راجپوت منگرال پارٹ 20

 لیفٹیننٹ راجہ زمان علی خان

راجہ زمان علی خان سرساوہ کی جانی مانی شخصیت تھے۔ بچپن سے ہی سنجیدہ، متین اور دھن کے پکے تھے۔ پرٹش آرمی جوائن کی، برما کے محاز پر کارِ ہائے نمایاں سر انجام دیے اور سب سے بڑا ایوارڈ "او بی آئی" اور "سردار بہادر" کا خطاب حاصل کیا۔ ریٹائیرمنٹ کے بعد سماجی خدمات میں جت گئے، گورنمنٹ کی طرف سے منصف مقرر ہوئے۔ اپنی آخری سانسوں تک علاقہ کے لوگوں کی خدمت کرتے رہے۔ 

راجہ زمان علی خان علاقہ کی مشہور شخصیت راجہ منصب داد خان کے گھر پیدا ہوئے۔ وہ بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ راجہ زمان علی خان کا نسب آٹھویں پشت میں راجہ سر بلند خان عرف پہاڑ خان سے جا ملتا ہے۔ یہ راجہ سر بلند خان عرف پہاڑ خان کے منجھلے بیٹے سوار خان عرف بوڑھے خانیاں کے درمیانے بیٹے ہدایت خان کی اولاد میں سے ہیں۔  

راجہ زمان علی خان بچپن سے ہی سب بچوں سے جدا تھے۔ وہ بہت سنجیدہ اور کم گو، مگر دھن کے پکے تھے۔ گھریلو حالات زیادہ اچھے نہ تھے اس کے باوجود آپ کے والد صاحب نے آپ کو ضلع راولپنڈی کے ایک سکول میں داخل کروایا جو اس وقت کرپا چراہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ وہاں آپ نے کچھ عرصہ تعلیم حاصل کی لیکن غربت کی وجہ سے تعلیم ادھوری چھوڑ کر گائوں واپس آ گئے۔ یہاں انھوں نے زمینداری میں اپنے والد صاحب کا ہاتھ بٹانا شروع کر دیا۔  

آپ کی پیدائش 1878 میں ہوئی۔ جب آپ کی پیدائش ہوئی تو گھر میں بہت خوشی منائی گئی اور پورے گائوں کی ضیافت کی گئی۔ آپ کا بچپن زیادہ تر گھر میں ہی گزرا۔ 1901 میں آپ برٹش انڈین آرمی میں بھرتی ہوگئے جہاں آپ نے ابتدائی سات سال ایک ہی آرمی آفیسر کے ساتھ گزارے۔ اس زمانے میں ایک انگریز افسر کے ساتھ اتنا وقت گزارنا  بہت مشکل کام تھا کیونکہ بحیثیت مسلمان بہت سی تکالیف اٹھانا پڑتی تھیں۔  

سنہ 1931ء میں آپ برٹش انڈین آرمی سے بحیثیت آنریری لیفٹیننٹ ریٹائر ہوئے۔ آپ نے دورانِ سروس اعلی کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور برما کے محاز پر پہلی جنگِ عظیم میں بہادری کے جوہر دکھائے جس کے اعتراف میں آپ کو برٹش گورنمنٹ کی طرف سے او بی آئی[آرڈر آف برٹش انڈیا] کا ایوارڈ ملا اور آپ کو سردار بہادر کا خطاب دیا گیا۔ راجہ زمان علی خان پہلے کشمیری تھے جنہیں یہ اعزاز ملا۔ اس سے پہلے کسی کو اس اعزاز سے نہ نوازا گیا تھا۔  

ریٹائرمنٹ کے بعد آپ گائوں واپس آ کر لوگوں کی خدمت میں مصروف ہو گئے جب آپ کو پنشن ہوئی تو آپ کو حق میں مبلغ 4500 روپے ملے جب کہ آپ کی ماہانہ پنشن 150 روپے تھی جو اس زمانے میں بہت زیادہ خیال کی جاتی تھی۔  

آپ علاقہ سرساوہ میں بڑی معتبر شخصیت تھے۔ جہاں کوئی لڑائی جھگڑا ہوتا آپ کو فیصلے کے لیے بلایا جاتا۔ آپ فیصلہ صحیح اور میرٹ پر کرتے اور اس فیصلے پر عمل درآمد بھی ہوتا۔ یوں آپ کی شہرت پورے کوٹلی میں پھیل گئی۔ لوگ دور دراز سے آپ کے گھر تشریف لاتے  اور آپ ان کی مہمان نوازی میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھتے۔

آپ کی زندگی کا ایک دلچسپ واقع یہ ہے کہ آپ نے اس وقت کے زیلدار راجہ سیف علی خان کے خلاف ہائی کورٹ جموں میں مقدمہ درج کیا کہ چونکہ میں او بی آئی ایوارڈ یافتہ ہوں اور میرا لوگوں میں اثر و رسوخ بھی ہے لہزا زیلداری میرا حق ہے۔ آپ یہ مقدمہ تو نہ جیت سکے البتہ آپ کو عدالت کے حکم پر منصف کا عہدہ دیا گیا۔ یہ عہدہ اس وقت معزز لوگوں کو دیا جاتا تھا جو زیلدار کے پم پلہ تصور کیا جاتا تھا۔ آپ کے پاس یہ عہدہ پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے تک برقرار رہا۔ قیامِ پاکستان سے پہلے آپ کو 1945ء میں تحصیل کوٹلی میں سولجر بورڈ میں بحیثیت ویلفئیر آفیسر مقرر کیا گیا جہاں پر رہ کر آپ نے علاقے کے لوگوں کی خوب خدمت کی۔

سنہ 1947ء کی جنگِ آزادی میں آہ نے عملی طور پر حصہ ،یا۔ آپ کے بڑے بیٹے راجہ محمد اسماعیل خان بھی آپ کے ساتھ تھے۔ آپ دونوں باپ بیٹا  12 اے کے  بٹالین میں شامل ہوئے جس کی کمانڈ کرنل راجہ محمود خان آف تھروچی کر رہے تھے۔ جب کوٹلی فتح ہوا تو آپ دونوں واپس گائوں آ گئے اور لوگوں کی فلاح و بہبود میں لگ گئے۔ ایک مرتبہ کسی نے پوچھا کہ آپ دوبارہ آرمی کیوں نہیں جوائن کر لیتےتو کہنے لگے اب او بی آئی سے بڑا کوئی ایوارڈ نہیں رہا جو میں حاصل کر سکوں۔ 

ان کو پوری زندگی شرافت کا نمونہ ہے۔ آپ نے کسی کو کبھی تنگ نہ کیا، ساری عمر غریبوں، بیوائوں اور یتیموں کی خدمت کرتے رہے۔ آپ 10 جنوری 1968ء کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ انا للہ انا علیہ راجعون۔

 

بلاگرراجہ ممتاز احمد

        نوٹ: بلاگر کا کتاب کے کسی بھی متن سے متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں ہے۔
  

 


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

MANGRAL RAJPOOT BOOK PART 9

منگرال راجپوت کتاب پارٹ 11

MANGRAL RAJPOOT BOOK PART 7