منگرال راجپوت پارٹ 25

راجہ محمد ایوب خان
 
اپنے والد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے راجہ محمد ایوب خان نے محکمہ ایکسائز و ٹیکسیشن میں ملازمت اختیار کیاور ترقی کرتے کرتے آپ اکائونٹس مینیجر انکم ٹیکس اپیلنٹ ٹربیونل کے عہدہ جلیلہ پر پہنچ گئے۔ دورانِ سروس آپ نے ایمانداری ، محنت اور لگن سے کام کیا  اور ریاست بھر میں خوب نام کمایا۔
راجہ محمد ایوب خاب راجہ جیون خان کے گھر6 جون 1940ء کو سہنسہ میں پیدا ہوئے ۔ راجہ جیون خان نے علاقہ کے رسوم و رواج کے مطابق  بیٹے کی خوشی بھرپور طریقے سے منائی راجہ جیون خان علاقہ بیڑیاں میں درمیانے درجے کے زمیندار تھے۔ سہنسہ اور بالخصوص بیڑیاں میں انھیں ایک خاص مرتبہ حاصل تھا۔ راجہ جیون خان نے اپنے والد کے ہمراہ جنگِ آزادی میں بھی حصہ لیا۔  آپ ایک پکے اور سچے مسلمان تھے۔ لوگ آپ پر بھرپور اعتماد کرتے تھے۔
راجہ جیون خان 1947ء میں محکمہ ایکسائز و انکم ٹیکس میں بھرتی ہوئے۔ دورانِ سروس آپ نے محنت اور لگن سے کام کیا۔ آپ بہت ایماندار اور فرض شناس تھے۔ آپ نے ڈوگرا دور بھی دیکھا ہوا تھا اور آزادی کے بعد کے حالات بھی آپ کےسامنے تھے۔ آپ کوئی خاص پڑھے لکھے نہ تھے البتہ خواندہ ضرور تھے۔ لیکن کسی کو اپنے پڑھے لکھے ہونے کا احساس نہ ہونے دیا۔ آپ ہمیشہ مستعد اور چاک و چوبند رہتے تھے۔ آپ محکمہ ایکسائز و انکم ٹیکس میں سب انسپکٹر کے عہدے سے 1960ء میں ریٹائر ہوئے ۔
راجہ محد ایوب خان کے والد نے آپ کی پرورش میں کوئی کسر نہ چھوڑی اور آپ کی ہر ضرورت کو بخوبی پورا کیا۔ راجہ محمد ایوب خان نے ابتدائی تعلیم سہنسہ سے حاصل کی - دورانِ تعلیم آپ مختلف سکولوں اور کالجوں میں زیرِ تعلیم رہے۔ تعلیم میں آپ لائق طالبِ علم کے طور پر جانے جاتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ آپ نے پہلی بار میں ہی گریجویشن پاس کر لی -
  راجہ محمد ایوب خان 1961ء میں محکمہ ایکسائز و ٹیکسیشن میں بطور سب انسپکٹر بھرتی ہوئے۔ اس محکمہ میں بھرتی کی بڑی وجہ آپ کے والد راجہ جیون خان کی سروس تھی، جنھوں نے حال ہی میں اس محکمہ کو خیر باد کہا تھا۔ آپ اپنے والد سے بڑے متاثر تھے۔ آپ اس محکمہ میں محنت اور لگن سے کام کرتے رہے اور کامیابی آپ کے قدم چومتی رہی۔ ۔ آپ کی کام میں دلچسپی ، دل جمعی اور لگن کی وجہ سے آپ دن دگنی رات چوگنی ترقی کرتے رہے۔ آپ کائونٹس مینیجر انکم ٹیکس اپیلنٹ ٹریبیونل کے عہدے پر پہنچ گئے۔ آپ آزاد حکومت سے پہلے فرد تھے جو اس عہدہ جلیلہ پر فائز ہوئے۔ اس سے پہلے لینٹ آفیسران حکومتِ پاکستان کی طرف سے اس عہدے پر تعینات کیے جاتے تھے۔ آپ 20 جون 2000ء میں ریٹائر ہوئے۔ ریٹائر منٹ کے بعد آپ نے گوشہ نشینی کی زندگی کو پسند کیا ۔ آپ بہت کم سیاست میں ھصہ لیتے تھے، البتہ بعض اوقات سیاست دانوں کو اچھا مشورہ ضرور دیتے تھے۔
راجہ محمد ایوب خان کے خاندانی پس منظر کو سامنے رکھتے ہوئے ہم کہ سکتے ہیں کہ منگرال فیملی میں بہت کم ایسے سپوت پیدا ہوئے جنھوں نے نہ صرف اپنا نام رہتی دنیا تک زندہ رکھا  بلکہ اپنے آبا و اجداد اور آنے والی نسلوں کا نام جلی حروف میں لکھوایا۔
آپ کے دادا اور والد نے جنگِ آزادی میں حصہ لیا۔ آپ کے داد مجاہدین کے ہر اول دستے میں شامل تھے۔ انھوں نے سہنسہ میں مجاہدین کے ساتھ مل کر ڈوگرا راج کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکی۔ آپ کے دادا نے جنگِ آزادی 1947ء میں جامِ شہادت نوش کیا۔
راجہ محمد ایوب خان کے چچا راجہ شبیر خان 1965ء کی جنگ میں شہید ہوئے تھے۔ راجہ شبیر خان پاکستان آرمی میں حوالدار کے عہدے پر فائز تھے۔ آپ نکیال سیکٹر پر دشمن کی فوج سے صفِ معرکہ تھے کہ شہید ہو گئے۔ آپ کا جسدِ خاکی آپ کے آبائی گائوں پیڑیاں لایا گیا اور پورے فوجی اعزاز کے ساتح دفن کیا گیا۔
راجہ محمد ایوب خان کے تین بیٹے ہیں ۔ آپ کے بڑے بیٹے عرفان ایوب برطانیہ میں رہائش پزیر ہیں انہیں وطن کی محبت قدم قدم پر ستاتی ہے۔ آپ برطانیہ میں اپنے والد اور آباء اجداد کے اوصاف سے متصف ہیں۔ عرفان ایوب اپنے علاقہ کے غریب طلباء کی تعلیم میں امداد کرتے رہتے ہیں۔ اللہ تعالی انہیں بڑا کام کرنے کا مزید حوصلہ عطا فرمائے۔
راجہ محمد لطیف خان
محکمہ لوکل گورنمنٹ میں ایک نمایاں مقام رکھنے والے راجہ محمد لطیف خان ایک سچے اور کھرے انسان تھے۔ آپ نے عملی زندگی کا آغاز سیاست سے کیا۔ ممبر ضلع کونسل منتخب ہوئے۔ بعد ازاں گورنمنٹ سروس میں لوگوں کی خدمت کو شعار بنائے رکھا۔        
راجہ محمد لطیف خان 8 نومبر 1958ء کو راجہ جلال خان کے ہاں سہنسہ کے ایک گائوں پیڑیاں میں پیدا ہوئے۔ آپ کی پیدائش پر گھر میں جشن منایا گیا۔ ہر طرف مبارک بادیں مل رہیں تھیں۔ راجہ جلال خان تو کوئی بہت امیر آدمی نہ تھے البتہ اس وقت کے رسم و رواج کے مطابق آپ نے شایانِ شان طریقے سے بیٹے کی خوشی منائی۔ 
راجہ محمد لطیف خان نے ابتدائی تعلیم سہنسہ سے حاصل کی۔ آپ نے میٹرک گورنمنٹ کالج سہنسہ سے امتیازی نمبرات میں پاس کی۔ ایف-اے پاس کرنے کے بعد آپ 82-1981ء میں گورنمنٹ اصغر مال کاملج راولپنڈی میں داخل ہو گئے۔ تعلیمی میدان میں آپ کی راہ نمائی بڑے بھائی اور والد راجہ جلال خان نے کی۔ ان دونوں کی یہ خواہش تھی  کہ راجہ محمد لطیف خان پڑھ لکھ کر بڑے آدمی بنیں۔ آپ نے دل لگا کر پڑھائی کی۔ جس کی وجہ سے آپ نے 1984ء میں گریجویشن مکمل کی۔ دورانِ تعلیم آپ نے طلباء یونین کی سیاست میں بھی پڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ گورنمنٹ اصغر مال کالج کی مجلسِ طلباء کے انتخابات میں حصہ لیا، جنرل سیکیرٹری کی نشست کے لیے حصہ لیا،  جنرل سیکیرٹری کی نشست کے لیے امید وار تھے اور آپ نے 500 ووٹ لیے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ تعلیم کے ساتھ ساتھ طلباء کی مشکلات میں بھی ان کیے معاون رہے۔ 
گریجویش نے بعد والد صاحب کی شدید خواہش پر آپ کراچی تشریف لے گئے۔ جہاں آپ نے 1985ء میں ایس ایم لاء کالج میں داخلہ لیا۔ وکالت کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد آپ واپس سہنسہ آ ئے۔ وکالت کا لائسنس حاصل کے کے اسی پیشہ کو باقاعدہ اختیار کیا۔ وکالت کے دوران آپ نے لوگوں کی خدمت بھی جاری رکھی۔ اس دوران آپ نے عملی سیاست میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا کیونکہ آپ سیاست کو عبادت سمجھتے تھے۔
یوں 1987ء میں آپ نے ضلع کونسل کا الیکشن لڑا اور کامیاب قرار پائے۔ انتخابات جیتنے کے بعد آپ سماجی کاموں میں جت گئے۔ آپ کو مخالف امیدوار چوہدری محمد حسین آف بھرنڈ بھٹہ والوں سے 700 ووٹ زیادہ ملے۔ یوں آپ لوگوں کی خدمت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے اور ان کے ہر مشکل وققت میں اپنے آپ کو خدمت کے لئے تیار رکھتے۔ پھر کایا پلٹی اور آپ نے سیاست سے کنارہ کشی کا فیصلہ کر لیا۔
1989ء میں آپ نے بحیثیت چیف آفیسر میونسپل کارپوریشن میر پور سروس کا آغآز کیا۔ تب سے اب تک آپ گورنمنٹ ملازمت میں مختلف علاقوں میں تعینات رہے۔ آپ میونسپل ایڈمنسٹریٹر اسلام گڑھ، ڈڈیال اور میر پور فرائض دیتے رہے اور لوگوں کی خدمت جو آپ نے بحیثیت ایک سیاسی کارکن کے شروع کی تھی، اس کی تکمیل دورانِ سروس کی۔ آپ لوگوں کے جو کام بحیثیت ممبر ضلع کونسل نہ کر سکے وہ آپ نے ملازمت کو دوران کیے اور یوں آپ نے قلبی سکون محسوس کیا۔
راجہ محمد لطیف خان محکمہ لوکل گورنمنٹ و بلدیات میں ایک اہم مقام رکھتے ہیں اور آپ نے دورانِ سروس کبھی کسی ملازم کو تنگ نہ کیا۔ آپ فارغ وقت میں اخبار پڑھنا اور حالات حاضرہ میں خاصہ دلچسپی رکھتے تھے۔ آپ کی خواہش ہے کہ ریٹائرمنٹ لے کر دوبارہ سیاست کے میدان میں قدم رکھا جائے اور عوام کی خادم بن کی کی جائے۔
راجہ علی اختر
سیاسی اور سماجی کارکن راجہ علی اختر ایک شریف النفس اور اعلی قدروں کے حامل انسان ہیں۔ ان کی زندگی محنت اور جدو جہد مسلسل سے عبارت ہے۔ دکھ درد میں لوگوں کے کام آنا ان کی زندگی کا شعار ہے۔ سیاست ہو یا کاروبار زندگی میں ہر جگہ آپ نے صداقت اور ایمان داری سے کام لیا۔ ابھی صفات کی وجہ سے آپ علاقہ میں احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔
راجہ علی اختر 15 جون 1936ء کو پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا نام راجہ محمد خان تھا جو ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ بہن بھائیوں میں سب سے بڑے تھے۔ راجہ علی اختر کا شجرہ نسب ساتویں پشت میں راجہ شیر خان سے اور چودھویں پشت میں راجہ دان خان سے جا ملتا ہے۔ راجہ دان خان، راجہ سینس پال کے سب سے بڑے بیٹے تھے۔ راجہ سینس پال علاقہ سہنسہ، انوہی سہوٹہ اور سرساوہ پنجیڑہ میں آباد منگرال راجپوت قبیلے کے جدِ اعلی ہیں۔
راجہ علی اختر نے ابتدائی تعلیم کٹھار سہنسہ سے حاصل کی، بعد میں آپ ڈڈیال میں داخل ہوگئے۔ کچھ عرصہ بعد آپ کے والد نے آپ کو کوٹلی میں داخل کروا دیا جہاں سے آپ نے ساتویں جماعت کا امتحان پاس کیا لیکن ایک دن استاد کی مار دل برداشتہ ہوگئے اور اسکول چھوڑ دیا۔ سکول چھوڑنے کی صرف یہی ایک وجہ نہ تھا بلکہ غربت نے بھی اپنا کردار ادا کیا۔
اسکول چھوڑنے کے بعد آپ نے گائوں میں ایک چھوٹی سی دکان رکھ لی اور والد صاحب کا ہاتھ بٹانا شروع کر دیا۔ کچھ عرصہ دکانداری کرنے کے بعد آپ 1963ء میں ووچر سسٹم کے تحت انگلینڈ چلے گئے جہاں آپ نے خوب محنت کی اور بہت سارا روپیہ کمایا۔ انگلینڈ سے واپسی پر آپ نے رزم بروز [جیغن] کی ٹھیکیداری شروع کر دی جہاں نہ صرف آپ نے پیسہ کمایا بلکہ اپنا ایک مقام بھی بنا لیا۔ آپ ایمانداری کی وجہ سے لوگوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھے جانے لگے۔
اسکول چھوڑنے کے بعد آپ نے گائوں میں ایک چھوٹی سی دکان رکھ لی اور والد صاحب کا ہاتھ بٹانا شروع کر دیا۔ کچھ عرصہ دکانداری کرنے کے بعد آپ 1963ء میں ووچر سسٹم کے تحت انگلینڈ چلے گئے جہاں آپ نے خوب محنت کی اور بہت سارا روپیہ کمایا۔ انگلینڈ سے واپسی پر آپ نے رزم بروز [جیغن] کی ٹھیکیداری شروع کر دی جہاں نہ صرف آپ نے پیسہ کمایا بلکہ اپنا ایک مقام بھی بنا لیا۔ آپ ایمانداری کی وجہ سے لوگوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھے جانے لگے۔
آپ نے عملی سیاست میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا تو لوگوں نے آپ کی حوصلہ افزائی کی۔ آپ نے 1979ء میں ڈسٹرکٹ کونسلر کے انتخابات میں حصہ لیا اور بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی۔ آپ نے اس الیکشن میں بحیثیت آزاد امیدوار حصہ لیا لیکن بعد میں ووٹ مسلم کانفرنس کو دیا۔ آپ نے اس الیکشن میں بہت بڑے بڑے برج گرائے، جن میں چودھری حبیب، چودھری محمد حسین آف بھرند، ذیلدار دلیر خان آف تڑالہ، سردار میجر ردیل خان، راجہ مطلوب ایڈووکیٹ اور راجہ رزاق خان آف پیاہی جیسے بڑے بڑوں کو شکست دی۔
آپ نے سماجی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور لوگوں کے دکھ درد میں شریک رہے۔ آج بھی لوگ آپ کو کسی بڑے فیصلے کے لیے شامل مشورہ رکھتے ہیں۔ آپ تقریباً ہر سال انگلینڈ جاتے ہیں لیکن وہاں کی زندگی کو پسند نہیں کرتے۔ آپ کی اولاد میں دو بیٹھے انگلینڈ میں رہائش پزیر ہیں جب کہ ایک بیٹا راجہ وقار احمد یہاں عملی سیاست میں ہیں جو اپنے باپ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے سماجی خدمت میں مصروفِ عمل ہے۔ راجہ علی اختر نہایت ہی شریف النفس آدمی ہیں۔ انھوں نے پوری زندگی لوگوں کی خدمت کو اپنا شعار بنایا اور ہر مشکل میں لوگوں کے کام آئے۔ آپ ایک بھرپور زندگی گزار رہے ہیں۔ اللہ تعالی ان کا سایہ ہمارے سروں پر قائم رکھے۔ آمین
یہی ہے عبادت یہی دین و ایماں
کہ کام آئے دنیا میں انساں کے انساں  
راجہ محمد زبیر خان ایڈووکیٹ
راجہ محمد زبیر خان نے ابتدائی تعلیم سہنسہ سے حاصل کی۔ ڈگری سطح کی تعلیم گورنمنٹ کالج کوٹلی سے حاصل کی۔ سہنسہ، کوٹلی اور میر پور میں وکالت کرتے رہے۔ آج کل میر پور بار میں وکالت کر رہے ہیں۔
راجہ محمد زبیر خان ایڈووکیٹ 6 جنوری 1965ء میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد راجہ حکم داد خان ایک خوشحال گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور علاقے میں ایک کاروباری شخصیت کے طور پر جانے جاتے تھے۔ آپ کی پیدائش پر انھوں نے گھر میں خوشی منائی۔
راجہ محمد زبیر خان نے پرائمری تعلیم راجہ بازار سہنسہ سے حاصل کی۔ آپ میٹرک کے بعد انٹرمیڈیٹ میں داخل ہوئے اور گورنمنٹ ڈگری کالج سہنسہ میں ایک ذہین طالبعلم کے طور پر جانے جاتے تھے۔ انٹرمیڈیٹ پاس کرنے کے بعد آپ گریجویشن کے لیے کوٹلی چلے گئے جہاں سے آپ نے ضلع کوٹلی کی مشہور درسگاہ گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج سے گریجویشن 88-1987ء میں کی۔ دورانِ تعلیم آپ نے سیاست میں بھی حصہ لیا اور کالج سطح پر کشمیر فریڈم موومنٹ کے نام سے بننے والی تنظیم کے بانی کارکنان میں شامل ہوتے تھے۔
وکالت کے پیشے کو آپ پسند کرتے تھے اس لیے گریجویشن کے بعد آپ حصولِ علم کے لیے کراچی چلے گئے جہاں آپ نے ایس ایم لاء کالج میں داخلہ لیا۔ آپ نے 1991 ء میں لاء کی ڈگری لی اور اسی سال آپ نے لائسنس حاصل کیا۔ لاء کی تعلیم کے دوران میں آپ نے متعدد بین الاقوامی کتابوں کا مطالعہ کیا اور ایک بھرپور جزبے سے عملی پریکٹس کا آغاز کیا۔ آپ کی تربیت میں آپ کے سبھی اساتزہ نے اپنا کردار ادا کیا لیکن پروفیسر راجہ عبدالطیف اور پروفیسر عمر فاروق سے سے نمایاں ہیں۔
سنہ 1992ء میں آپ سہنسہ پار میں بحیثیت جونئیر وکیل جسٹس راجہ  رفیع اللہ سلطانی ایڈووکیٹ کے چیمبر میں شامل ہوئے۔ اسی سال آپ نے شادی کی اور باقاعدہ عملی زندگی کا آغاز ہوا۔ کامیابیوں کے حوالے سے 1992ء کا سال آپ کے لیے بہت اچھا ثابت ہوا۔ کچھ عرصہ سہنسہ میں پریکٹس کرنے کے بعد آپ میر پور چلے گئے جہاں آپ نے پہلے جسٹس چوھدری محمد تاج کے چینبر کو جوائن کیا لیکن جلد ہی آپ نے اپنا چیمبر قائم کر کے کام شروع کر دیا۔ 2000ء میں آپ نے میر پور بار کے  الیکشن میں حصہ لیا اور جنرل سیکرٹری منتخب ہوگئے۔ آپ نے وکالت کے پیشے میں جدوجہد جاری رکھی اور 2008ء میں سپریم کورٹ کا لائسنس حاصل کیا اور ابھی تک بحیثیت سپریم کورٹ لائر کام کر رہے ہیں۔ اللہ تعالی نے آپ کی زندگی کی ہر خواہش پوری کی اور آپ ہمیشہ اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں۔  آپ سماجی کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ نوجوان نسل کے لیے آپ کا یہ پیغام ہے کہ "حقائق کو مدِ نظر رکھ کر مستقبل کی منصوبہ بندی کرِیں.
راجہ کرامت خان
علاقہ سہنسہ میں ایک منفرد مقام رکھنے والے ہنس مکھ اور ہر دلعزیز راجہ کرامت خان، ایک وضع دار اور بااصولشخص تھے۔ آپ امن و آتشی کے علمبردار تھے۔ مستقل مزاج سیاسی کارکن ہونے کے ناطے زندگی بھر مسلم کانفرنس سے وابستہ رہے۔ قومی مفاد کو ہمیشہ ترجیح دیتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ آج بھی آپ کو یاد کرتے ہیں اور آپ کے کردار کو قابل تقلید گردانتے ہیں۔ 
راجہ کرامت خان، راجہ رنگ کے خان گھر پیدا ہوئے۔ آپ کا شجرہ نسب آٹھویں نسل میں راجہ شیر خان سے جا ملتا ہے۔ راجہ شیر خان کی اولاد پیڑیاں، دگالہ اور چچلاڑ میں آباد ہے۔ راجہ کرامت خان کا پندرھویں پشت میں راجہ دان خان سے نسب جا ملتا ہے۔ دان خان، راجہ سینس پال خان کے سن سے بڑے بیٹے تھے۔ سہنسہ، سرساوہ، پنجیڑہ اور انوہی سرہوٹہ میں ان کی اولاد میں سے لوگ آ کر آباد ہوئے۔  راجہ کرامت خان ایک ہنس مکھ انسان تھے۔ وہ بڑے وضع دار شخص تھے، کبھی کسی کو تنگ نہیں کیا بلکہ انھوں نے اپنی زندگی میں تھانہ کلچر کا خاتمہ کیا، لوگوں کا بڑے سے بڑا فیصلہ کراجہ کرامت خان کیا کرتے تھَ۔ انھوں نے اپنا بچپن اور جوانی نہایت شرافت سے گزارے، وہ عوامِ علاقہ میں بڑا اثر و رسوخ رکھتے تھے۔
آپ نے لوگوں کے اصرار پر دوبارہ بی ڈی کا الیکشن لڑا اور دونوں مرتبہ جیت گئے۔ یہ لوگوں کا ان محبت اور پیار کا واضع ثبوت ہے۔ جب وہ بی ڈی کے ممبر بنے تو اس وقت پورے آزاد کشمیر میں پیپلز پارٹی کا طوطی بولتا تھا۔ لیکن آپ کی ساری سیاسی وابستگی مسلم کانفرنس کے ساتھ تھی۔ آپ بہت دلیر اور نڈر آدمی تھے۔ 1947ء میں کوٹلی کے مقام پر جب سردار عبدالقیوم خان کو روکا گیا تو آپ سینہ سپر ہو کر کھڑے ہو گئے، لوگوں نے جن راجہ کرامت خان کو دیکھا تو پیچھے ہٹ گئے اور سردار عبدلقیوم کو جانے دیا۔ 
راجہ کرامت خان کے قابل اعتبار ساتھی، دوست اور ۔ ہمدرد لوگوں میں ایک نام راجہ محبت خان آف چھوچھ کا بھی ہے جو ہمیشہ آپ کے ساتھ رہے۔ آپ کے بیٹوں میں ظہور احمد خان بھی سیاست کے میدان میں ایک اہم مقام رکھتے تھے، وہ حلقہ سہنسہ میں مسلم کانفرنس کے تحصیل صدر بھی ہیں اور اپنے باپ کے مشن کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔
آج راجہ کرامت خان ہمارے درمیان نہیں ہیں لیکن ان کا فلسفہ زندگی، عوام دوستی اور مخلصانہ پن ہمارے درمیان رہے گا۔ خدا ان کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے۔ آمین۔
 

بلاگرراجہ ممتاز احمد

        نوٹ: بلاگر کا کتاب کے کسی بھی متن سے متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں ہے  
 
 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

MANGRAL RAJPOOT BOOK PART 9

منگرال راجپوت کتاب پارٹ 11

MANGRAL RAJPOOT BOOK PART 7