم کی۔
راجہ کرم داد خان نے تیسری جماعت تک تعلیم حاصل کی۔ جب آپ جوان ہوئے تو آپ نے اپنے والد کے کام کو سمجھنا اور توجہ دینی شروع کی۔ آپ کے والد بڑے نامی گرامی زیلدار نمبردارتھے۔ اس لیے مہاراجہ سے اچھی خاصی علیک سلیک تھی۔ راجہ فجو خان نے اس وقت جموں کے گورنر راجہ افضل خان [والد راجہ زولقرنین خان [سابق وزیرِ حکومت  و صدر ریاستِ جموں و کشمیر] سے ملاقات کر کے اپنے بیٹے کی ایڈجسٹمنٹ کی بات کی۔
راجہ کرم داد خان "پرجا سبھا" کے تحصیل کوٹلی سے پہلے ممبر تھے۔ 1942ء میں آپ کو براہِ راست منتخب کیا گیا۔ راجہ کرم داد نے اپنے علاقے کا مقدمہ مہاراجہ کی اسمبلی میں بھرپور طریقے سے لڑا۔ آپ نے لوگوں کی جان ومال کا تحفظ یقینی بنایا۔
سنہ 1947ء کی جنگِ آزادی کے وقت آپ سری نگر میں کسی کام سے گئے ہوئے تھے۔ جب حالات بہت خراب ہوئے تو آپ نے بلدیو سنگھ بٹھانیاں سے بات کی جس نے انتہائی کم وقت میں آپ کی واپسی کا بندوبست کر کے آپ کو کوٹلی روانہ کیا۔ آپ گھر واپس نہ آئے کیونکہ حالات انتہائی خراب تھے اور لوگوں میں مہاراجہ کے خلاف شدید نفرت پائی جاتی تھی اور آپ مہاراجہ کے متعمد ساتھیوں میں شمار ہوتے تھے۔اس دوران میں کرنل راجہ محمود خان کے زیرِ کمان سہنسہ میں ایک میٹنگ ہوئی جس میں کیپٹن نتھا خان [والد چودھری محمد یعقوب خان سابق ممبر کسمیر کونسل] لیفٹننٹ راجہ کرم داد خان، صوبیدار سردار بارو خان کے علاوہ کہنی کے سادات قبیلہ کے لوگ بھی شامل تھے۔ فیصلہ یہ ہوا کہ مہاراجہ کی فوج کے خلاف بھرپور حملہ کر کے اس کے بھگایا جائے اور اس کے کسی ساتھی کو معاف نہ کیا جائے۔
صوبیدار سردار بارو خان جو سدھن قبیلہ سے تھے اور وہ سہنسہ میں تحریکِ آزادیءکشمیر کی مسلح جدو جہد کے دوران مہاراجہ کے خلاف لڑتے ہوئے شہید ہو گئے تھے، نے راجہ کرم داد خان اور ان کی فیملی کی حفاظت کی اور شہادت کے وقت اپنے بھتیجے [جو داماد بھی تھا] کو نصیحت کی کہ آپ نے ہر قیمت پر ذیلدار راجہ کرم داد خان اور ان کی فیملی کی حفاظت کرنی ہے، جو انھوں نے بطریقِ احسن انجام دی۔
زیلدار راجہ کرم داد نے بصیرت سے کام لیتے ہوئے علاقہ کے عمائدین سے مل کر صلح صفائی کر لی اور ہنسی خوشی رہنے لگے۔ زیلدار راجہ کرم داد خان تا دمِ مرگ فرمایا کرتے تھے کہ ان پر سدھن قبیلے کا بہت بڑا احسان ہے، خاص طور پر وہ شہید صوبیدار بارو خان کے بہر ممنو
ن تھے۔
زیلدار راجہ کرم داد خان بحیثیت زیلدار نمبردار کئی مرتبہ مہاراجہ وقت سے ملے ۔ جب بھی کوئی معاملہ درپیش ہوتا، آپ ٹائم لیے بغیر مہاراجہ کے دربار میں چلے جاتے اور مسئلے کا حل کروا لاتے۔ مہاراجہ بھی آپ کی بڑی قدر کرتا تھا۔ ایک دفعہ مہارجہ کعٹلی دورہ پر آیا تو سب زیلدار سفید "سافا" باندھ کر گئے لیکن راجہ کرم داد خان نحے قیصری رنگ کا سافا باندھا ہوا تھا۔ مہاراجہ کے استفسار پر آپ نے برجستہ جواب دیا کہ "مہاراجہ کے بعد میں ہی ہوں"۔
زیلدار راجہ کرم داد خان طبیعت میں بہت سخت لیکن بااصول شخص تھے۔ آپ نے کبھی کسی شخص کو اپنے گھر سے خالی واپس نہ کیا ۔ آپ کی شدید خواہش تھی کہ آپ کے بیٹے راجہ اکبر داد خان کے ہاں بیٹا پیدا ہو لیکن آپ کی زندگی میں یہ خواہش پوری نہ ہوسکی۔ آپ نے 18 جنوری 1962ء کو وفات پائی۔ اللہ تعالی آپ کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے۔        
راجہ اکبر داد خان
آزاد کشمیر کے اولین کلیکٹر ٹیکسیشن راجہ اکبر داد خان ضلع کوٹلی کے پہلے مسلم گریجویٹ تھے۔ انھوں نے پرنس آپ ویلز کالج جموں سے 1938ء میں بی-اے کیا۔ انگیزی پر آپ کو مکمل عبور تھا۔ محمکہ ٹیکسیشن میں طویل خدمات سرانجام دینے کے بعد آپ کمشنر کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ ایک لائق، فرض شناس اور مستعد آفیسر کے طور پر آپ نے پوری ریاست میں نام کمایا۔   
راجہ اکبر داد خان 1919ء میں پیدا ہوئے۔ آپ زیلدار راجہ کرم داد خان کے سب سے بڑے بیٹے تھے۔ آپ کی پیدائش پر آپ کے والد نے علاقہ میں دعوتِ عام دی۔ اپنے والد کے چہیتے ہونے کی وجہ سے گھر میں خاص مقام رکھتے تھے۔ آپ کے داد راجہ فجو خان اور والد راجہ کرم داد خان دونوں زیلدار نمبردار تھے۔ آپ میں اپنے آباو اجداد کی تمام خوبیاں پائی جاتی تھیں۔
راجہ اکبر داد خان نے پرائمری تعلیم سیر منڈی سے حاصل کی۔ چھٹی جماعت میں آپ کو کوٹلی ہائی سکول میں داخل کروایا گیا۔  آپ بلا کے ذہین تھے۔ آپ کی طبیعت بہت سادہ تھی۔ آپ اپنے دور کے لائق طلبہ میں شمار کیے جاتے تھے۔ آپ کے والد آپ کی تعلیم کی طرف خصوصی توجہ دیا کرتے تھے۔ ان کی یہ خواہش تھی کہ آپ پڑھ لکھ کر بڑے آدمی بنیں اور عوام کی فلاح و بہبود میں کردار ادا کریں۔ آپ نے میٹرک امتیازی نمبروں میں پاس کیا۔ میٹرک کے بعد آپ کو پرنس آف ویلز کالج جموں میں داخل کروایا گیا جہاں سے ایف اے کے بعد آپ نے 1938ء میں گریجویشن کی ڈگری حاصل کی اور اس وقت کی تحصیل کوٹلی اور آج کے ضلع کوٹلی سے پہلے مسلم گریجویٹ ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ آپ کے والد زیلدار تھے اس لیے گھر میں آسودگی تھی اور آپ کو تعلیم حاصل کرنے میں کوئی دقت پیش نہ آئی۔
گریجویشن کے فوری بعد بلدیو سنگھ پٹھانیاں نے آپ کو نائب تحصیلدار لگایا لیکن آپ کے والد نے بلدیو سنگھ پٹھانیاں کو وہ آرڈر بصدِ شکریہ واپس کردیا کہ میرا بیٹا اتنا پڑھنے لکھنے کے بعد نائب تحصیلدار لگے گا۔ آپ کے والد کا خیال تھا کہ بلدیو سنگھ پٹھانیاں کو آپ کا تحصیلدار کا آرڈر کرنا چاہیے تھا۔
سنہ 40-1939ء میں تحصیل کوٹلی کے ڈی ایف او نے آپ کی ذہانت کے دیکھتے ہوئے  آپ کے والد سے خصوصی اجازت طلب کر کے آپ کو کوٹلی میں کیمپ کلرک بھرتی کیا ۔ اس وقت آپ کی تنخواہ 24 روپے ماہانہ مقرر ہوئی۔ آپ چونکہ ایک ایسے ادارے سے گریجویشن کر کے آئے تھے جہاں کام وقت پر کیا جاتا تھا۔  آپ نے دفتر روز کا کام روز کرنے کی عادت اپنائی۔ یوں آپ کی شہرت تھوڑے عرصے میں پوری ریاست میں پھیل گئی۔آپ کی شہرت سن کر ایک انگیز افسر  جو چیف کنزرویٹو کے عہدے پر فائز تھا ، کوٹلی آیا۔ اس نے آپ سے کہا کہ میں بولتا جائوں گا آپ ٹائیپ کرتے جائیں گے۔ وہ لگا تار ایک گھنٹہ تک بولتا رہا اور آپ بڑی مستعدی سے لکھتے رہے۔ اس دوران میں آپ نے اس سے کسی بات کو دہرانے کے لیے نہیں کہا۔ جب اس نے آپ کی ڈرافٹنگ کو دیکھا تو اس میں صرف ایک سکتہ کی غلطی تھی۔ وہ آپ کی قابلیت سے بہت متاثر ہوا۔ آپ کے والد سے مل کر آپ کو ساتھ رکھنے کی اجازت چاہی۔ آپ کے والد نے انکار کر دیا۔آپ اس دور کے بہترین ٹائپسٹ تھے۔ آپ کے پاس الفاظ کاذخیرہ تھا۔ آپ انگریزی کے ماہر ڈرافٹس مین تصور کیے جاتے تھے۔
سنہ 42-1941 میں آپ انکم ٹیکس میں بھرتی ہوئے۔ آپ کی پہلی تعیناتی جموں میں ہوئی۔ آپ بڑے چست اور چاک و چوبند تھے۔ ایک دفعہ مہاراجہ کے کچھ رشتہ دار جو تمباکو کا کاروبار کیا کرتے تھے۔ وہ خضرو سے تمباکو لے کر جارہے تھے۔ راجہ اکبر داد خان کو اطلاع ملی کہ وہ مہاراجہ کے رشتہ دار ہونے کے ناطے پرمٹ نہیں کٹواتے۔ ایک روز آپ خود ڈیوٹی پر موجود تھے، وہ تمباکو سے بھرا ٹرک لائے، آپ نے رکنے کا اشارہ کیا لیکن وہ نہ رکے۔ آپ نے فائر کر کے ٹرک کا ٹائر ناکارہ کر دیا۔ انہیں نیچے اتارا اور کہا پہلے پرمٹ کٹوائو، پھر اجازت ہو گی۔ جب وہ دفتر پرمٹ کٹوانے گئے تو انہیں نے وزن کم بتایا۔چنانچہ آپ نے ٹرک اک دوبارہ وزن کروایا تو 25 کلو تمباکو زیادہ نکلا جس پر آپ نے ان کا چالان کر دیا۔ اس وقت ڈپٹی بھی ڈوگرا تھا جو ان کا قریبی رشتہ دار تھا۔ اس نے بھی جرمانہ کرنے میں کوئی کسر باقی نہ رکھی اور کسی رشتہ داری کا لحاظ نہ کیا۔ ڈپٹی نے آپ کو بلا کر کہا کہ آپ نوکری میں نئے نئے آئے ہیں، اتنے جزبات اچھے نہیں، جتنے معتدل ہوں گے کامیاب رہیں گے۔
آپ کچھ عرصہ بعد تبدیل ہو کر ادھم پور چلے گئے پھر وہاں سے سری نگر تعینات ہوئے ۔ سری نگر میں تعیناتی کے دورا ن میں آپ کے ساتھ ایک واقع پیش آیا کہ آپ کا خانساماں ڈبل ایم اے تھا۔ ایک دن شام کا کھانا کھانے کے بعد آپ نے اس کو اپنے پاس بلایا ۔ آپ کے پاس آ کر وہ زمین پر بیٹھنے لگا تو اس نے انکار کر دیا کہ :" یہ صاحب لوگوں کے لیے ہے ہمارے لیے نہیں" جب آپ نے اس کے بتایاکہ مجھے تمہارے بارے میں سب پتا ہے تو اس نے کھل کر بتایا کہ میں علی گڑھ یونیورسٹی سے ایم اے ہوں اور میں عارضی طور پر یہاں نوکری کر رہا ہوں۔
دو ماہ بعد انکم ٹیکس میں ڈپٹی کی پوسٹ آنے والی ہے، میں مقابلے کے امتحان میں شامل ہو کر امتحان پاس کر لوں گا اور ڈپٹی بن جائوں گا۔ آپ ادھر انسپکٹر ہی ہوں گے اور میں ڈپٹی۔ کہتے ہیں کہ جب ڈپٹی کی پوٹیں آئیں تو اس ٹاپ کیا اور ڈپٹی بن گیا۔
سنہ 1947ء میں آزادی کے بعد آپ بحیثیت انسپیکٹر کام کرنے رہے۔ آپ ترقی کرتے کرتے آزاد کشمیر کے پہلے کلیکٹر ٹیکسیشن بنے۔ آپ نے دوران سروس کبھی کسی ملازم کو تنگ نہ کیا۔ ملازمیں کی عزتِ نفس کا ہر ممکن تحفظ کیا۔ بالآخر آپ 73-1972ء میں کمشنر انکم ٹیکس کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔
راجہ اکبر داد نے تین شادیاں کیں ، پہلی بیوی جموں سے کشمیری النسل تھی، یہ آپ کی پسند کی شادی تھی۔ دوسری شادی آپ نے ناڑ سے کی جب کہ تیسری شادی آپ نے فگوش کوٹلی سے کی۔ آپ کے تین بیٹے ہیں۔ آپ دل کے عارضہ میں مبتلا تھے اور آپ نے مارچ 1982ء میں وفات پائی۔
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا۔
راجہ عبدالمجید خان 
نامور قانون دان راجہ عبدالمجید خان کا تعلق سہنسہ کے نواحی گائوں مہر منڈی سے ہے۔ آپ کچھ عرصہ کسٹوڈین جائداد متروکہ رہے۔ سیاست میں بہت متحرک اور فعال رہے۔ ضلع کونسل کوٹلی کے چیئرمین رہے اور اپنے حلقہ میں ترقیاتی کام کروائے۔ علاقہ سہنسہ میں نہایت عقیدت اور احترام سے دیکھے جاتےتھے۔
راجہ عبدالمجید خان 1948ء میں راجہ فرمان علی خان کے ہاں پیدا ہوئے۔ آپ کی پیدائش علاقہ سہنسہ کے ایک گائوں سہر منڈی میں ہوئی۔آپ کے والد راجہ فرمان علی خان علاقہ کے بڑے جاگیرداروں میں شمار ہوتے تھے اور علاقہ میں آپ کا بڑا اثر و رسوخ تھا۔ راجہ فرمان علی خان بہت ذہین اور معاملہ فہم انسان تھے۔ آپ نے اپنے اکلوتے بیٹے راجہ عبدالمجید خان کی شخصیت نکھارنے میں اہم کردار ادا کیا۔ راجہ فرمان علی خان نے اپنے بیٹے کی تربیت میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔             
راجہ عبدالمجید خان ننے ابتدائی تعلیم علقہ کٹھار سہنسہ سے حاصل کی۔ آپ نے میٹرک کے لیے کوٹلی کا رخ کیا اور میٹرک گورنمنٹ پائلٹ ہائی سکول سے اولی نمبرات میں پاس کی۔ آپ کی تعلیمی دلچسپی کو دیکھتے ہوئے فیصلہ ہوا کہ آپ کو تعلیم کے لیے میر پور بھیجا جائے۔ آپ نے ایف اے اور گریجویشن گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج میر پور سے امتیازی نمبرات میں پاس کیں۔ آپ دورانِ تطالبِ علمی سیاسی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیتے رہے۔ آپ نے کئی بار بہترین مقرر کا ایوارڈ بھی حاصل کیا۔ آپ کے اساتذہ آپ کی انھیں صلاحیتوں کو دیکھ کر اکثر نجی محفلوں میں کہا کرتے تھے کہ ایسے طالب علم صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں۔ آپ اپنے اساتذہ کا بے حد احترام کرتے تھے۔ 
گریجویشن کے بعد آپ قانون کی تعلیم کے لیے کراچی چلے گئے جہاں آپ نے مشہور درسگاہ ایس ایم لاء کالج میں داخلہ لیا۔ آپ نے قانون کی ڈگری امتیازی نمبرات میں حاصل کی۔ تعلیم کے بعد آپ واپس تشریف لائے اور پیشہ وکالت سے منسلک ہوئے۔ آپ نے کوٹلی میں وکالت کی ابتدا کی ۔ جب سہنہ کو تحصیل کا درجہ ملا، آپ یہاں آ گئے۔ بہت کم عرصہ میں آپ نے علاقہ میں اپنا مقام بنا لیا۔ آپ ہمیشہ غریب اور بے سہارہ لوگوں کے کیس مفت لڑا کرتے تھے۔ آپ وکالت کے شعبہ سے 1972ء سے 1983ء تک منسلک رہے۔
سنہ 1983ء میں عوام کے پر زور درخواست پر عملی سیاست میں داخل ہوئے۔ آپ نے بلدیاتی الیکشن میں حصہ لیا اور اور بہت محنت اور کوشش سے چئیرمیں ضلع کونسل منتخب ہوئے۔ آپ کو ضلع کونسل کا چئیرمین منتخب کروانے میں جہاں سالارِ جمہوریت سردار سکندر حیات خان  کا اہم کردار تھا وہاں سابق سیںئیر وزیر راجہ محمد اکرم خان کو کوششیں بھی شامل تھیں۔ آپ کحے خلاف مختلف دھڑوں کا اتحاد قائم کیا گیا تھا لیکن آپ کی سیاسی بصیرت اور دور اندیشی نے آپ کو کامیابی سے ہمکنار کیا۔ آپ کے بارے میں مشہور تھا کا کہ آپ صحیح وقت پر صحیح فیصلے کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔     
سنہ 1987ء میں آپ نے دوسری بار الیکشن میں حصہ لیا اور کامیابی نحے آپ کے دروازے پر دستک دی۔ آپ چئیرمین ضلع کونسل کا الیکشن لڑے لیکن اس وقت کے وزیرِ اعظم سردار سکندر حیات کی مخلافت کی وجہ سے آپ کو ناکامی ہوئی۔ اس ناکامی کی وجہ آپ کے پانچ سالہ چئیرمینی کے دور میں تعلیم و ترقی کے منصوبہ جات تھے جو سردار سکندر حیات کو پسند نہ تھے۔ ایک اور بات جس نے جلتی پر تیل کا کام کیا وہ صردِ پاکستان اور چیف آف آرمی سٹاف جنرل ضیاءالحق کا دورہ کوٹلی تھا جس میں آپ نے کچھ اس انداز سے سٹیج سیکریٹری کے منسب کو سنبھالہ  کہ جنرال ضیاءالحق نے اپنی تقریر میں کہا " مجھے نہیں پتا تھا کہ یہاں راجہ عبدالمجید خان جیسے لوگ موجود ہیں ورنہ مجھے آنے کی ضرورت نہ تھی" بس یہ بات شاید سردار کندر حیات کو پسند نہ آئی۔  راجہ عبدالمجید نے 1990ء کے قانوں ساز اسمبلی کے الیکشن میں بطورِ آزاد امیدوار حصہ لیا لیکن اپنوں کی کج ادائی اور غیروں کی مخالفت سے آپ یہ الیکشن نہ جیت سکے۔
آپ 1991ء میں عارضہ قلب مبتلہ ہوئے اور علاج کے سلسلے میں انگلینڈ چلے گئے۔ جب آپ وطن واپس آئے تو آپ کی صحت نے سیاست کرنے کے لیے آپ کا ساتھ نہ دیا۔ چنانچہ آپ نے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔ آپ کو کسٹوڈین جائیداد متروکہ کے عہدے پر تعینات کیا گیا۔ اس دوران میں آپ نے احاطہ کچہری میں ایک ریسٹ ہائوس بھی تعمیر کروایا جو ہمیشہ آپ کی یادوں کو تازہ کرتا رہے گا۔ بعد میں آپ لاء سیکریٹری بھی رہے اور کچھ عرصہ چئیرمیں سروسز ٹریبیونل کے عہدے پر بھی فرائض سرانجام دیتے رہے۔
راجہ عبدالمجید خان نے 1995ء میں حج بیت اللہ کی سوادت حاصل کی۔ آپ کو دوسری بار دل کا دورہ پڑا اور 7 جون 1997ء کو آپ اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ آپ اس دنیائے فانی سے کوچ کر گئے اور عوامِ علاقہ ایک بہترین وکیل، صلح جو سیاستدان، منصف جج اور ایک ہمدرد انسان سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محروم ہو گئے۔
آپ کے بڑے بیٹے راجہ ضیاالمجید ڈپٹی سیکرٹری اسمبلی تعینات ہیں۔ وہ ایک بہترین بیوروکریٹ اور ایک لائق آفیسر ہیں۔ راجہ ضیاالمجید ہر مسئلے پر ایک مدبر کی طرح سوچتے ہیں اور آئین اور قانون کے مطابق فیصلہ کرتے ہیں۔ آپ میں اپنے والد کی تمام خوبیاں موجود ہیں۔
راجہ عبالمجید خان کے چھوٹے بیٹے راجہ وفاالمجید شعبہ وکالت سے منسلک ہیں۔ آپ نے یہ شعبہ اپنے والد سے متاثر ہو کر اختیار کیا۔ آپ سیاست میں بھی متحرک ہیں اور لوگوں کی خوشی غمی میں بھی شریک ہوتے ہیں۔ مستقبل میں آپ انتخابی سیاست کا ارادہ رکھتے ہیں اور اپنے والدِ محترم کے مشن کی تکمیل کے لیے کوشاں ہیں۔
چئیرمین راجہ محمود داد خان
چئیرمین راجہ محمود داد خان کا تعلق سہر منڈی سے ہے۔ وہ آزادی سے قبل بھی اپنے علاقہ کی اہم شخصیت شمار ہوتےہیں۔ آزادی کے بعد کچھ عرصہ بیرونِ ملک [انگلینڈ] مقیم رہے۔ 1962ء میں واپس آ کر انتخابات میں حصہ لیا اور اپنی یونین کونسل کے چئیرمین بنے۔ اور اپنے علاقے مین تعمیر و ترقی کے لیے ہمیشہ کوشان رہے۔ 
راجہ محمود داد خان، زیلدار راجہ کرم داد خان کے ہاں 28ساون 1993 بکرمی کو پیدا ہوئے۔ آپ کی جائے پیدائش علاقہ سہنسہ کے موضع سہر منڈی ہے۔ زیلدار ہونے کے ناطے آپ کے والد نے آہ کی پیدائش پر دعوتِ عام کی۔ برادری اور غیر برادری سے بہت سے لوگ شاملِ دعوت ہوئے۔ جب آپ کی عمر تین سال ہوئے تو آپ کی والدہ ماجدہ کا انتقال ہوگیا۔ آپ کی سوتیلی ماں نے آپ کی پرورش میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ انھوں نے ہر طرح سے آپ کا خیال رکھا۔ وہمرتے دم تک آپ نے بے انتہا پیار کرتی رہیں۔
راجہ محمود خان نے پرائمری سکول سہر منڈی سے پرائمری تعلیم حاصل کی۔ جب آپ سکول میں داخل ہوئے تو آپ کی عمر آٹھ سال تھی۔ پانچویں جماعت پاس کرنے کے بعد چھٹی جماعت میں کوٹلی داخل ہوئے لیکن جلد ہی آپ اپنے بڑے بھائی راجہ اکبر داد خان کے پاس نوشہرہ [مقبوضہ کشمیر] چلے گئے۔ آپ کے بھائی وہاں محکمہ انکم ٹیکس میں انسپکٹر کے وہدے پر تعینات تھے۔ آپ چھٹی جمعت میں ہی تھے کہ 46-1945ء میں اپنی بھابھی کے ساتھ جموں چلے گئے۔ آپ کی تعلیم ابھی جاری تھی کہ بھائی کا تبادلہ ہل بہگام [تحصیل ڈڈیال] ہو گیا اور آپ بھی ان کے ساتھ آ گئے۔
سنہ 1947ء کے شورش کی وجہ سے آپ واپس گائوں آ گئے۔ آزادی کے بعد آپ پھر ڈڈیال میں داخل ہوئے اور تعلیم جاری رکھی۔ دورانِ تعلیم آپ میر پور میں ہی رہے۔ آپ نے 51-1952ء میں میٹرک کا امتحان دیا۔ لیکن بوجوہ کامیاب نہ ہوسکے۔ اس کے بعد جلد ہی آپ نے تعلیم کو خیر باد کہ دیا۔
ُ 1958ء میں انگلینڈ چلے گئے۔ اس وقت کراچی سے 1700 روپے کرایہ تھا جب کہ سیکیورٹی 1100 روپے تھی۔ آپ انگلینڈ میں ڈیوز بری، شفیلڈ، ھالٹن کیمپ، اور بریڈ فورڈ میں رہے اور وہاں مختلف فیکٹریوں میں کام کیا۔ آپ اس ملک کو بہت اچھا گردانتے ہیں جہاں مساوات اور انسانی حقوق کا خیال رکھا جاتا ہے۔
آپ کے والد کی وفات کے بعد آپ 1962ء میں وطن واپس تشریف لائے۔ راجہ محمود خان نے 1962ء میں بی ڈی[بیسک ڈیموکریسی] کے لیکشن میں حصہ لیا اور ممبر منتخب ہوئے۔ بعد میں آپ چئیرمین بن گئے پھر لگا تار آپ 25 سال تک چئیرمین یونین کونسل رہے۔ آپ نے چھٹی مرتہ راجہ عبدلمجید خان کو موقع دیا کہ وہ الیکشن لڑیں۔ راجہ محمود داد کی کوششوں سے وہ بھی الیکشن جیت گئے۔ چئیرمین راجہ محمود داد خان نے 1991ء میں آخری بار ممبر یونین کونسل کا الیکشن لڑا اور اس میں بھی کامیابی نے آپ کے قدم چومے۔ آپ پورے علاقے میں چئیرمین راجہ محمود داد خان کے نام سے جانے جاتے ہیں۔
آپ نے زندگی میں جس شعبے میں بھی قدم رکھا اس میں کامیابی کے جھنڈے گاڑے۔ آپ نے اپنے دورِ اقدار میں لوگوں کے لیے ترقیاتی کام کیے۔ آپ نے سہرمنڈی شفاخانہ حیوانات کے ساتھ ساتھرورل ہیلتھ سینٹر اور بوائز و گرلز ہائی سکول بھی اپ گریڈ کروانے میں اہم کردار ادا کیا۔
چئیرمین راجہ محمود داد خان نے 1946ء میں مہاراجہ کشمیر ہری سنگھ سے بھی ملاقات کی۔ یہ ملاقات کوٹلی میں  مہاراجہ کی آمد کے وقت ہوئی۔ 1946ء میں مہاراجہ نے کشمیر میں بغاوت کی بو کو محسوس کرتے ہوئے کوٹلی کا دورہ کیا۔ اس دورے میں اس کی ملاقات علاقہ کے تمام زیلداروں سے تھی۔ آپ اپنے والد کے ساتھ اس ملاقات میں موجود تھے۔ اس وقت کوئی عام شخص مہاراجہ کی ملاقات کا صرف خیال ہی کر سکتا تھا۔
پیرانہ سالی کی وجہ سے ان کحے سماجی رابطے کم ہو چکے ہیں آپ کی زندگی میں چند افسوس ناک لمحات بھی آئے جن میں آپ کے بھائی راجہ اکبر داد خان ، راجہ مطلوب خان ایڈووکیٹ اور راجہ عبدلمجید خان کی وفات شامل ہیں۔ آپ نوجوانوں کے لیے پر امید ہیں۔ کہ وہ معاشرے میں مثبت کردار ادا کریں گے۔ آپ کا کہنا ہے کہ نوجوان کو ہر معاملے ہیں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے اور خاص طور پر تعلیم میں نام کمانا چاہیے۔
بریگیڈئر راجہ محمد اکبر خان
ضلع کوٹلی کے علاقے منیل سے تعلق رکھنے والے بریگیڈئر محمد اکبر خان ایک محنتی، فرض شناس اور بے باک انسان تھے۔ اپنے طویل فوجی کیرئیر میں انھوں نے پر جگہ اور پر منصب پر اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائے اور نام کمایا۔ 1965ء اور 1971ء کی جنگوں میں حصہ لیا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد قومی اداروں میں اپنے فرائض سر انجام دیے۔
راجہ محمد اکبر خان، راجہ حشمت خان کے گھر پیدا ہوئے۔ آپ پانچ بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ علاقہ منیل بجا طور پر فخر کر سکتا ہے کہ آپ جیسے عظیم شخص نے اس علاقہ میں آنکھ کھولی۔ آپ کا نسب راجہ سینس پال کے دوسرے بیٹے تتار خان سے ہے۔ راجہ محمد اکبر خان کا بچپن منیل میں گزرا۔ آپ بچپن ہی سے بلا کے ذہین، بے باک اور دلیر تھے۔ آپ کے والد راجہ حشمت خان نے آپ کی پرورش میں خصوصی دلچسپی لی۔ انھیں بیٹے کی چھپی ہوئی صلاحتوں کا ادراک تھا۔ ان صلاحتوں کو سنوارنے اور نکھارنے کے لیے آپ کو ابتدائی تعلیم کے لیے کڑتی [کوٹلی] کے پرائمری سکول میں داخل کرا دیا گیا۔ پرائمری پاس کرنے کے بعد آپ کو کوٹلی ہائی سکول میں داخل کروایا گیا۔ آپ بلا کے ذہین تھے۔ آپ کی ذہانت اور محنت کو دیکھتے ہوئے آپ کے اساتذہ نے آپ کے والد راجہ حشمت خان کو کسی بڑے سکول میں داخلے کے لیے مشورہ دیا۔
راجہ حشمت خان ایک کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اس لیے انھوں نے اساتزہ کے مشورہ پر عمل کرنے میں تامل نہ کیا اور فوراً ہی اپنے بیٹے کو جہل کے ایک کے جی سکول میں داخل کر دیا۔ کے جی سکول میں اس وقت بہت کم لوگوں کے بچے تعلیم حاصل کیا کرتے تھے۔ چنانچہ راجہ محمد اکبر خان نے وہاں محنت، لگن اور دلجمعی سے اپنی پڑھائی جاری رکھی اور تھوڑے ہی عرصے میں اپنے سکول میں ایک خاص مقام حاصل کر لیا۔ شفیق اساتزہ نے آپ کی صلاحیتوں کو نکھارنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان تھک محنت کا ہی نتیجہ تھا کہ آپ وہاں سے بطور کیڈٹ نامزد ہوئے۔
بے محنت پیہم کوئی جوہر نہیں کھلتا
روشن شررِ تیشہ سے بے خانہ فرہاد 
راجہ محمد اکبر خان کی بطورِ کیڈٹ نامزدگی، سکول اور اہلِ علاقہ اور بالخصوص مسلمانوں کے لیے بہت بڑی کامیابی تھی۔ چونکہ پاکستان بننے سے پہلے بہت کم مسلمانوں کو ملازمتوں میں رکھا جاتا تھا اور کسی بڑے عہدے پر تو مسلمان صرف سوچ ہی سکتے تھے۔ 
چنانچہ آپ کو ٹریننگ کے لیے ہندوستان کے علاقہ ڈھیرہ دوئی بھیجا گیا جہاں آپ نے دو سال کی ٹریننگ مکمل کی ۔ جب آپ 1947ء میں پاس آئوٹ ہوئے تو پاکستان معرضِ وجود میں آگیا۔ چنانچہ آپ نے بھی دوسرے کیڈٹس کے ساتھ پاکستان آنے کا فیصلہ کیا۔ تمام کیڈٹس کو ایک طیارے کے ذریعے کراچی ائیرپورٹ لایا گیا۔ کراچی میں جن کیڈٹس کا استقبال قائدِاعظم محمد علی جناح نے کیا ان میں راجہ محمد اکبر خان بھی شام تھے۔ قائدِ اعظم محمد علی جناح نے ان کیڈٹس سے ائیر پورٹ پر مختصر خطاب بھی کیا۔
راجہ محمد اکبر خان نے پاکستان آرمی میں دل جمعی سے کام کیا اور یہاں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ آپ کے کارِہائے نمایاں کی بناء پر پاک آرمی میں آج بھی ان کا نام بڑی قدرو منزلت سے لیا جاتاہے۔ آپ نے دورانِ سروس جہاں بھی کام کیاوہاں ایمانداری اور لگن سے اپنے فرائض اداکئے۔
راجہ محمد اکبر خان 1961ءتا 1964ء کوٹلی میں بطور ڈی کیو بی ایم تعینات رہے۔ یہاں نہ صرف انھوں نے آرمی کے مورال کو بلند رکھنے میں اہم کردار ادا کیا بلکہ بعض دفع بغیر اطلاع کے آپ اگلے موچوں پر بھی تشریف لے جاتے رہے۔ 1971ء کی پاک بھارت جنگ میں راجہ محمد اکبر خان بطور سٹیشن کمانڈر مظفر آباد تعینات تھے۔ جہاں انھوں نے اپنی جنگی حکمتِ عملی سے دشمن کے منصوبوں کو خاک میں ملا دیا۔ 
راجہ محمد اکبر خان مشرقی پاکستان میں بھی تعینات رہے جہاں انھوں بنگالیوں اور اور مغربی پاکستان کے لوگوں کے درمیان خلیج کم کرنے میں بہت کام کیا اور آپ کا عرصہ تعیناتی انتہائی پر امن رہا۔ مغربی پاکستان میں آپ اوکاڑہ اور پشاور میں بھی تعینات رہے۔ اور اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے سر انجام دیتے رہے۔ پورے پاکستان میں مختلف جگہوں پر ذمہ داریاں انجام دینے کے بعد آپ بالآخر 1976ء میں ریٹائر ہوئے۔
آپ کو 1978ء میں بطور چئیرمیں ادارہ ترقیات میر پور تعینات کیا گیا۔ جہاں آپ نے ایک پہترین کمانڈر کی طرح اس ادارے کی کرپشن کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔  آپ نے حق دار کو حق دلوانے میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہ کیا۔ سات سالہ خدمات کے بعد 1985ء میں آپ اس عہدے سے سبکدوش ہوئے اور لالازار کالونی راولپنڈی میں رہاءش اختیار کی۔
راجہ محمد اکبر خان کینسر کے موذی مرض میں مبتلا ہوئے اور 2000ء میں اس دنیائے فانی سے کوچ کر گئے۔ آپ کو ریس کورس گرائونڈ راولپنڈی میں دفن کیا گیا۔ ان کی وفات میں جہاں علاقہ مینل [کوٹلی] محروم ہوا وہاں پاکستان آرمی بھی اپنے ایک عظیم جرنیل سے محروم ہوئی۔  آپ کے قبیلے کا ناقابلِ تلافی نقصان ہوا۔ اللہ تعالی آپ کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے۔ آپ نے سوگواران میں بیوہ، تین بیٹے اور ایک بیٹی چھوڑی۔
راجہ محمد عظیم خان 
 کوٹلی کے نامور قانون دان جناب راجہ محمد عظیم خان سماجی خدمت کے جزبے سے سرشار دردِ دل رکھنے والے آفیسر کے طور پر جانے جاتے تھے۔    لوئر گریڈ کی ملازمت سے اپنے کیرئیر کا آغاز کیا اور جہدِ مسلسل سے اسسٹنٹ کمشنر کے عہدے پر پہنچے۔  ریٹائرمنٹ کے بعد قانون کے پیشے سے منسلک ہوئے سماجی خدمت کا یہ سفر جاری رکھا۔
راجہ محمد عظیم خان 1942ء میں راجہ حفیظ اللہ خان آف فگوش [کوٹلی] کے ہاں پیدا ہوئے۔ آپ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ آپ کا نسب راجہ سینس پال کے دوسرے بیٹے راجہ تتار خان سے جا ملتا ہے۔
آپ نے ابتدائی تعلیم کرتی کے برائمری سکول سے حاصل کی، مڈل کلاس کے لیے آپ کو کوٹلی کے ہائی سکول میں داخل کروایا گیا جہاں آپ نے محنت اور لگن سے تعلیم پر توجہ دی اور 1960ء میں میٹرک امتیازی نمبروں سے پاس کیا۔ چونکہ گھرانے کے مالی حالات کچھ زیادہ اچھے نہیں تھے اس لیے آپ نے تعلیم کو خیر باد کہ دیا۔ تعلیم کو ادھورا چھوڑنے کا بہت دکھ تھالیکن حالات آپ کے بس میں نہیں تھے۔
راجہ محمد عظیم خان نے تعلیم کو چھوڑتے ہی 1962ء میں محکمہ مال میں بطور جونئیر کلرک ملازمت اختیار لی۔ دورانِ سروس آپ نے ہیڈ کلرک، اکائونٹنٹ، ریڈر اور ناظر کے عہدوں پر 1977ء تک کام کیا۔ آپ کی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے 1977ء میں آپ کو بطور ناء تحصیلدار ترقیاب کیا گیا۔ آپ نے بحیثیت نائب تحصیلدار ڈڈیال، کوٹلی ، چڑہوئی کے علاوہ ریاست کے دیگر مقامات پر خدمات سرانجام دیں۔ سروس کے دوران آپ اپنے ماتحت عملہ سے ہمیشہ شفقت سے پیش آتے رہے۔ اور لوگوں کے تمام مسائل کو اپنی اوّلین ترجیح سمجھا۔ 
راجہ عظیم خان 1988ء میں تحصیلدار کے عہدے پر ترقیاب ہوئے۔ آپ نے بحیثیت تحصیلدار فتح پور تھکیالہ [نکیال] میں خدمات سرانجام دیں۔ پھر آپ آپ کچھ عرصہ کے لیے تحصیلدار کسٹوڈین اور تحصیلدار کوٹلی بھی کام کرتے رہے۔ آپ دورانِ سروس ترقی کی منازل طے کرتے رہےاور کامیابی آپ کے قدم چومتی رہی۔ محکمہ مال میں پیشہ ور سپاہی کی طرح خدمات سر انجام دینے والے راجہ محمد عظیم خان کو 1999ء میں اسسٹنٹ کمشنر [اے سی] ضلع جھنگ آباد کاری لگا دیا۔ وہاں آپ نے مہاجرین کی آباد کاری میں بڑا اہم کردار ادا کیا اوت مہاجرین کے مسائل مقامی عمائدین سے مل کر حل کیے۔ یہ دور آپ کی سروس کا سب سے پہترین دور تھا کیونکہ آپ نے بہت سے بے گھر افراد کو بسانے میں اہم کردار ادا کیا اور لوگوں کے دکھ درد میں شریک رہے۔
آپ صلاحیتوں، محنت اور لگن سے متاثر ہو کر آپ کو بعد میں ایس ڈی ایم، اے سی، فتح پور تھکیالہ [نکیال] تعیناتکیا گیا۔ جہاں آپ نے اپنے فرائضِ منصبی بطریقِ احسن سرانجام دیے۔ اس وقت فتح پور تھکیالہ ایک مشکل اسٹیشن تصور کیا جاتا تھا کیوں کہ نئی نئی سب ڈویژن عمل میں لائِ گئی۔ 
بالآخر 2002ء میں آپ وہاں سے ریٹائر ہوئے۔ آپ کی تمام ملازمت کے دوران کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آیا۔ جس کی وجہ آپ کی ایمانداری اور انتظامی بصیرت تھی۔ راجہ محمد عظیم خان کو تعلیم ادھوری چھوڑنے کا بہت غم تھا۔ چنانچہ آپ نے دورانِ ملازمت رلم کی پیاس بجھانے کا عہد کیا۔ دورانِ سروس آپ نے ایف اے اور بی اے کیا۔ چونکہ آپ کا قانون سے روز ہی واسطہ پڑتا تھا اس لیے آپ نے 1980ء میں ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی۔ وکالت کی ڈگری نے نہ صرف  آپ کو دورانِ ملازمت فائدہ دیا بلکہ بعض پیچیدہ معاملات کو آپ نے قانون کی مدد سے حل کیا۔ آپ ریٹائرمنٹ کے بعد بجائے سہل پسندی اختیار کرتے ہوئے گھر میں بیٹھے رہتے، آپ نے پیشہ وکالت کو اختیار کیا۔ آج آپ کا شمار کوٹلی کے مشہور وکلاء میں ہوتا ہے۔ 
مئی 2010ء سے آپ کو ضلع کوٹلی میں چئیرمین زکوۃ عشر تعینات کیا گیا ہے۔ آپ اس ذمہ داری کو بھی بطریقِ احسن سر انجام دے رہے ہیں، ساتھ ساتھ اپنے پیشہ وکالت کو بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ آپ اکثر محفلوں میں اپنی سروس کی یاد تازہ کرتے ہوئے 1965ء اور 1971ء کی جنگوں کا آنکھوں دیکھا حال بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالی آپ کا سایہ ہمارے سروں پر ہمیشہ قائم رکھے اور ہمیں ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق دے [آمین]
راجہ محمد ریاست خان ایڈووکیٹ
سہنسہ کے نواحی گائوں سہر منڈی سے تعلق رکھنے والے راجہ محمد ریاست نے نامساعد گھریلو حالات کے باوجود اپنی تعلیم کراچی سے مکمل کی ۔ کشمیر کی آزادی کی تڑپ رکھتے ہیں۔ جہادِ کشمیر میں آپ نے گراں قدر قربانیاں دیں۔ آپ کے بیٹے راجہ ارشدنے بھی تحریکِ آزادی کے لیے شہادت پائی۔ 
راجہ محمد ریاست خان ایڈووکیٹ 31 دسمبر 1948ء کو سہر منڈی سہنسہ میں راجہ زمان علی خان کے ہاں پیدا ہوئے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم پرائمری سکول سہرمنڈی سے حاصل کی۔ مڈل جماعت، لوئر مڈل سکول کٹھار سے پاس کرنے کے بعد 1965ء میں میٹرک گورنمنٹ ہائی سکول کوٹلی سے پاس کیا۔
گھر کے مالی حالات ٹھیک نہ تھے اس لیے تھوڑے عرصے کے لیے تعلیم کو منقطع کرنا پڑا۔ آپ کو تعلیم حاصل کرنے کا جنون کی حس تک زوق تھا۔ چنانچہ آپ نے حصول ِ تعلیم کے لیے کراچی کا رخ کیا۔ کراچی اس وقت غریبوں کو روٹی کت ساتھ ساتھ تعلیم کے حصول کا شہر مشہور تھا۔ وہاں بے شمار کالجز نائٹ کلاسز بھی چلاتے تھے۔ آپ نے کراچی میں چھوٹا موٹا کام شروع کر دیا۔ 1972ء میں ایف اے اور 1976ء میں بی اے امتیازی نمبرات سے پاس کی۔ گریجویشن آپ کی منزل نہ تھی، آپ کا مقصد ایسی تعلیم کا حصول تھا جس سے غریب اور بے سہارا لوگوں کو سہارا دیا جا سکے۔ چنانچہ 1979ء میں آپ نے ایس ایم لاء کالج سے وکالت کی ڈگری حاصل کی۔
آپ کا حصولِ علم بجا طور پر سامراج کے خلاف جہاد تھا۔ جہاں آپ نے راتوں کو جاگ کر تعلیم مکمل کی وہاں دن کو آپ جسم اور روح کے رشتہ کو برقرار رکھنے کے لیے مختلف ملازمتیں بھی کرتے رہے۔ آپ نے 1967ء سے 1969ء تک نیوی میں پولیس میں خدمات سرانجام دیں۔ اس عرصے میں آپ نے الیکٹرونک میں ڈپلومہ بھی حاصل کیا۔ 1969ء میں آپ نے الیکٹرونکس ورکشاپ میں بحیثیت سپر وائزر بھی کام کیا۔ یوں آپ کی ساری زندگی جہدِ مسلسل کا عملی نمونہ ہے۔ ایک طرف آپ نے تعلیم مکمل کی تو دوسری طرف اپنی پڑھائی کے تمام اخراجات پورے کیے۔
آپ دورانِ تعلیم اسلامی جمیعتِ طلباء سے بےحد متاثر ہوئے۔ آپ کی وابستگی اس؛امی جمیعتِ طلباء کے ساتھ رہی۔ آپ نے اس پلیٹ فارم کو طلباء کی بہتری کے لیے استعمال کیا۔
وکالت کی تعلیم کے بعد آپ نے اس پیشہ کو اختیار کیا۔ آپ نے 80-1979ء میں سندھ بار کونسل سے لائسنس حاصل کیا۔ آپ مئی 1980میں سہنسہ واپس تشریف لائے اور اپنے علاقہ میں لوگوں کی خدمت میں مصروف ہوگئے۔ آپ راجہ مطلوب خان کے چیمبر سے منسل ہو گئے۔ آپ نے وکالت کو لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے اختیار کیا اور خدمتِ خلق کے طور پر مظلوم لوگوں کی مدد کرتے ہیں. آپ کسی بھی کیس کی فیس نہیں لیتے اور نہ ہی کسی ظالم کا کیس لیتے ہیں۔
راجہ محمد ریاست خان ایڈووکیٹ نے 1982ء میں جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے عملی سیاست کا آغاز کیا۔ آپ جماعت اسلامی کے نائب صدر بھی رہے۔ 2001ء کے قانون ساز اسمبلی کے عام انتخابات میں آپ نے جماعت کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا لیکن کامیاب نہ ہوسکے۔
تحریک آزادی کشمیر میں آپ نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ آپ 1989ء میں حزب المجاہدین سے وابسطہ ہو گئے۔ آپ نے مجاہدین کی مالی معاونت میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔ آپ مجاہدین کشمیر کی تربیت میں بھی اہم کردار ادا کرتے رہے۔ آپ حزب المجاہدین کے کوٹلی کیمپ کے انچارج بھی رہے۔
سنہ 1992اء میں پہلی بار اپنے لختِ جگر راجہ راشد کو میدانِ جہاد میں اتارا۔ مقبوضہ کشمیر جہاد پر بھیج کر آپ نے لوگوں کے لیے مثال قائم کی کہ کشمیر کی آزادی کے لیے آپ اپنی اولاد کی قربانی دے سکتے ہیں۔
راجہ راشد دوسری مرتبہ مقبوضہ کشمیر [سوپور] میں گئے۔ آپ دشمن کے ساتھ ایک معرکہ میں شہید ہو گئے۔ جب بیٹے کی شہادت کی خبر راجہ محمد ریاست خان ایڈووکیٹ کو ملی تو آپ نے اللہ تعالی کا شکر ادا کیا کہ آپ کا خون اللہ کی راہ میں قربان ہوا۔
آپ شہید کے والد کہلانے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ جماعت اسلامی سے وابستگی، تحریکِ آزادی کشمیر سے لگائو، مجاہدین کشمیر کی معاونت آپ کی زندگی کامشن ہے۔ اللہ تعالی انھیں اپنے مقاصد میں کامیاب کرے۔ آمین۔
راجہ سلیم اختر
راجہ سلیم اختر 27 جون 1968ء کو سہنسہ کے گائوں سہر منڈی کی ڈھوک محلہ راجگان میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا نام راجہ اکبر داد تھا۔ راجہ اکبر داد آزاد کشمیر کے پہلے  انکم ٹیکس کمشنر تھے۔
راجہ سلیم نے اپنی ابتدائی تعلیم لارنس کالج مری سے حاصل کی۔ پرائمری پاس کرنے کے بعد آپ سہر منڈی واپس آ گئے۔ یہاں سے آپ نے آٹھویں جماعت تک تعلیم حاصل کی۔ آپ نے 1984ء میں میٹرک کا امتحان امتیازی نمبرات سے پاس کیا۔ آپ ایف ای میں گورنمنٹ ڈگری کالج کوٹلی چلے گئے جہاں سے آپ نے 1986ء میں ایف اے پاس کی۔ 1989ء میں آپ نے بی اے گورنمنٹ ڈگری کالج کوٹلی سے امتیازی نمبرات میں پاس کی۔ دورانِ تعلیم آپ ہم نصابی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے۔ آپ کالج کے بہترین ڈیبیٹر کے طور پر مشہور ہوئے۔ آ پ کا خاصہ تھا کہ کوئی تقریری مقابلہ آپ کے انعام لیے بغیر اختتام پزیر نہیں ہوتا تھا۔

آپ کھیلوں میں بھی حصہ لیتے رہے۔ آپ کے پسندیدہ کھیلوں میں والی بال اور کرکٹ شامل تھے۔ آپ نہ صرف ایک اچھے مقرر تھے بلکہ ایک بہترین سپوٹس مین بھی تھے۔ دورانِ کھیل آپ نے ہمیشہ سپورٹس مین سپرٹ کا مظاہرہ کیا۔ آپ میدان میں جرٔات، ہمت اور حوصل سے مقابلہ کرتے اور اپنی قابلیت سے ہمیشہ کامیابی حاصل کرتے۔
آپ 1996ء میں محکمہ انکم ٹیکس میں بحیثیت انسپیکٹر بھرتی ہوئے۔ آپ کی پہلی تعیناتی راولا کوٹ میں ہوئی۔ آپ کے والد نے اس محکمہ میں خوب نام کمایا تھا۔ آپ نے ان کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے محنت کو اپنا شعاربنایا۔ آپ نے والد صاحب نے نصیحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ " ہمیشہ دوسروں کے کام آئیں، جھوٹ سے نفرت کریں، ہمیشہ سچ بولیں اور ہر کام اپنے وقت پر کریں"۔ آپ والد صاحب کی اسی نصیحت پر کاربند ہیں۔ 2003ء میں آپ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ کے  عہدے پر ترقی یاب ہوئے۔ آپ نے خوب دل لگا کر کام کیا، محکمانہ امتحان میں کامیابی حاصل کی۔ صپ 2007ء میں انکم ٹیکس  آفیسر بنا دیے گئے۔ آپ بحیثیت امکم ٹیکس آفیسر مظفر آباد، پلندری اور پھر کوٹلی میں اپنے فرائض انجام دیتے رہے۔ آپ اکتوبر 2008ء سے اب تک بحیثیت انکم ٹیکس آفیسر کوٹلی تعینات ہیں۔
سنہ 1992ء میں آپ نے شادی کی۔ آپ کی زندگی کا سب سے مشکل  لمحہ آپ کے والد کی وفات تھا۔ آپ اپنے والد صاحب سے ہمیشہ بہت متاثر تھے۔ وہ ہمیشہ آپ کو زندگی کی مشکلات سے آگاہ کرتے رہتے تھے۔ راجہ سلیم اختر اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں اپنے والد کو مشعلِ راہ گردانتے تھے۔ اللہ تعالی انہیں مزید کامیابیاں عطا فرمائے۔ آمین۔  


بلاگرراجہ ممتاز احمد

        نوٹ: بلاگر کا کتاب کے کسی بھی متن سے متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں ہے

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

MANGRAL RAJPOOT BOOK PART 9

منگرال راجپوت کتاب پارٹ 11

MANGRAL RAJPOOT BOOK PART 7