منگرال راجپوت پارٹ22

 راجہ محمد ایوب خان


دو مرتبہ ڈسٹرکٹ کونسلر منتخب ہونے والے راجہ محمد ایوب خان سیاست اور سماجی خدمت میں اہم مقام رکھتے ہیں۔ اپنے دور میں تعمیر و ترقی کے منصوبوں کو رہ بہ عمل لائے۔ دکھی انسانیت کی خدمت کو اپنا شعار سمجھتے ہیں۔ آج کل مسلم لیگ [نواز] کے ساتھ منسلک ہیں۔ آپ کا شمار جماعت کے بانی اراکین میں ہوتا ہے۔

راجہ محمد ایوب خان 3 مارچ 1947ء کو راجہ محمد سرور خان کے ہاں سرساوہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کی پیدائش پر والد کی خوشی کی انتہا نہ تھی کہ اس خوشی میں دعوتِ عام کر ڈالی۔ پورا علاقہ مبارک باد دینے چلا آیا۔ کسی کو کیا پتا تھا کہ یہی بچہ کل کو علاقہ سرساوہ کی تعمیر و ترقی میں تاریخ رقم کرے گا۔ 

راجہ محمد ایوب خان نے ابتدائی تعمیل سرسوا پرائمری اسکول سے حاصل کی۔ سرساوہ کے علاقے میں واحد تعلیمی ادارہ ایک پرائمری اسکول تھا۔ آپ مڈل اسکول کی تعلیم کے لئے کوٹلی گئے تھے۔ جہاں آپ نے امتیاز کے ساتھ کوٹلی ہائی اسکول سے میٹرک کی۔ میٹرک کے بعد اپ نے انٹر کالج کوٹلی میں داخلہ لیا۔ جہاں ایف اے پاس کرنے کے بعد بی اے میں داخل ہوگئے۔ آپ نے بی سے کی تعلیم مکمل تو نہ کی البتہ کالج کی سیاست میں ایک بڑا نام پیدا کیا۔ آپ نے اس وقت کی تنظیمی سیاست میں بھرپور حصہ لیا اور ایک بار کالج یونین کی صدارت کے لیے الیکشن لڑا لیکن شومئی قسمت سے آپ وہ الیکن ہار گئے۔ آپ کی الیکشن مہم میں بڑے بڑے نام آپ کے حمایتی تھے جن میں راجہ نصیر احمد خان [سابق وزیرِ بلدیات و دیہی ترقی] ، ڈاکٹر راجہ محمد شبیر خان، راجہ محمد خالد اسماعیل اور راجہ محمد حسین آف سید پور تھے۔ 

آپ تنظیمی لیکشن ہار گئے لیکن سیاست کے پیچ و تاب سے واقف ہو گئے اور یوں آپ نے اس ہار سے ہمت نہ ہاری بلکہ ایک نئے حوصلے اور ولولے سے اٹھے اور عملی سیاست  میں داخل  ہو گئے۔ آپ نے 1975ء میں پہلی بار امیدوارِ اسمبلی عملی سیاست میں حصہ لیا۔ لیکن آزاد امیدوار ہونے کے ناطے آپ یہ الیکشن ہار گئے۔ یوں اس ہار سے نیا حوصلہ لیا اور 1979ء میں بحیثیت ڈسٹرکٹ کونسلر لیکشن لڑے اور بھاری اکثریت سے جیت گئے۔ آپ چار سال تک بحیثیت ڈسٹرکٹ کونسلر عوام کی خدمت میں مگن رہے۔ عوام کی خدمت اور اپنی قسمت کے بل پر 1983ء میں ایک بار پھر بحیثیت ڈسٹرکٹ کونسلر منتخب ہوئے۔ آپ نے عوام کی خدمت کو اپنا شعار بنایا اور ان کے ہر دکھ درد میں شریک ہوئے۔

آخری بار آپ نے 1987ء میں ڈسٹرکٹ کونسلر کا الیکشن لڑا لیکن اپنوں کی کج ادائی اور غیروں کی سازشوں سے آپ یہ الیکشن ہار گئے۔  الیکشن ہارنے کی کئی وجوہات تھیں جن میں ایک وجہ جماعت کی تبدیلی بھی تھی۔ کیونکہ آپ پی پی پی کو چھوڑ کر 1986ء میں مسلم کانفرنس میں شامل ہو گئے تھے۔ آپ نے مسلم کانفرنس میں شامل ہوتے ہی ضلعی جنرل سیکرٹری کا لیکشن لڑا اور منتخب ہو گئے۔ 1990 ء میں چئیرمین ضلع کونسل کے انتخابات میں آپ نے آزاد امیدوار کی حمایت کی جس کی وجہ سے جماعت آپ کی شدید ٘کالفت کی جانے لگی۔ حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے آپ 1990ء میں انگلیڈ عازمِ سفر ہوئے۔ وہاں آپ نے آٹھ سال قیام کیا اور پورے انگلستان کی سیر و تفریح کے ساتھ کئی جگہوں پر کام بھی کیا۔ آپ نے قیامِ انگلستان میں جتنی بھی ملازمتیں کی ہیں ان میں سے کوئی بھی ایسی نہ تھی جس سے آپ کے مخالفین کو بات کرنے کا موقع ملتا۔ آپ نے وہاں بھی اپنے معیار اور کردار کو اہمیت دی اور کوئی بھی کام اپنے معیار سے گرا ہوا نہ کیا۔

راجہ محمد ایوب خان نے اپنے پہلے دورِ ڈسٹرکٹ کونسلری مِیں پانچ پرائمری سکول سرساوہ مِیں دیے۔ جب کہ دوسرے دور میں دو پرائمری سکول دیئے جو اس وقت کے دور میں بہت بڑا کارمانہ تھا کہ اتنے بڑے پروجیکٹ ایک ساتھ ایک ہی یونین کونسل میں آتے۔ اس کے علاوہ سرساوہ سے ملکان چھیتر کچی سڑک بھی آپ کے دور کی یاد دلاتی ہے۔ نگئی روڈ کوٹلہ، سرساوہ واٹر سپلائی سکیم آپ کے دور میں شروع کیے گئے منصوبے تھے جو ہمیشہ آپ کے سنہری دور کی یاد تازہ کرتے رہیں گے۔

سنہ 2010ء میں راجہ فاروق حیدر سابق وزیرِ اعظم آزاد حکومت ریاست جموں کشمیر نے مسلم لیگ [نواز شریف]  کی بنیاد آزاد کشمیر میں رکھی تو آپ ان چند لوگوں میں شامل تھے جنھوں نے راجہ فاروق حیدر کے ساتھ لبیک کہا اور اس میں شمولیت اختیار کی ۔ آپ مسلم لیگ [ن] ضلع کوٹلی کے بانی  صدر ہیں اور آج کل ضلع کوٹلی میں مسلم لیگ [ن] کو مستحکم کرنے میں کوشاں ہیں۔ اللہ تعالی آپ کا سایہ ہمیشہ ہمارے سروں پر قائم رکھے۔ آمین

راجہ محمد اسماعیل خان

لوگوں کے دلوں میں بسنے والے راجہ محمد اسماعیل خان علاقہ کی ہر دلعزیز شخصیت تھے۔ علاقہ کے چئیرمین اور ڈسٹرکٹ کونسلر بھی رہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ ابھیں عقیدت و احترام سے "لالہ ئیرمین" کہتے تھے۔ لوگوں کے کام کر کے، ان کی خدمت کر کے آپ کو سکون ملتا تھا۔ یہی ان کا بڑا تھا۔ ان کی صاف ستھری زندگی ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔

راجہ محمد اسماعیل 21-1920ء میں برما میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد راجہ زمان علی خان  برما میں برٹش انڈین آرمی میں ملازم تھے اور آپ کی والدہ بھی ان کے ساتھ برما میں مقیم تھی۔ بعد میں آپ کے والد سروس سے ریٹائیرڈ ہوئے اور گورنمنٹ آف برطانیہ نے ان کی خدمات کے اعتراف میں انھیں او بی آئی [آرڈر آف برٹش انڈین ایوارڈ] دیا اور "سردار بہادر" کے خطاب سے نوازا۔

راجہ محمد اسماعیل خان نے ابتدائی تعلیم پرائمری سکول سرساوہ سے حاصل کی۔ چھٹی جماعت میں کوٹلی میں داخل ہوئی۔ آپ نے چھٹی اور ساتویں جماعت پائیلٹ ہائی سکول سے پاس کی۔ لیکن بہن بھائیوں میں بڑا ہونے اور والد صاحب کی لاڈ پیار کی وجہ سے آپ مزید تعمیل حاصل کرنے سے انکاری ہوئے، آپ کے والد نے آپ کی اس خواہش کو بخوشی قبول کیا۔ راجہ محمد اسماعیل نے اپنے والد کے ساتھ لوگوں کے فلاحی کاموں میں حصلہ لینا شروع کر دیا اور ساتھ ساتھ اس دور کے مشاغل مثلاً نیزہ بازی، کبڈی اور گھڑ سواری وغیرہ میں بھپور حصہ لیا۔ آپ کبڈی کے مایہ ناز کھلاڑی سمجھے جاتے تھے۔

آپ 36-1937ء میں رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے۔ مہاراجہ کشمیر کی حکومت کے خلاف تحریک میں آپ نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ 1947ء میں جب ڈوگرہ فوج کے خلاف راجہ سخی دلیر خان نے علمِ جہاد بلند کیا تو آپ نے ان کی بھرپور معاونت کی۔ اس دوران آپ مسلسل اپنے والد صاحب کے ساتھ مل کر آزادی کی تحریک میں شامل رہے۔ جب کوٹلی فتح ہوئی تو آپ اپنے والد راجہ زمان علی خان کے ساتھ کرنل راجہ محمود خان آف تھرہچی کے زیرِ کمان دستے میں شامل تھے۔ کوٹلی فتح کرنے کے بعد آپ اپنے والد کے ہمراہ واپس گائوں تشریف لائے اور یہاں پر رفاعی و فلاہی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا شروع کر دیا۔ حکومت نے آپ کے 1989ء میں تحریکِ آزادی کشمیر میڈل سے نوازا۔

راجہ محمد اسماعیل خان نے اپنے والد کی روایات کو قائم رکھتے ہوئے اپنی سیاسی و سماجی بصیرت کو مدِ نظر رکھ کر عملی سیاست میں پہلی بار حصہ لیا۔ آپ نے 1961ء میں پہلا الیکشن بی ڈی کا لڑا اور کامیاب ہوئے۔ اس کے بعد آپ متفقہ فیصلہ سے علاقے کے چئیر میں منتخب ہوئے لوگ آپ کو پیار سے "لالہ چئیرمین " کہنے لگے۔ یہ لوگوں کا پیار و محبت کا اظہار تھا کہ لوگ آپ کو نام سے نہیں بکارتے تھے۔ پھر مرتے دم تک اسی نام سے جانے اور پکارے گئے۔ آپ نے جتنے بھی الیکشن لڑے، چاہے وہ جماعتی تھے یا غیر جماعتی اس مِن آپ کامیاب ہوئے اور چئیرمین منتخب ہوتے رہے۔ آُ نے آخریالیکشن بحیثیت ڈسٹرکٹ کونسلر لڑا اور اس میں بھی کامیابی حاصل کی۔ یوں آپ کی زندگی میں جتنے بھی معاملات پیش آئے اس میں انھیں کامیابی و کامرانی حاصل ہوئی۔ آپ انتہائی ملنسار، وضع دار اور نفاست پسند آدمی تھے۔

راجہ محمد اسماعیل کی کامیابیوں میں جہاں ان کی اپنی محنت اور کوشش شامل تھی وہاں ان کے چھوٹے بھائی راجہ محمد یوسف خنا کا ذکر نہ کیا جائے تو ناانصافی ہوگی۔ راجہ محمد یوسف خان گو کہ عمر میں چھوٹے تھے لیکن ان کاحلقہ بہت وسیع تھا۔ آپ 62-1961ء میں ووچر سسٹم کے تحت انگلینڈ گئے اور وہاں خوب سیر و تفریح کی۔ اپ نے پوری زندگی بڑی عیش ا آرام سے بسر کی۔ راجہ محمد اسماعیل خان کی زندگی میں سب سے بڑا غم چھوٹے بھائی راجہ محمد یوسف کی موت کا تھا۔ کیوں کہ آپ اپنے بڑے بھائی کو مالی سپورٹ کرتے تھے۔

راجہ محمد اسماعیل خان کی اولاد میں ان کے بیٹے خالد اسماعیل بڑے ہونہار، عالی ظرف اور بہترین سیاست دان تھے۔ لیکن قوم شاید آپ کی صلاحیتوں سے مستفید نہ ہونا چاہتی تھی۔ کی پیدائش 22 جنوری 1955ء کو ہوئی۔ ابتدائی تعلیم پرائمری سکول سرساوہ، مڈل پنجیڑہ سے اور میٹرک تک تعلیم پائلٹ ہائی سکول کوٹلی سے حاصل کی ۔ آپ نے ایف اے گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج کوٹلی سے پاس کی۔ دورانِ تعلیم آپ مختلف سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیتے رہے۔ آپ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ 1972ء میں جب کالج میں پہلی بار ڈگری کلاسز کا اجراء ہوا تو آپ کوٹلی کالج میں کریجویشن کے پہلے طالبِ علم تھے اور آپ کا رول نمبر 1 تھا۔

آپ گریجویشن تو نہ کر سکے البتہ آپ اپنے ذہین تھے کہ اس وقت کی گورنمنٹ میں صدرِ آزاد حکومت نے آپ کو اپنا پی اے اور چیف سیکیورٹی آفیسر مقرر کیا۔ بعد میں آپ نے عملی زندگی میں مختلف سروسز کیں اور دو بار لنڈن کی سیر و تفریح کی۔ آخری بار آپ تقریباً 16 سال تین ماہ بعد وطن واپس آئے۔ آپ کے بیٹے راجہ ثاقب خالد نے وکالت کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔
یوں راجہ محمد اسماعیل خان کی بھرپور زندگی میں ان کی فیملی کا بڑا عمل دخل ہے۔ راجہ محمد اسماعیل خان آج ہم میں نہیں لیکن ان کی سیاسی و سماجی اور رفاعی زندگی ہمیشہ ہمارے لیے مشعل راہ رہے گی۔ اللہ انھیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے ۔ آمین۔

 

بلاگرراجہ ممتاز احمد

        نوٹ: بلاگر کا کتاب کے کسی بھی متن سے متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں ہے۔
  

  



تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

MANGRAL RAJPOOT BOOK PART 9

منگرال راجپوت کتاب پارٹ 11

MANGRAL RAJPOOT BOOK PART 7