منگرال راجپوت پارٹ23

 صوبیدار راجہ شہباز خان

سرساوہ کے منگرال ،راجپوت خندان سے تعلق رکھنے والے صوبیدار شہباز خان نے ابتدائی تعلیم سرساوہ سے حاصل کی۔ 1954ء میں پنجاب یونیورسٹی سے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور علاقہ سرساوہ میں منگرال خاندان کے پہلے میٹرک پاس کہلائے۔ آپ فوج میں بھرتی ہو گئے۔ سروس کے ساتھ ساتھ تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا۔ 1970ء میں پنجاب یونیورسٹی سے گریجویشن کی۔ صوبیدار کے عہدہ پر فائز ہوئے۔ فوجی ملازمت کے دوران متعدد اعزازات حاصل کیے۔ علاقہ میں ان کا گھرانہ اعلی تعلیم یافتہ ہونے کی بنیاد پر ،،عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ان کی اولاد اچھے عہدوں پر فائز ہے۔ آپ نے 16 مارچ 2011ء میں 74 سال کی عمر میں وفات پائی۔

راجہ شہباز خان 1994بکرمی ماہ ماگھ سنہ 1937ء میں سرساوہ کے نواحی گائوں نگئ میں پیدا ہوئے۔ 1922ء میں والد امیر محمد خان محکمہ پولیس میں کانسٹیبل بھرتی ہوئے۔ 1947ء میں راجہ امیر محمد خان کی مدت ملازمت 27 برس تھی۔ آزادی کے بعد راجہ امیر محمد خان آزاد کشمیر پولیس میں خدمات سر انجام دیتے رہے۔ ایک ایمان دار پولیس افسر ہونے کی حیثیت سے علاقہ میں انھیں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔  بالآخر آپ 1956ء میں  اپنی سروس مکمل کر کے ملازمت سے ریٹائر ہوئے اور 15 اگست 1963 کو اس دنیا ئے فانی سے رحلت فرما گئے۔ صوبیدار راجہ شہباز خان کے پردادا عظیم اللہ خان اپنے وقت کے کامل ولی تھے۔ ان کا مزار مقبوضہ پونچھ کے علاقے "چکاں والا باغ" میں ہے۔ آپ کے مزار پر آپ کے مریدین حاضری دیتے ہیں اور روحانی فیض حاصل کرتے ہیں۔ آپ کے دادا راجہ نوازش علی خان بڑے متقی اور پرہیز گار انسان تھے۔ وہ دینی تعلیم کے سلسلے میں تحصیل گوجر خان کے گائوں قاضیاں کی ڈھوک گھکھڑاں میں خدمات سرانجام دے رہے تھے کہ آپ کا انتقال ہو گیا اور آپ کو ڈھوک گھکھڑاں کے قبرستان میں دفن کیا گیا۔

راجہ شہباز خان نے اپنے گائوں کے سکول سے 1950ء میں پرائمری کا امتحان پاس کیا۔ لکھنے پڑھنے کا انھیں بےحد شوق تھا۔ چھٹی جماعت میں کوٹلی کے ہائی سکول میں داخل ہوئےتعلیم کا یہ سفر مزید پانچ سال جاری رہا اور 1954ء میں انھوں نے پنجاب یونیورسٹی لاہور سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ حصولِ تعلیم کا انہیں بےحد شوق تھا مگر اس وقت کوٹلی میں کوئی کالج نہ تھا اس لیے تعلیم کا سلسلہ منقطع کرنا پڑا۔

اگلے سال 1955ء میں آپ آزاد کشمیر فوج میں بحیثیت کلرک بھرتی ہو گئے۔ فوج کا یہ شعبہ آپ  نے اس لیے منتخب کیا کہ اس میں لکھنے پڑھنے کا کام تھا اور آپ کا فطری رجحان بھی اس طرف تھا۔ نو ماہ بنیادی فوجی تربیت حاصل کرنے کے بعد سی ایم ایچ مظفر آباد تعینات کیا گیا۔ دو سال تک یہاں کام کیا اور پھر 1958ئ میں سی ایم ایچ تراڑ کھل بھیج دیا گیا جہاں وہ اپنے فراَض منصبی احسن طریقے سے انجام دیتے رہے۔ صاف ستھرے اور سلیقے سے کام کرنے کے قائل تھے۔ ان کے کام کو ہمیشہ سراہا گیا اور ہر جگہ  پذیرائی ملی۔   سنہ 1962ء میں ترقی ملی اور نائیک بنا دیے گئے اور جلد ہی ان کی ٹراسفر قدرے بڑے ہسپتال سی ایم ایچ میر پور ہو گئی جہاں انھوں نے دلجمعی سے کام کیا اور پھر یکے بعد دیگرے کئی مقاماتِ تعیناتی بدلتے رہے۔

بقول علامہ اقبال
سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں
ثبات   ایک   تغیر  کو  ہے   زمانے   میں
حصولِ تعلیم کا بے حد شوق تھا مگر سروس میں وقت کم ملتا تھا۔ بہرحال آپ نے ہمت نہ ہاری، مطالعہ کرتے رہے اور 1967ء میں لاہور بورڈ سے ایف اے کا امتحان پاس کر لیا۔ تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا اور 1970ء میں پنجاب ینیورسٹی سے بی اے کر لیا۔ وہ بی اے کرنے کے سیجوکیشن کور میں جانے کا ارادہ رکھتے تھے مگر شاید قدرت کو یہ منظور نہ تھا۔

سنہ 1976 میں فیلڈ امبولینس کے ساتھ پشاور میں پانے فرائض سر انجام سے رہے تھے جب انھیں نائب صوبیدار ترقیاب کیا گیا۔ 1980ء میں ان کی درخواست پر کوٹلی تبدیل کیا گیا کیوں کہ وہ گھریلو مسائل کی بناء پر گھر کے قریب رہنا چاہتے تھے۔ بعد ازاں 1981ء میں ترقی دے کر صوبیدار بنا دیا گیا۔ آرمی ایجوکیشن کور میں جے سی او بننے کاخواب تو پورا نہ ہو سکا مگر اپنے ہی کیڈر میں جلد ہی جونئیر کمیشنڈ آفیسر بن گئے۔

سروس کے دوران ہر کوئی ترقی کا خواہاں ہوتا ہے۔ ملازمت کا یہ سفر جو 1955ء میں شروع ہوا تھا، 1985 میں تیس سال کی خدمات کے بعد اس وقت اختتام پزیر ہوا جب انہوں نے 1985ء میں دس ماہ کی ایل پی آر لے لی اور گھر سدھارے۔ پھر 1986 میں باقاعدہ ریٹائرمنٹ ہوئی اور مروجہ مراعات اور پنشن حاصل کی۔ آپ تیس سالہ کیرئیر میں ایک مستعد، باصلاحیت اور ایمان دار اہل کار کے طور پر جانے جاتے تھے اور نہیں متعدد اعزازات و تعریفی اسناد سے نوازا گیا ۔ 

والد کی وفات کے بعد گھریلو زمہ داریوں کا بوجھ ان کے کندھوں پر تھا۔ دیگر زمہ داریوں کے علاوہ چند سازشی عناصر نے انھیں زمین کے مقدمہ میں الجھا دیا، گائوں میں ان کء غیر موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے زمین کا مقدمہ شروع کر دیا۔ انھیں سالوں یہ مقدمہ لڑنا پڑا مگر آپ حق کے حصول کے لیے تنِ تنہا ڈٹے رہے، پائے استقلال میں لغزش نہ آئی اور آخر کار اپنا حق حاصل کر کے ہی دم لیا۔ آپ بہن بھائیوں کی کفالت اور نگہداشت بطریقِ احسن کرتے رہے۔ آپ نے اولاد کی تعلیم پر بھی خصوصی توجہ دی۔ یوں آپ کا گھرانہ سرساوہ میں پہلے سن سے زیادہ پڑھا لکھا تصور کیا جاتا ہے۔ آپ کے بیٹوں میں سرفراز احمد ایم اے ایل ایل بی ہیں جو علاقہ سرساوہ میں پہلے سیڈووکیٹ بھی ہیں۔ انہیں یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ اس علقہ کی منگرال قبیلہ میں پہلے درجہ اول مجسٹریٹ بھی ہیں۔ دورانِ سروس وہ بحیثیت اینڈمنسٹر میونسپل کارپوریشن ضلع پلندری [سندھنوتی] بھی رہے۔

صوبیدار شہباز خان کے منضحلے بیٹے نوید احمد کی تعلیمی قابلیت ایم ایس سی اور ایم فل بھی کر رہے ہیں۔ ان کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ ع،قہ سرساوہ میں پہلے بی سترہ لیکچرر ہوئے ہیں۔ اس سے پہلے علاقہ سرساوہ کی منگرال فیلسملی میں کوئی ڈائرکٹ لیکچرر نہ تھا۔ نوید احد سے چھوٹے بیٹے توقیر احمد ایم اے انگلش ہیں، وہ اپنے علاقہ کے پہلے شخص ہیں جو پولیس ڈیپارٹمنٹ میں ڈائرکٹ اے ایس آئی بھرتی ہوئے، وہ آج کل سب انسپکٹر کے عہدے پر اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں اور مختلف تھانوں میں بحیثیت ایس ایچ او بھی تعینات  رہے۔ ان کی سروس کا زیادہ تر حصہ سہنسہ ،کھوئی رٹہ کوٹلی اور میر پور تھانوں میں گزرا۔

توقیر احمد سے چھوٹے بیٹے ظہیر احمد نے ایم اے اردو[پارٹ اوّل] کیا، کچھ عرصہ پرائمری مدرس رہنے کے بعد بسلسلہ روزگار سپین چلے گئے جہاں وہ اپنا کاروبار کرتے ہیں اور سپین میں موجود مسلم کمیونٹی میں ایک خاص مقام رکھتے ہیں۔
اس بات سے صوبیدار شہباز خان کی علم دوستی کا ثبوت ملتا ہے کہ انھوں نے نا مساعد حالات میں نہ صرف خود زورِ تعلیم سے آراستہ ہوئے بلکہ اپنے بچوں کو بھی علم کی روشنی سے آراستہ ہونے کا پورا پورا موقع فراہم کیا۔ 

صوبیدار شہباز خان نے بھر پور زندگی گزاری اور وہ ان خوش قسمت لوگوں میں شامل تھے جنھوں نے اپنے بچوں کو مختلف محکموں میں اپنی قابلیت کے جوہر دکھاتے ہوئے دیکھا۔
آپ کا وصال 16 مارچ 2011ء بروز بدھ بمطابق 9 ربیع الثانی 1432ہ، دن ایک بج کر50 منٹ پر ہوا جب کہ آپ کی نمازِ جنازہ 17 مارچ 2011ء بروز جمعرات دن 3 بجے ادا کی گئی۔ آپ کی نماز جنازہ میں زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ اللہ تعالی آپ کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے۔ آمین۔

راجہ محمد اکرم خان 

راجہ محمد اکرام خان کا تعلق سرساوہ کے "عزت خانیاں" گھرانے سے ہے۔ فی الوقت وہ سرساوہ میں زکوۃ عشر کےچئیرمین ہیں۔ ان کی زندگی جہد مسلسل کا عملی نمونہ ہے۔ ان کا خانوادہ آزادی سے قبل حکومت دخیل رہا ہے اور ان کے دادا کو سرکار کی طرف سے "سردار" کا خطاب ملا تھا۔

سنہ 1936 ء میں کوئی روشن دن نہیں تھا۔ سرساوہ میں نمبردار راجہ غوث محمد کے گھر خوشیوں کا راج تھا، جشن کا سماں تھا۔ لوگ جوق در جوق مبارک فینے آ رہے تھے۔ وجہ؟ یہ تھی کہ اللہ کریم نے نمبردار غوث محمد کو بیٹے سے نوازا تھا۔ دک کھول کر خوشیاں منائی گئیں اور نومولود کا نام راجہ محمد اکرم رکھا گیا۔ نمبردار راجہ محمد اکرم خان "عزت خانیاں" گھرانے کے چشم و چراغ ہیں۔ عزر خانیاں کی وجہ تسمیہ اگر بیان کی جائے تو وہ کچھ یوں ہے کہ راجہ محمد اکرم خان کا شجرہ نسب پولا جی عرف عزت خانیاں سے ملتا ہے۔ پولا جی عرف عزت خانیاں، راجہ رزاق کے سب سے بڑے بیٹے ہونے کے ناطے عزت خانیاں کے نام سے مشہور ہوئے اور آج تک ان کی اولاد عزت خانیاں کے نام سے جانی جاتی ہے۔

راجہ محمد اکرام خان نے جس گھر میں آنکھ کھولی وہ معاشی تنگدستیوں سے آزاد گھر تھا۔ گھر میں ہر وقت کال کرنے والے دو چار آدمی موجود رہتے تھے۔ گھر کے باسیوں کے دلوں میں فکرِ معاش کا گزر تک نہ تھا۔ راجہ محمد اکرم خان کے والد نمبردار راجہ غوث محمد خان ایک نامی گرامی نمبردار تھے آپ کے دادا راجہ حسن خان "سردار" کہلاتے تھے۔ یہ خطاب انھیں ہندو مہاراجہ نے دے رکھا تھا۔ سردار راجہ حسن خان کے ماتھے پر ہر سال سرکار کی طرف سے سرداری کا ٹکہ لگایا جاتا تھا۔ اس سلسلہ میں ہر سال سدروٹ سرساوہ میں ایک پر شکوہ تقریب منعقد ہوتی تھی جس میں تمام سرکاری اہلکار شریک ہوتے تھے۔ اس تقریب میں سرداری کا ٹیکہ لگانے کا اعادہ کیا جاتا تھا۔

راجہ محمد اکرم خان کی عمر ابھی نو سال ہی تھی کہ والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ راجہ محمد اکرم خان نے پانچویں تک تعلیم پرائمری سکول سرساوہ سے حاصل کی۔ یہ اس دور میں سرساوہ کا واحد تعلیمی ادارہ تھا۔ آج بھی جب نمبردار راجہ محمد اکرم خان اس دور کے اپنے پسندیدہ اساتزہ کا زکر رکتے ہیں تو ماٹر کرم چند کا نام ضرور لیتے ہیں۔ گھریلو ذمہ داریوں کی وجہ سے راجہ صاحب اپنی تعلیم مکمل نہ کر سکے اور تعلیم ادھوری چھوڑ کر گھر کی دیکھ بھال میں مصروف ہو گئے۔ 1976ء میں آپ سعودی عرب چلے گئے جہاں "سلیکو" کمپنی میں بطور ڈرائیور خدمات سر انجام دیتے رہے اور وہیں پر 1980ء میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو حج کی سعادت نصیب کی۔ علاوہ ازیں دورانِ ملازمت آپ نے کئی عمرے بھی کئے اور کعبۃاللہ اور روضہ رسول صلی علیہ وسلم کی زیارت سے قلب و ذہن کے منور کیا۔ 1981ء میں آپ گھر تشریف لائے اور سماجی و سیاسی کاموں میں حصہ لینا شروع کر دیا۔ آپ نے اپنی سیاسی سرگرمیوں کے لیے مسلم کانفرنس کے پلیٹ فارم کو منتخب کیا۔

جب مسلم لیگ [ن] آزاد کشمیر میں دسمبر 2010ء کو وجود میں آئی تو آپ اس میں شامل ہو گئے۔
آپ 1982ء تا 1990ء بحیثیت چئیرمین زکوٰۃ و عشر کمیٹی فرائض ادا کرتے رہے۔ 1990ء میں آپ انگلینڈ چلے گئے جہاں آپ نے انتہائی محنت اور لگن سے کام کیا۔ 1998ء میں آٹھ سال کے قیام کے بعد آپ انگلینڈ سے واپس اپنی جنم بھومی سرساوہ آگئے اور پھر سے سیاسی و سماجی سرگرمیوں میں مصروف ہو گئے۔ چونکہ راجہ صاحب کو گھڑ سواری اور کبڈی کے علاوہ سیر و تفریح کا بھی شوق تھا لہٰذا اپنے آٹھ سالہ قیام انگلینڈ کے دوران آپ نے اپنے سیر و تفریح کے شوق کو بھی بھر پور طریقے سے پورا کیا۔ اس وقت آپ زکٰوۃ و عشر کمیٹی کے چئِرمین کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے تھے۔

راجہ محمد کفایت خان

راجہ محمد کفایت کا تعلق سرساوہ سے ہے۔ آپ نے پاکستان کی قومی فضائی کمپنی پی آئی اے میں 34 سال سروس کے بعد ریٹائرمنٹ لی۔ آج کل آپ علاقہ سرساوہ میں سماجی کاموں میں مشغول ہیں۔

راجہ محمد کفایت خان 6 ستمبر 1934ء میں راجہ ولایت خان کے ہاں سرساوہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کا شجرہ نسب ساتویں پشت میں راجہ سوار خان عرف بوڑھے خانیاں سے جا ملتا ہے۔ جب کہ نویں پشت میں آپ کا رشتہ راجہ سربلند خان عرف پہاڑ خان سے جڑتا ہے۔

آپ نے انتدائی تعلیم پرائمری سکول باغ بخشیاں پنجیڑہ سے حاصل کی۔ آپ تعلیم میں اچھے طالب علم جانےجاتے تھے۔ اس کے بعد آپ نے گورنمنٹ پائیلٹ ہائی سکول کوٹلی میں داخلہ لیاجہاں سے آپ نے 1956ء میں میٹرک امیازی نمبروں سے پاس کیا۔ پائلٹ ہائی سکول سے آپ نے میٹرک میں تیسری پوزیشن حاصل کی ، اس وقت تمام امتحانات پنجاب بورڈ کے تحت ہوتے تھے۔

سنہ 1956ء مارچ 16 میں آپ کے والد کا انتقال ہوا۔ والد کی ناگہانی موت سے آپ کی تعلیم کا سلسلہ بھی عارضی طور پر ٹوٹ گیا۔ گھر کے مالی حالات زیادہ اچھے نہ تھے جس کی وجہ سے آپ نے کراچی جانے کا فیصلہ کیا۔ اس وقت اکثر لوگ ملازمت کے لیے کراچی کا رخ کیا کرتے تھے۔ چنانچہ آپ 1958ء میں کراچی چلے گئے، وہاں آپ نے تین ماہ ایک پرائویٹ ادارے میں کام کیا۔ کچھ ہی عرصہ بعد آپ نے پاکستان ائیر فورس میں بحیثیت ایل ڈی اے ملازمت اختیار کی۔ آپ اس عہدے پر پی اے ایف میں دو سال تک کام کرتے رہے۔ چونکہ آپ طبعاً ایک مستقل مزاج انسان تھے، کام کی حد درجہ لگن تھی۔ اس لیے آپ نے ان دو سالوں میں بڑی دل جمعی اور جاں فشانی سے کام کیا اور ادارے مین احترام کی نگاہ سے دیکھے جانے لگے۔ لیکن ایک دنن آپ کی سوچ بدلی اور آپ نے 1961ء میں پی آئِی اے میں بحیثیت ٹائیپسٹ کلرک ملازمت اختیار کر لی۔ تین سال تک اسی عہدے پر کام کرتے رہے۔ آکے کے اندر حصول علم کی تڑپ موجود تھی مگر والد کی وفات سے سلسلہ تعلیم نقطع ہو گیا۔ جب حالات قدرے بہتر ہوئے تو آپ نے پڑھائی کی طرف توجہ دی۔ 1964ء میں آپ نے ملازمت کے ساتھ ساتھ آئی کام کا امتحان پاس کر لیا اور آپ کو انسپکشن اسسٹنٹ کے عہدے پر ترقی سے دی گئی۔ اس عہدے پر آپ نے اپنے فرائض منصبی بطریق احسن سر انجام دیے۔    یہاں آپ کو فلٹر میں شیڈول کو چیک کرنا تھا اور مینٹینس کی دیکھ بھال کرنا تھی۔ پھر 1967ء میں آپ نے کراچی یونیورسٹی سے بزنس ایدمنسٹریشن میں گریجویشن مکمل کی، آپ کی تعلیمی قابلیت، کام سے لگن اور ایمانداری کے دیکھتے ہوئے آپ کو 1967ء میں سینئیر انسپکشن اسسٹنٹ کے وہدے پر ترقی دے دی گئی۔ اس دوران میں آپ لگاتار محنت کرتے رہے اور کراچی سے بہت کم گائوں آنا ہوتا تھا۔ کچح عرصہ بعد آپ کو پروفیسر گریڈ میں ترقی مل گئی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے قدرت کچھ ایسی مہربان ہوئی کہ یکے بعد دیگرے آپ کو سلیکشن میں تین ترقیاں ملیں۔ آپ کو پی آئی اے میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

پی آئی اے میں چونتیس سالہ خدمات کے بعد بالآخر 1994ء میں آپ آفیسر گریڈ میں ریٹآئیر ہوئے۔ آپ نے 34 سال پی آئی اے میں خدمات سرانجام دیں۔ یہاں رہتے ہوئے آپ نے علم کی پیاس بھی بجھائی۔ آپ تقریباً چالیس سال اپنے وطن اور گھر سے دور رہے تھے۔ آپ گھر میں رہ کر اس خطہ کے لوگوں کی خدمت کا عزم رکھتے تھے اس لیے آپ نے مختلف کمپنیوں کے طرف سے نوکری کے لیے پیش کش ٹھکرا دیں۔ جن میں ائیرو ایشیا بھی شام ہے۔ لیکن آپ نے اپنے آپ کو خدمت خلق کے لیے وقف کرنا ہی مناسب سمجھا۔ چنانچہ آپ نے اپنے آپ کو مختلف رفاہی کاموں کے لیے وقف کر دیا۔
آپ نہایت ہی شریف النفس انسان ہیں۔ علاقہ سرساوہ میں آپ کا نام عزت اور احترام سے لیا جاتا ہے۔ کبڈی اور بازو گیری کے مقابلے آپ کے پسندیدہ شوق ہیں جنہیں آپ بڑے زوق و شوق سے دیکھتے ہیں۔ آپ کا زیادہ تر وقت گھر میں ہی گزرتا ہے اور ریٹائرڈ زندگی گزار رہے ہیں۔ اللہ تعالی آپ کو صحت اور لمبی زندگی عطا فرمائے۔

راجہ محمد کبیر خان

سیلانی طبیت کے مالک راجہ کبیر خان ایک صلح جو انسان تھے۔ دنیا دیکھنے اور گھومنے پھرنے کا بچپن سے سوق تھا جو انھوں نےح پورا کیا۔ سیاست میں بھی حصی لیا۔ گائوں کے بڑے ہیں اس لیے برادری کے تنازعات کے فیصلے کرنے کا اختیار بھی رکھتے ہیں۔ لوگوں کو پاہم شیر و شکر رکھنے کے کوشاں رہتے ہیں۔ یہی اک کی وجہ شہرت اور باعث نیک نامی ہے۔  

راجہ محمد کبیر خان 1958ء میں سرساوہ میں راجہ پنوں خان کے گھر پیدا ہوئے۔ انھوں نے اپنا بچپن سرساوہ میں ہی گزارا اور بتدائی تعلیم گورنمنٹ پرائمری سکول سرساوہ میں حاصل کی۔ یہ ادارہ اس وقت علاقہ میں واحد پرائیمری سکول تھا جو ہندئوو کے دور سے چلا آ رہا تھا۔ پرائمری  پاس کرنحے کے بعد  راجہ محمد کبیر خان مڈل سکول پنجیڑہ باغ بخشیاں میں داخل ہوئے۔ وہاں سے مڈل امتیازی حیثیت سے پاس کی۔ میٹرک میں زیرتعلیم تھے کہ تعلیم سے اکتا گئے اور تعلیم کو خیر باد کہ دیا۔ کچھ لوگوں کے نصیب میں ساری زندگی آرام لکھا ہوتا ہے۔ شاید راجہ محمد کبیر کا شمار بھی انھی لوگوں میں ہوتا ہے جن کا مقصد زندگی میں ا قول کے مطابق ہوتا ہے کہ؛
"کمائے گی دنیا کھائیں گے ہم"

اسی قول پر عمل کرتے ہوئے آپ کو کراچی دیکھنے کا شوق ہوا۔ چنانچہ آپ 1979ء میں چند ساتھیوں کے ہمراہ کراچی چلے گئے۔ وہاں کچھ عقرصہ قیام کیا، خوب گھمے پھرے اور زندگی کی رعنائیوں سے لطف اندقز ہوئے۔ تعلیم ادھوری چھوڑ کر وہ اور کچھ تو نہ کر سکے البتہ سماجی اور سیاسی کاموں میں مشغول ہو گئے. یہی وہ تڑپ تھی جو انھیں کراچی سے سرساوہ لے آئی اور یہاں انھوں نے ہر مکتبہ فکر کے لوگوں سے میل جول بڑھایا اور بہت ہی کم وقت میں سیاست میں ایک مقام حاصل کر لیا۔ اسی دوران میں انھین انگلیڈ دیکھنے کا شوق ہوا۔ آپ 1986ء میں انگلینڈ تشریف لے گئے اور وہاں چھ ماہ کے دوران خوب سیر و تفریح کی۔

انگلینڈ سے واپسی پر آپ سیاست میں ایک بار پھر سرگرم ہو گئے اور باقاعدہ مسلم کانفرنس کے پلیٹ فارم سے سیاست میں حصہ لیا۔ 93-1992ء آپ نے ڈسٹرکٹ کوسلر کے الیکشن میں حصہ لیا۔ آپ الیکشن میں ایک آزاد امیدوار کے طور پر سامنے آئے۔ جب کہ آپ کے مد مقابل علاقہ سرساوہ کی جانی مانی  اور قد آور شخصیت راجہ محمد اسماعیل خان تھے۔ یہ الیکشن راجہ محمد کبیر خان جیت تو نہ سکے البتہ انھوں نے اپنے شوق سیاست کو پورا ضرور کیا۔ راجہ محمد کبیر خان کی شادی 1978ء میں ہوئی جو ان کے گھر والوں کی مرضی و منشا سے انجام پائی۔ آپ کے تین بیٹے تھے۔

راجہ محمد کبیر خان کے والد گرامی راجہ پنوں خان علاقہ سرساوہ کے ان پہلے لوگوں میں شمار ہوتے ہیں جو انگلینڈ تارک وطن ہوئے۔ آپ 63-1962ء میں انگلینڈ گئے۔ جب ویزے کا کوئی نظام متعارف نہ تھا۔ راجہ محمد کبیر خن اکے بڑے بھائی راجہ محمد بشیر خان بھی انگلینڈ میں مقیم ہیں۔ وہ بھی پہلے پہل انگلنڈ جانے والوں میں شمار ہوتے ہیں۔ راجہ محمد بشیر خان ووچر سسٹم کے تحت انگلینڈ گئے اور ابھی تک وہیں مقیم ہیں۔

راجہ محمد کبیر خان نے اپنے بچپن اور لڑکپن انتہائی شرافت سے گزارا۔ انھین فائیٹر کتے پالنے کا بہت شوق تھا جو انھوں نے بطریق احسن پورا کیا۔ انھوں نے کبھی کسی سے لڑائی نہ کی اور آج بھی بہت سی لڑائیوں کے فیصلے کروانے میں آپ کا کلیدی کردار ہے جس کی وجہ سے کئی خاندانوں کے درمیاں صلح صفائی ہوئی اور وہ خوش و خرم زندگی بسر کر رہے ہیں۔
راجہ محمد کبیر خان اپنی شندگی خوب انجوائے کر رہے ہیں۔ آپ کا خاندانی تعلق راجہ سر بلند خان کے منجھلے پوتے سوار خان عرف بوڑھے خانیاں سے ہے۔

راجہ سرور خان

چاک و چوبند راجہ سرور خان علاقہ سرساوہ کی ایک متحرک شخصیت تھے۔ انہیں علاقہ میں مقبول کھیل "بینی" یا "بازوگیری" کا بڑا شوق تھا۔ گردونواح کے علاقوں میں بازو گیری کے مقابلوں میں حصہ لیتے رہے اور پانے علاقے کا نام روشن کرتے رہے۔ انھوں نے پاک فوج اور پاکستان ریلوے میں ملازمت کی۔ بعد ازاں مشرق وسطی چلے گئے اور خطہ عرب میں بائیس سال تک محکمہ دفاع سے منسلک رہے۔ جدو جہد سے بھرپور زندگی گزارنے کے بعد 2006ء میں دار فانی کوچ کیا۔ اللہ انھیں غریق رحمت کرے۔   

راجہ سرور خان، راجہ شیر محمد خان کے بیٹے تھے، وہ 23-1922 میں سرساوہ میں پیدا ہوئے، ان کی پیدائش پر گھر میں جشن برپا ہوا۔ راجہ سرور خان چونکہ اکلوتے بیٹے تھے اس لیے گھر میں لاڈ پیار کا ماحول ملا۔ ان کا شجرہ نسب دسویں پشت میں "راجہ سربلند خان" سے جا ملتا ہے۔ ان کا نسب "رزاق خان" کے بڑے بیٹے پولا جی [عزت کاںیاں] کے چھوٹے بیٹے "بارو خان" سے ملتا ہے۔

اس خاندانی پس منظر اور آسودہ حالی کی وجہ سے راجہ سرور خان معاشرے میں موثر اور قابل عزت فرد کی حیثیت سے نمایاں ہوئے۔ عملی زندگی کے اعتبار سے راجہ سرور خان پہلے پاک فوج میں بھرتی ہوئے۔ دس سال اس عسکری شعبے میں خدمات سرانجام سینے کے بعد ریلوے کے محکمے میں ملازمت اختیار کر لی، یہاں بھی تقریباً دس سال کے بعد ملازمت سے ریٹائیر ہوگئے۔

راجہ سرور خان نے روزگار کے لیے مختلف شعبوں میں کام کرنے کے  ساتھ ساتھ آزاد کشمیرکے مقبول اور روایتی کھیل بازوگیری [بینی بازی] کو بھی اپنے شوق کے طور پر اپنائے رکھا۔ اس میدان میں انھوں نے مہارت اور برتری کا ثبوت دیا۔ ان کی زندگی میں بازو گیری کے کئی یادگار معرکے ہوئے۔ ملازمت کے بعد بھی راجہ سرور خان نے نہ صرف یہ کھیل اپنے شوق کے طور پر اہنائے رکھا بلکہ اس کے فروغ کے لیے سر پرستانہ کردار ادا کیا۔ ان کے اس شوق اور دل چسپی سے آزاد کشمیر اور بیرون ملک بھی بازو بینی کے اکھاڑوں میں کا گہما گہمی اور رونقیں رہتی تھیں۔

راجہ سرور خان نے اپنی پہلوانی کی زندگی میں کئی نامور پہلوانوں [بینی بازوں] کو شکست دی۔ ان پہلوانوں میں 'پہلوان آف انڈیا" بھی شامل ہے۔ یہ پہلوان آزادی کے بعد پاک فوج سے لیفٹیننٹ یا کیپٹن کے عہدے سے ریٹائیرڈ ہوا تھا اس کی شہرت پورے ہندستان میں تھی۔ اس سے مقابلے کے لیے بڑے بڑے بازو گیر پہلوان رضا مند نہ ہوتے تھے۔

اسی طرح راجہ سرور خان کا ایک اور یادگار معرکہ بازو گیری کھوئی رٹہ کے نامور پہلوان "لطیف" سے ہوا لطیف اس دور میں رستم میرپور[کوٹلی اس وقت میر پور کی تحصیل تھی] کہلاتا تھا۔ یہ مقابلہ کھوئی رٹہ کی مشور روایتیسرگرمی بیساکھی پر ہوا تھا۔ مقابلہ بہت زور دار اور دلچسپ تھا۔ بظاہر مقابلہ میں فریقین برابر تھے لیکن بعض تکنیکی امور میں پہلوان لطیف کو برتری حاصل ہو گئی اس لیے مقابلے کے مصنفین نے لطیف کو کامیاب قرار دیا۔

راجہ سرور خان کا ایک مقابلہ بینی بازی[اسلام آباد] کے پہلوان "راجہ شریف" سے بھی ہوا۔ یہ غالباً 1972ء سے پہلے کا واقعہ ہے۔ اس معرکہ بازو گیری میں راحہ سرور خان نے راجہ شریف  بازو گیر کو ہرا دیا۔ راجہ شریف اس شکست کے اس روایتی کھیل سے خاموشی کے ساتھ ریٹائیرمنٹ لے لی، ان وہ برطانیہ میں مقیم ہیں۔

راجہ سرور خان کو اس کھیل کا جنون کی حد تک شوق تھا، ملازمت کے بعد جب وہ دبئی گئے تو وہاں بھی انھوں نے یہ سرگرمی ترک نہ کی۔ دبئی جانے کا وقعہ بھی دلچسپ ہے، راجہ سرور خان وہاں لانچ کے ذریعے گئے۔ آبی سفر کے دوران لانچ کئی چٹانوں سے ٹکرائی اور ہچکولے کھاتی رہی، یہ بہت کٹھن سفر تھا۔ وہ اس کے بعد عرب ملک میں 22 سال تک محکمہ دفاع میں خدمات سرانجام دیتے رہے۔ اس کے بعد وہ اپنے آبائی گائوں سرساوہ [نگئی] واپس آ گئے۔ راجہ سرور خان ایک بھرپور، متحرک اور باعزت زندگی گزارنے کے بعد نومبر 2006ء کو اس دارفانی سے کوچ کر گئے۔ اللہ انھیں کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے۔ آمین۔    

راجہ زید اللہ خان

  راجہ زید اللہ خان ، راجہ زراعت اللہ خان کے ہاں 13 جنوری 1952ء میں پیدا ہوئے۔ آپکی جائے پیدائش سرساوہ کے ایک دور افتادہ گائوں گنگاڑہ ہے۔ آپ کے والد راجہ زراعتاللہ خان محمکہ جنگلات میں ملازمت کرتے تھے۔ جب کہ آپ کے دادا ذیلدار راجہ سیف علی خان 1947ء سے پہلے علاقہ سرساوہ کے ذیلدار تھے۔ آپ کا شمار نامی گرامی ذیلداروں میں ہوتا تھا۔ آپ کو براہ راست مہاراجہ کشمیر تک رسائی حاصل تھی۔ [مکمل تفصیل مضمون ذیلدار راجہ سیف علی خان میں ملاحظہ کریں]
راجہ ذید اللہ خان کا بچپن اپنے والد کے ساتھ گزرا۔ وہ جہاں بھی تعینات ہوتے رہے اپمی فیملی کو بھی ساتھ رکھتے تھے۔ اس وجہ سے آپ کی انتدائی تعلیم مختلف جگہوں پر رہی۔ 

آپ نے پہلی اور دوسری جماعت چناری میں۔ تیسری اور چوتھی جماعت بھمبر، پانچویں اور چھٹی جماعت ڈڈیال [بل گام]، ساتویں جماعت ہوئی سکول کوٹلیسے، جب کہ آٹھویں اور نویں جماعت ہائی سکول سہنسہ سے پاس کی۔ آپ نے میٹرک 1967ء میں ہائی سکول کوٹلی سے اعلی نمبروں میں پاس کی۔ آپ کلاس میں تیسرے نمبر پر تھے جب کہ سائنس میں آپ کی پہلی پوزیشن تھی۔ 1969ء میں آپ نحے ایف اسی سی گورنمنٹ ڈگری کالج میر پور سے پاس کی۔ آپ تعلیم میں ایک لائق، ذہین اور محنتی طالب علم جانے جاتے تھے۔

راجہ زیداللہ خان بی ایس سی میں گورنمنٹ گوڈن کالج راولپنڈی میں داخل ہوئے لیکن بوجوہ آپ امتحان نہ دے سکے۔ 1973ء مِن آپ نے محکمہ جنگلات میں ملازمت اختیار کی۔ 1973ء سے 1975ء تک آپ ٹریننگ کرتے رہے اس دوران میں آپ نے فارسٹری کا امتحان بھی پاس کر لیا۔ آپ نے بی ایس سی کا امتحان فارسٹری میں اعزازی نمبرات میں پاس کیا اور محکمہ جنگلات میں رینج آفیسر مقرر ہوئے۔

اپ دوران ملازمت پورے آزاد کشمیر میں تعینات رہے۔ محکمہ جنگلات میں آپ کا نام ایک دیانت دار آفیسر کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ آپ نے کبھی سفارش یا رشوت لے کر کوئی ناجائز کام نہ کیا بلکہ جس کا جتنا حق بنتا تھا، اس کو اتنا ہی دیا۔ آپ فیصلہ کرنے میں لیت و لعل سے کام نہ لیتے اور جو بھی فیصلہ کرتے اس پر ثابت قدم رہتے تھے۔

آپ نے بطور رینج آفیسر، کوٹلی، گڑھی دوپٹہ مین خدمات سرانجام دیں۔ آپ کچھ عرصہ اے سی ایف کے طور پر بھی فرائض سرانجام دیتے رہے اور اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ راولا کوٹ اور پلندری میں بھی تعینات رہے۔ سال 2000ء میں آپ ورکنگ پلان میں راولا کوٹ رہےاور 2001ء میں واپس کوٹلی ڈی ایف او آ گئے۔ آپ 2003ء سے 2005ء تک ڈی ایف او میر پور رہے اور پھر اپریل 2005ء سے 2009ء تک کوٹلی میں خدمات سرانجام دیتے رہے۔ راجہ زید اللہ خان فروری 2010 میں کنزرویٹر آف فورسٹ ترقیاب ہوئے۔ اگست 2010ء میں آپ کے دل کا آپریشن [بائی پاس] ہوا۔

آپ 12 جنوری 2012ء تک میر پور میں بحیثیت کنزرویٹر آف فارسٹ خدمات سرانجام سینے کے دوران میں ریٹائیرڈ ہوئے۔ آج کل آپ ریٹائیرڈ زندگی گزار رہے ہیں۔ آپ نے دوران سروس ایک بھرپور زندگی گزاری۔ آپ نے کبھی اصولوں پر سمجھوتہ نہ کیا۔ اللہ سے دعا ہے کہ نوجوان نسل آپ کے نقش پر چلتے ہوئے قوم کی خدمت کرے۔ آمین۔     

راجہ محمد رفیق

 راجہ محمد رفیق علاقہ سرساوہ کے پہلے شخص تھے جنھوں نے سائنس میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی۔ اپنے علاقہ میں طویل عرصہ سے شعبہ تعلیم میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ اپنی قابلیت، پیشہ سے لگن اور شرافت کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔ فی الوقت کوٹلی میں بطور ماہر مضمون کام کر رہے ہیں۔

راجہ محمد رفیق 2 جنوری 1966ء میں راجہ محمد نزیرخان کا شجرہ نسب گیارہویں پشت میں راجہ سر بلند خان سے جا ملتا ہے جب کہ آٹھویں پشت مِن آپ کا نسب پولا جی عرف عزت خانیاں سے جا ملتا ہے۔ راجہ محمد رفیق کا بچپن سرساوہ میں گزرا۔ آپ نے ابتدائی تعلیم گورنمنٹ پرائمری سکول سرساوہ سے حاصل  کی۔ چھٹی جماعت میں آپ نے گورنمنٹ ہوئی سکول پنجیڑز کا رخ کیا جہاں آپ نے خوب دل لگا کر محنت کی اور پندرہ سال کی عمر میں 1981ء میں میٹرک سائنس مضامین کے ساتھ پاس کی۔ آپ نے سکول میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ ایف ایس سی کے لیے آپ نے گورنمنٹ ڈگری کالج کوٹلی کا رخ کیا یہاں بھی آپ نے محنت ہی کو اپنا شعار بنایا اور 1983ء میں ایف ایس سی میں کالج میں اول پوزیشن لی۔ نامساعد حالات کی وجہ سے آپ کو تعلیم ادھوری چھوڑنا پڑی اور آپ نے ہائی سکول ملہاڑ میں بحثیت استاد ملازمت اختیار کر لی۔ یہ بات آپ کے بڑے بھائی راجہ محمد ریاض کو گوارہ نہ ہوئی اور انھوں نے آپ کو ملازمت چھوڑ کر دوبارہ بڑھائی کے لیے اصغرمال کالج راولپنڈی داخل کروا دیا۔ آپ نے 11986ء میں بی ایس سی فرسٹ ڈویژن میں پاس کی۔ پڑھائی کی لگن والدین کی ان تھک محنت اور بھائی کے دست شفقت سے آپ نے پنجاب یونیورسٹی سے ایم اسی سی کی ڈگری 1989ء میں فرسٹ ڈویژن میں پاس کی۔ یوں آپ راجہ سر بلند خان کی نسل میں وہ پہلے شخص بن گئے جنھوں نے علاقہ سرساوہ سے پہلی بار ایم ایس سی کیا۔

تعلیم سے فراغت کے بعد پیشہ پیغمبری صلی علیہ وسلم کو اپنا نصب العین بنایا اور 2 ستمبر 1989ء میں بحیثیت سائنس مدرس گورنمنٹ ہائی سکول بڑیگوڑہ حاضری دی۔ کچھ عرصہ بعد آپ کا تبادلہ انٹر کالج پنجیڑہ بحیثیت سنئیر سائنس مدرس کو دیا گیا۔ آپ نے یہاں 12 سال درس و تدریس کی۔ اس دوران بڑے گرام طالب علم آپ سے فیض یاب ہوئے۔ ان میں راجہ عبدالرئوف ایڈووکیٹ، انجینئر راجہ عبدلالرحمن، ڈاکٹر راجہ طارق کمال۔ انجینئر راجہ نزاکت علی، انجینئر راجہ بشارت علی، انجینئر ریاست علی بھٹی، بیرسٹر ملک اسرار احمد، چودھری محمد عارف ایڈووکیٹ، ڈاکٹر سید شفقت حسین کے علاوہ راقم بھی شامل ہے۔

سنہ 2001ء میں آپ کو بحیثیت اسٹنٹ ایجوکیشن آفیسر تعینات کیا
گیا جہاں آپ نے پانچ سال تک خدمات سرانجام دیں۔ بعد میں آپ کو بحیثیت ماہر مضمون ریاضی پرموٹ کیا گیا۔ آپ کو شعبہ تدریس سے جنون کی حد تک محبت ہے۔ آپ نے دوران پڑھائی غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیا۔ آج کل آپ بوائز ایلیمنٹری کالج کوٹلی میں فرائض انجام دے رہے ہیں اور علاقہ سرساوہ میں فلاحی کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ 

راجہ محمد قاسم

آزاد منش راجہ محمد قاسم ایک پکے اور سچے مسلمان تھے، اسلام کی خاطر جان دینے پر تیار رہتے۔ آپ نے دو مرتبہ سامراج کے خلاف بغاوت کی۔ دوسری جنگ آزادی میں حصہ لیا اور بہادری کے جوہر دکھائے۔ اپنے علاقے میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جانے والا یہ سچا اور کھرا شخص لوگوں کو مدتوں یاد رہے گا۔

راجہ محمد قاسم 1919ء میں راجہ غلام محمد خان کے گھر پیدا ہوئے۔ آپ کا شجرہ نسب نویں پشت میں راجہ سر بلند خان سے ملتا ہے۔ بلیا خان، راجہ سوار خان عرف بوڑھے خانیاں کے پوتے تھے۔ راجہ سوار خان عرف بوڑھے خان، راجہ رزاق خان کے منھلے بیٹے اور راجہ سر بلند خان کے پوتے تھے۔
راجہ محمد قاسم خان کا بچپن خوشحالی میں گزرا۔ ان کے والد راجہ غلام حمد خان نے اٹھارہ سال تک توپ خانے میں نوکری کی۔ وہ نیزہ بازی میں ماہر تھے۔ وہ بحیثیت حوالدار توُ خانہ سے ریٹائر ہوئے اور ایک روپیہ ماہانہ پنشن لیتے تھے۔ اس دور مین ایک روپیہ ماہوار بہت کم لوگوں کو ملتا تھا اس لیے گھر میں خوشحالی تھی۔ملازمت سے ریٹائر ہونے کے بعد راجہ غلام محمد خان نے زمینداری شروع کر دی اور کھیتی باڑی سے پورے سال کا خرچ نکل آتا تھا۔ پٹواری اور دیگر ملازمین کو اکثر اپنے گھر میں ٹھراتے تھے۔   

راجہ محمد قاسم نے ابتدائی تعلیم سرساوہ پرائمری سکول میں حاصل کی اس وقت ہندو مہاراجہ ہری سنگھ ریاست کا حکمران تھا اور علاقہ سرساوہ، پنجیڑہ، انواہی سرہوٹہ،  ٹاہلیاں تک واحد پرائمری سکول سرساوہ سدروٹ میں تھا اب جو مڈل سکول سرساوہ ہے۔ پانچویں جامعت پاس کرنے کے بعد راجہ محمد قاسم کو ان کے والد نے چھٹی جماعت میں کوٹلی میں داخلہ دلوایا۔ اس دوران میں ان کا سارہ خرچ اس کے والد گھر سے بھیجتے رہے لیکن راجہ محمد قاسم چھٹی جماعت پاس کئے بغیر سکول چھوڑ آئے۔ سکول چھوڑنے کے بعد والد نے ان کی شادی کرا دی۔ آپ کی شادی 27 بیساکھ 1993 بکرمی[1937] میں ہوئی۔ آپ کے چار بیٹے ہیں۔

راجہ محمد قاسم خان نے اپنی زندگی ٘ین دو مرتبہ جنگ آزادی دیکھی۔ پہلی مرتنہ جب 32-1931ء میں علاقہ کے مسلمانوں نے راجہ کریم داد خان عرف راجہ کیماں خان کی سرکردگی میں ہندو مہاراجہ کے خلاف بغاوت کی اور تحریک عدم ادائیگی مالیہ میں حصہ لیا [مکمل احوال راجہ کریم داد خان عرف راجی کیماں خان میں ملاحظہ فرمائیں].

دوسری مرتبہ جنگ آزادی 1947ء میں راجہ محمد قاسم خان نے بنفس نفیس حصہ لیا [ان کا کردار راجہ سخی دلیرخان کے مضمون میں ملاحظہ کریں] راجہ محمد قاسم خان نے کوئی باضابطہ نوکری نہیں کی البتہ تحریک آزادی سے کچھ عرسہ پہلے ٹھیکدار سرساوہ کوٹلی روڈ پر تعینات رہے۔ آزادی کے بعد سرساوہ میں آپ کی پنساری کی دوکان تھی اور وفات تک یہی دوکان ان کی روزی کا زریعہ رہی۔ 

سنہ 1947ء میں جب پاکستان آرمی نے تمام مجاہدین کو گرفتار کیا تو آپ بھی 1948ء میں پاکستان آرمی کے ہاتھوں قید ہوئے تھے۔ راجہ محمد قاسم خان 11 اپریل 2003 کو صبح پونے آٹھ بجے بروز جمعتہ المبارک اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ اللہ انھیں جنت الفردوس نصیب فرمائے۔ آمین۔

راجہ محمد طالب خان

راجہ محمد طالب خان، راجہ بوستان خان کے گھر سرساوہ مِن پیدا ہوئے۔ راجہ بوستان خان کا تعلق بھی عزت خانیاں گھرنے سے ہے۔ ان کا نسب دسویں پشت میں پولا خان عرف عزت خانیاں گھرانے سے جا ملتا ہے۔ یہ خاندان عزت خانیاں کے دوسرے بیٹے غریب خان کی اولاد سے ہے۔ راجہ محمد طالب خان نے نویں جماعت تک تعلیم حاصل کی ۔ بچپن انتہائی غربت میں گزرا۔ والد گرامی اکثر محنت مزدوری کی غرض سے سندھ کی طرف جاتے رہتے تھے۔ یہ غربت ہی تھی جس کی وجہ سے راجہ محمد طالب خان اپنی تعلیم جاری نہ رکھ سکے۔ والد کی سخت محنت اور اپنوں کی کج ادائی انھیں زندگی کے ایک نئے موڑ پر لے آئی۔ راجہ محمد طالب خان نے خود محنت مزدوری کا فیصلہ کیا۔ ابھی ان کے کھیلنے کودنے کے دن تھے لیکن ان کے ذہن میں کچھ اور ہی تھا۔ 

وقت پا پہیا گھومتا رہا، ماہ و سال گزرتے چلے گئےکہ ایک دن ان کے والد صاحب کے دوست سردار ولایت خان ان کے گھر آئے۔ راجہ بوستان خان نے اپنے دوست سردار ولایت خان سے کہا کہ وہ ان کے بیٹے کو انگلیڈ لے جائے۔ چنانچہ سردار ولایت خان ووچر سسٹم کے تحت راجہ محمد طالب خان کو انگلینڈ لے گئے۔

راجہ محمد طالب خان نے وہاں خوب محنت کی اور دن رات محنت کر کے نہ صرف اپنے مالی حالات درست کیے بلکہ عزیز و اقارب کی مالی معاونت بھی کی ۔ راجہ محمد طالب خان نے وہاں مختلف فیکٹریوں میں کام کیا۔ پینشن کے بعد آپ نے وہاں حلال گوشت کا کاروبار کیا۔ اس کے ساتھ آپ نے گروسری کی تمام ورائٹی بھی مہیا کی۔ جلد ہی آپ بڑے بزنس مین بن گئے۔ آپ کے بیٹوں نے بھی آپ کے کاروبار میں ہاتھ بٹایا۔ علاقہ سرساوہ میں مختلف سماجی کاموں میں آپ بڑھ چڑھ کے حصہ لیتے ہیں۔ آپ نے کئی مساجد تعمیر کروائیں اور کنویں کھدوائے۔

راجہ محمد طالب خان نے سیاست میں بھی قسمت آزمائی کی۔ انھوں نے 1987ء کے بلدیاتی الیکشن میں بحیثیت ڈسٹرکٹ کونسلر حصہ لیا لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔ جنانچہ وہ دل برداشتہ ہو گئے اور ہمیشہ کے لیے سیاست کو خیر باد کہ دیا۔
راجہ محمد طالب خان نہ صرف اپنے قبیلے کی بڑی معتبر شخصیت ہیں بلکہ ایک قد آور شخصیت بھی ہیں۔ آپ نہایت شریف ہمیشہ دوسروں کے کام آنے والے ہیں۔ اگر کوئی ان سے زیادتی بھی کرتا ہے تو یہ اسے درگزر کرتے ہیں اور کبھی بدلہ نہ لیا۔ انہی خوبیوں کی بناء پر راجہ محمد طالب خان کا نام ہمیشہ اچھے لفظوں میں لیا جاتا ہے۔ اس وقت راجہ محمد طالب خان اپنی فینلی کے ہمراہ انگلینڈ میں مقیم ہیں۔

راجہ محمد تہزیب خان 

راجہ محمد تہزیب خان 1953ء میں راجہ بوستان خان کے گھر سرساوہ میں پیدا ہوئے۔ آپ راجہ محمد طالب خان سے عمر میں چھوٹے تھے۔ ابتدائی تعلیم پرائمری سکول سرساوہ سے حاصل کی۔ مڈل  کے لیے آپ باغ بخشیاں پنجیڑہ سکول چلے گئے۔ اس وقت تک علاقہ میں یہ کہ واحد مڈل سکول تھا۔ 1968ء میں آپ نے یہاں سے مڈل جماعت پاس کی۔ آپ بچپن سے ہی نہایت شرارتی طبیعت کے تھے۔ بات بات پر جھگڑا کرنا اور دوسروں کے معلاملات میں الجھنا آپ کا شیوہ تھا۔
مڈل کا امتحان پاس کرنے کے بعد ایک سال تک آپ نے ریڈیو میکینک کا کام سیکھا۔ پھر 1970ء میں امیدوار پٹواری بھرتی ہوئے۔ اسی دوران میں بندوبست کا کام شروع ہو گیا۔ آپ نے بحیثیت امیدوار پٹواری اس میں حصہ لیا۔ آپ نے بگاء اور سرساوہ کی گرداوری لکھنے میں حصہ لیا۔ آپ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اس وقت کے مشہور پٹواری فیروز دین کے ساتھ آپ نے کام کیا۔ 1970ء میں ہی فیروز دین پٹواری کشتی کے حادثہ میں جاں بحق ہو گئے اور آپ نے پٹواری بننے کا خواب ترک کر دیا۔ 1975ء  تک آپ نے پنجیڑہ بازار میں منیاری کی دوکان کی۔ اس دوران میں پنجیڑہ میں آپ کا ڈنکا بجتا تھا۔

سنہ 1976ء میں آپ تارک الوطن ہو گئے اور سعودی عرف کی اے ایم ایس کمپنی میں بطور لیبر گئے۔ وہاں آپ نے ڈرائونگ سیکھی، ڈرائونگ لائسنس حاصل کیا اور بحیثیت ڈرائور کمپنی میں کام شروع کر دیا۔ آپ 1998ء تک اسی کمپنی میں رہے۔ اس دوران میں آپ نے کچھ عرصہ بحیثیت مترجم بھی کام کیا۔ سرکاری طور پر کچھ عرصہ کے لیے آپ کوایک سن مکہ مکرمہ میں اور ایک دن مدینہ میں گزارنا ہوتا تھا۔ دورانِ حج آپ ڈسپنسری میں بطور رضا کار کام کرتے رہے۔ آپ نے اپنی زندگی میں سولہ حج کئے۔ 24 سال سعودی عرب میں گزارنے کے بعد 1998ء میں واپس گھر چلے آئے۔ گھرآ کر آپ نے سماجی کاموں میں حصہ لینا شروع کر دیا۔ لیکن شاید قسمت کے کچھ اور ہی منظور تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے آپ ٹھیکیدار [بحیثیت گورنمنٹ کنٹریکٹر] مشہور ہو گئے۔ آپ کی زیرِ نگرانی گرلز ہائی سکول سرساوہ، گرلز ہائی سکول انوہی سروٹہ، حضوری مسجد رنجالی [اسلام آباد] سہنسہ اور دیگر کئی منصوبے پایہ تکمیل کو پہنچے۔       

اس کے دوران کچھ ناگزیر وجوہات کی تیاری پر آپ نے ٹھیکیداری کو خوش آمدید کہا۔ کچھ عرصہ منظر عام سے غائب آپ کے دل میں ایک سنڈ کیا خیال ہے آپ نے قبرستان کے گرد باڑ لگانی شروع کردیئے ہیں۔ جب وہ آپ کی زندگی میں ایک نیا باب شروع ہوا اور آپ ایک بار پھر سماجی کے دینی کاموں میں مشغول ہو گئے اور نگئی مسجد کی تعمیر کا کام کیا۔ نگئی مسجد کی تعمیر آپ کے تمام سرمایہ کاری اور زمین وقف کی۔ مسجد کی تعمیر اور تزئین و آرائش والے آپ کو دن رات ایک کر دی گئی۔ آپ کی ساری زندگی متحرک گزری۔ یہ دعا ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالی کا کام کریں گے۔ آپ کینسر کے مرض یں مبتلا ہوئے اور کچھ عرصہ بسترِ مرگ پر رہنے کے بعد آپ 2011ء میں اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ اللہ تعالی آپ کو جنت الفردوس مین جگہ عطا فرمائے۔ آمین۔
آپ کے اکلوتے بیٹے راجہ محمد نصیر انگلینڈ میں مقیم ہیں اور برطانیہ کی مسلم کمیونٹی میں خاص مقام رکھتے ہیں۔

راجہ محمد شریف خان

سرساوہ کی معزز راجپوت فیملی کی شاخ "بوڑھے خانیاں" سے تعلق رکھنے والے چاک و چوبند راجہ شریف خان نے ائیر فورس کی سروس سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا۔ 1947ء میں مملکتِ خدادا پاکستان وجود میں آئی تو آپ نے سروس کو خیر باد کہ دیا اور آزادی کے وقت پاکستان آنے والے مہاجرین کی آباد کاری کے کاموں میں مشغول ہو گئے۔ بعد ازاں دو مرتبہ سرکاری ملازمت کی مگر وہ بھی راس نہ آئی تو گھر آ گئے اور سماجی کاموں میں عملی حصہ لینا شروع کیا اور یہی آپ کی زندگی کا مشن رہا۔ اب پیرانہ سالی میں بھی ایک عزمِ جواں رکھتے تھے۔

 راجہ محمد شریف خان نے 15 جون 1928ء کو راجہ زمان خان کے گھر آنکھ کھولی۔ وہ بچپن ہی سے چاک و چوبند اور ہوشیار تھے۔ والد کی مالی حالت اچھی نہ تھی اس لیے بچپن انتہائی کسمپرسی میں گزرا۔ راجہ محمد شریف خان کا شجرہ نست آٹھویں پشت میں راجہ سر بلند خان سے جا ملتا ہے۔ یہ راجہ سربلند خان کے پوتے راجہ سوار خان عرف بوڑھے خانیاں کے سب سے چھوٹے بیٹے دادو خان کی اولاد سے ہیں۔ اس لیے انھیں داریال بھی کہتے ہیں۔ چونکہ سرساوہ بنیادی طور پر راجہ سر بلند خان کی سلطنت تھی۔ راجہ سربلند خان کے تین پوتوں کے نام سے سرساور میں ان کی اولادیں مشہور ہوئیں۔ کوئی عزت خانیاں کے نام سے، کوئی بوڑھے خانیاں کے نام سے اور کوئی منجھی خانیاں کے نام سے مشہور ہوئے۔

سرساوہ ان تین بنڈوں [حصوں] پر مشتمل تھا۔ داریال چونکہ بوڑھے خانیاں کی نسل سے ہیں اس لیے انھیں داریال کی بجائے بوڑھے خانیاں کے نام سے ہی موسوم کیا جانا چاہیے۔ داریالوں میں چونکہ اپنا نمبردار بھی ہوتا تھا جو کہ دادو خان کی اولاد سے تھا اس لیے بھی یہ لوگ اپنے آپ کو داریال کہلانا ہی پسند کرتے ہیں نہ کہ بوڑھے خانیاں۔    

راجہ محمد شریف خان کی عمر ابھی سات سال ہی تھی کہ والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ ابھی ان کے کھیلنے کودنے کے دن تھے کہ بہت ساری ذمہ داریاں کندھوں پر آن پڑی۔ والدہ بھی بہت پریشان ہو گئیں کہ اب گزر بسر کیسے ہو گی، ماہ و سال گزرتے گئے اور ان کا بچپن بھی جوانی کی طرف بڑھتا گیا۔ حالات قدرے بہتر ہوئے تو والدہ نے انی شادی کا فیصلہ کر لیا۔ 1945ء میں ابھی آپ کی عمر سترہ سال تھی کہ آپ کی شادی کر دی گئی۔ اس وقت کے رواج کے مطابق بازو گیری یا پتھر اٹھانے کا مقابلہ ہوا کرتا تھا۔ راجہ محمد شریف خان کی شادی میں "گجر خان" [راجہ عدالت خان کے والد] اور کمہار پنجیڑہ والے کے درمیان بازو گیری کا مقابلہ ہوا۔ اس مقابلہ میں گجر خان کو شکست ہوئی اور کمہار نے یہ مقابلہ جیت لیا۔

راجہ محمد شریف خان کی عمر ابھی سات سال ہی تھی کہ والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ ابھی ان کے کھیلنے کودنے کے دن تھے کہ بہت ساری ذمہ داریاں کندھوں پر آن پڑی۔ والدہ بھی بہت پریشان ہو گئیں کہ اب گزر بسر کیسے ہو گی، ماہ و سال گزرتے گئے اور ان کا بچپن بھی جوانی کی طرف بڑھتا گیا۔ حالات قدرے بہتر ہوئے تو والدہ نے انی شادی کا فیصلہ کر لیا۔ 1945ء میں ابھی آپ کی عمر سترہ سال تھی کہ آپ کی شادی کر دی گئی۔ اس وقت کے رواج کے مطابق بازو گیری یا پتھر اٹھانے کا مقابلہ ہوا کرتا تھا۔ راجہ محمد شریف خان کی شادی میں "گجر خان" [راجہ عدالت خان کے والد] اور کمہار پنجیڑہ والے کے درمیان بازو گیری کا مقابلہ ہوا۔ اس مقابلہ میں گجر خان کو شکست ہوئی اور کمہار نے یہ مقابلہ جیت لیا۔
شادی کے بعد آپ معاش کے لیے ائیر فورس میں بھرتی ہو گئے۔ یہی وہ وقت تھا جب دوسری جنگِ عظیم اپنی پوی آب و تاب پر تھی۔ ابھی تھوڑا وقت گزرا تھا کہ 1947ء میں پاکستان قائم ہو گیا۔ آپ نے پاکستان کے قائم ہوتے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور نہ صرف عملی طور پر متاثرین کی مدد کی بلکہ آپ کی کاوشوں سے بہت سے بچھڑے ہوئے خاندان آپس میں مل گئے۔
پاکستان۔  قائم ہونے کے بعد آپ دوبارہ چکلالا ائیر بیس چلے گئے اور پاکستان ائیر فورس میں بحیثیت ڈرائور بھرتی ہو گئے

یہی وہ وقت تھا جب راجہ زمان علی خان کا طوطی بولتا تھا کیونکہ انھین حکومتِ برطانیہ نے او بی آئی ایوارڈ سے نوازا تھا۔ راجہ زمان علی خان نے راجہ محمد شریف خان کی والدہ کے کہنے پر انھیں فوج سے ڈسچارج کروا دیا جب کہ راجہ محمد شریف خان کی شدید خواہش تھی کہ وہ فوج میں اپنی ملازمت جاری رکھیں۔ انھوں نے اپنے سینئیر افسران کی بہت منتیں کیں کہ میں بہت غریب آدمی ہوں اور میں نوکری کرنا چاہتا ہوں کہاں لیفٹیننٹ راجہ زمان علی خان کی سفارش اور کہاں ان کی منت سماجت۔ آخر کار فوج سے برخواست کئے گئے اور بغیر کوئی حق حقوق دیے انھیں گھر بھیج دیا گیا۔ چونکہ سروس بہت کم تھی اس لیے پینشن وغیرہ بھی نہ ہو سکی، اس کے بعد آپ ایک بار پھر نوکری کی تلاش میں لاہور اپنے چھوٹے بھائی کے پاس چلے گئے اور لاہور میں آپ محکمہ ہولیس میں بطور کانسٹیبل بھرتی ہو گئے۔

پنجاب پولیس میں پانچ سال بطور کانٹیبل فرائض انجام دینے کے بعد آپ کو ایک بار پھر گھر اور گائوں کی یاد ستانے لگی اور آپ نے نوکری چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔ آپ کو محکمہ پولیس مبلغ چھ ہزار روپے بطور حق دیے۔
تم سے آج تک اپنے ہی علاقے میں ہیں اور مختلف سماجی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لی رہے ہیں۔ یوں تو آپ کی زندگی سماجی کارناموں سے بھری پڑی ہے لیکن ان سب میں اہم کارنامہ ہی ہے کہ اہل علاقہ میں جو شخص بھی فوت ہو جاتا اس کی قبر کی کھدائی اور پتھروں کا بندوبست آپ اپنے ذمے لیا ہوا تھا۔    [چونکہ اس وقت پتھر سر پر اٹھا کر نالے سے لائے جاتے تھے جو کہ ایک مشکل کام تھا]۔ اس کے ساتھ ساتھ اگر علاقے میں کسی کا مکان تعمیر ہو رہا ہوتا تو اس کے گھر کی چھت کے لیے کڑی [پیم] کندھوں پر اٹھا کر لانا اور جنگل یا دور دراز سے جڑی اٹھانے میں ان کا گروپ بہت مشہور تھا۔ اس گروپ میں راجہ محمد شریف خان کے علاوہ راجہ محمد تاج [کمالتہڑہ]، راجہ محمد اشرف [بنی نگئی] راجہ محمد سرور خان [بنی گئی]، راجہ محبت خان [نکہ]، میاں محمد صادق [بنی گئی] اور محمد خلیل مغل [نکہ والے] شامل ہوتے تھے۔   علاقہ بھر سے لوگ انھیں دعوت دیتے اور یہ ان کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ آج بھی علاقہ سرساوہ میں جب کوئی کام کیا جاتا ہے تو آپ کو اس کے مشورے کے لیے خصوصی طور پر بلایا جاتا ہے۔ راجہ محمد شریف خان نے اپنی ساری زندگی انتہائی سادگی اور شرافت سے بسر کی۔ اللی تعالیہ نے ان کے سماجی خدمات کے صلہ میں انہیں اپنے گھر کی زیارت بھی کروائی، چنانچہ 2007ء میں راجہ محمد شریف اپنی اہلیہ کے ہمراہ حج کے لیے سعودی عرب تشریف لے گئے جہاں سے واپسی پر ان کا بھرپور استقبال کیا گیا۔

گو کہ راجہ صاحب کی اب وہ جوانی اور صحت باقی نہیں رہی لین ان کے جزبات اور حوصلے آج بھی جوں ہیں اور ہمارے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ راجہ محمد شریف خان کے چھوٹے بھائی کا نام راجہ محمد صدیق خان تھا نہوں نے اپنی زندگی کا ایک بڑ احصہ لاہور سیکرٹیریٹ میں بطور ملازم گزارا اور اپنی اس ملازمت کے دوران ہی حج کی سعادت حاصل کر لی تھی۔  راجہ محمد صدیق خان بڑے پرہیز گار شخص تھے۔ ریٹائیرمنٹ کے بعد انھوں نے بھی سماجی کاموں میں بھرپور حصہ لیا، جن میں گرلز مڈل سکول سرساوہ میں ہینڈ پمپ کی تنصیب اور جامع مسجد سرساو کی ازسرنو تعمیر شامل ہے۔ انھوں نے جامع مسجد سرساوہ میں اس وقت کے وزیرِ اعظم آزاد جموں و کشمیر سردار عبدالقیوم خان کو روک لیا کہ انھوں نے اس مسجد کے لیے بچاس ہزار روپوں کا اعلان کیا تھا وہ دے کر جائیں۔ چنانچہ جنابِ وزیر اعظم سردار عبدلقیوم نے مبلغ پچاس ہزار روپے کا چیک دے کر جان چھڑائی۔ انھوں نے علاقہ کی بڑھی لکھی بچیوں کی ملازمت کے لیے بھی بہر دوڑ دھوپ کی اور آج وہی بچیاں قوم کی معمار ہیں اور مختلف سکولوں میں اپنے فرائض منصبی انجام دے رہی ہیں۔ راجہ محمد صدیق خان کچھ عرصہ علیل رہنے کے بعد خالق حقیقی سے جا ملے۔ اللہ انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے۔ آمین

 

بلاگرراجہ ممتاز احمد

        نوٹ: بلاگر کا کتاب کے کسی بھی متن سے متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں ہے۔
  

  


  

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

MANGRAL RAJPOOT BOOK PART 9

منگرال راجپوت کتاب پارٹ 11

MANGRAL RAJPOOT BOOK PART 7