راجپوت منگرال پارٹ 19

 راجہ سخی دلیر خان


 برِ صغیر کی تحریکِ آزادی کے نامور کارکن راجہ سخی دلیر خان کا تعلق وادی سرساوہ سے ہے۔ انھوں نے کشمیر کی تحریکِ آزادی میں مجاہدِ اول کا کردار ادا کیا۔ آزاد حکومتِ ریاست جموں کشمیر نے ان کی خدمات کے اعتراف میں "کشمیر میڈل" عطا کیا۔ لیفٹیننٹ جنرل غلام محمد ملک نے انھین تعریفی سند عطا کی۔ انھوِں نے راجوری کو فتح کر کے مقامی کمانڈروں کے حوالے کر دیا تھا۔ مگر بدقسمتی سے شہر پر قبضہ برقرار نہ رکھا جا سکا۔ کوٹلی سے ڈوگرا فوج کو مار بھگانے میں آپ نے اہم کردار ادا کیا۔  آپ تعلیم میں درمیانے طا لبعلم تھے لیکن  آپ محنت پر یقین رکھتے تھے۔

راجہ سخی دلیر خان، راجہ محمد خان کے گھر 13 دسمبر 1924 کو پیدا ہوئے۔ آپ کی پیدائش علاقہ سرساوہ کے ایک دور افتادہ گائوں "نین سکھ" میں ہوئی آپ نے ابتدائی تعلیم سہنسہ لوئر مڈل سکول سے حاصل کی۔ آپ تعلیم میں درمیانے طالبِ علم تھے لیکن آپ محنت پر یقین رکھتے تھے اور محنت ہی سے سب کچھ حاصل کرنا چاہتے تھے۔ راجہ سخی دلیر خان کے والد نے 1934ء میں وفات پائی۔ اس وقت راجہ سخی دلیر خان کی عمر تقریباً دس سال تھی۔ والد کی وفات کے بعد گھریلو حالات مزید خراب ہو گئے لہٰذا آپ نے تعلیم کو خیر باد کہ دیا۔ آپ 13 سال کی عمر میں برٹش انڈین آرمی کی نمبر 4 انڈین موبائیل شات میں بھرتی ہو گئے۔ آپ لگا تار سات سال تک فوج میں رہے اور اس دوران میں کوئی چھٹی لے کر گائوں نہ آئے۔
1940 میں راجہ سخی دلیر خان وارنٹ آفیسر بن کر "برما" چلے گئے جہاں برٹش آرمی دشمن سے نبرد آزما تھی۔ 1942ء میں آپ کی تعیناتی رنگوں کے پاس ایک شہر ٹیگو میں ہوئی۔ برٹش آرمی کا ایک دستہ وہاں بھی تعینات تھا۔ آپ راجہ شاہ نواز خان جنجوعہ، سبھاش چندر بوس، اور جنرل مہر جیسے نامی گرامی شخصیات سے ٹیگو شہر میں ملے۔ آپ کو کچھ عرصہ ان شخصیات کے ساتھ رہنے کا اتفاق بھی ہوا۔ آپ ان شخصیات سے بے حد متاثر تھے۔ 

جب سبھاش چندر بوس نے جاپان میں آئی-آئی-ایل [انڈین ینڈیپینڈنٹ لیگ] کی بنیاد رکھی تو آپ آسام میں انڈین نیشل آرمی کے پلیٹ فارم سے دشمن سے نبرد آزما تھے۔ 1944ء تک آپ آسام میں لڑتے رہے آخر کار انڈیا واپس آ گئے۔ 1945 میں آپ مسلم لیگ میں شامل ہوئے۔ اس وقت مسلم لیگ مسلمانانِ ہند کا واحد سہارا تھی۔ آپ نے میجر حسن کے ساتھمل کر دھکن [انڈیا] میں مسلم لیگ نیشل گارڈ کی تنظیمِ نو کی۔ آپ کو مسلم لیگ سے جزباتی لگائو تھا۔

راجہ سخی دلیر خان نے مولوی فضل حق شیرِ بنگال سے ڈھاکہ میں ملاقات کی۔ آپ یو-پی، سی-پی، آسام اور سندھ کے دوروں کے دوران ان کے ساتھ رہے، جہاں آپ نے مسلم لیگ کے جلسوں سے خطاب کیا۔ آپ مولانہ عنایت اللہ مشرقی سے ملنے کے لیے لاہور تشریف لائے تو خاکسار تحریک کے کارکنوں نے آپ کا پر جوش استقبال کیا۔ آپ 14 ستمبر1945 میں خاکسار تحریک میں شامل ہوئے اور آپ کو "سالار عساکرِِ ہند " کا خطاب دیا گیا۔ آپ نے علی احمد تالپوری سے ملاقات کی اور ان کی الیکشن مہم میں بھی حصہ لیا ۔ آپ نے مختلف جلسوں کے خطاب میں مسلمانوں کو علیحدہ وطن کی جدوجہد کی طرف راغب کیا ۔ آپ عموماً اپنے تجربات لوگوں سے بیان کرتے تھے کہ ہندوئوں اور انگریز افسروں کا مسلمانوں سے کیسا رویہ ہوتا تھا۔

آپ 6 جون 1946ء میں پہلی بار قائدِ اعظم محمد علی جناح سے ملے۔ یہ ملاقات لیاقت علی خان کی رہائش 8اورنگ زیب روڈ دہلی میں دن کے بارہ بجے ہوئی۔ اس ملاقات میں آپ کے علاوہ لیاقت علی خان بھی موجود تھے۔ قائدِ اعظم محمد علی جناح نے اس ملاقات میں کہا کہ "پاکستان میری جیب میں ہے۔ آپ پاکستان کی فکر چھوڑیں، فوری کشمیر چلے جائیں، اگر کوئی اور شخص بھیجوں گا تو اس کے لیے بہت دشوریاں ہوں گی۔ آپ چونکہ کشمیری النسل ہیں اس لیے آپ کا انتخاب کیا گیا۔ کچھ اور باتوں کو طے کرنے کے بعد آپ وہاں سے واپس آ گئے۔

راجہ سخی دلیر خان نے پلان کے مطابق 6 جون 1946ء میں شام کو دہلی میں ایک پریس کانفرنس کی، جس میں آپ نے کانگرس میں شمولیت کا اعلان کیا۔ اگلے روز آپ قائدِ اعظم محمد علی جناح کی ہدایت کے مطابق جموں کی طرف روانہ ہو گئے، اور 10 جون 1946ء کو جموں پہنچے۔ آپ کانگرس کے جنرل سیکرٹری کے-کے بنڈر جی سے ملے۔ انھوں نے آپ کو جموں میں خوش آمدید کہا اور نیشنل کانگرس کی طرف سے آپ کو جموں کے شہریوں سے 1301 روپے بطورِ تحفہ دیے۔ اس وقت شیخ محمد عبداللہ، چوہدری غلام عباس، اور اللہ رکھا ساغر جیسے لوگ جیلوں میں بند تھے، اور "انڈیا چھوڑ دو"  کی تحریک زوروں پر تھی۔ راجہ سخی دلیر خان نے بہت بڑے جلسے سے خطاب کیا اور "انڈیا چھوڑ دو"  تحریک کی پر زور حمایت کی۔ آپ کی ملاقات کامریڈ محمد شفیع اور ترلوک چند سے بھی ہوئی۔

سنہ 1946ء، 10 جون کی شام مہاراجہ ہری سنگھ نے اے ڈی سی بھیج کر ملاقات کی دعوت دی۔ آپ پہلے ہی اس تاک میں تھے کہ کسی طرح مہاراجہ سے ملاقات کر کے اندرونی حالات معلوم کیے جائیں۔ آپ نے رام نگر محل میں مہاراجہ ہری سنگھ سے ملاقات کی۔ آپ تین دن مہاراجہ کے مہمان رہے اور وہیں قیام کیا۔ مہاراجہ آپ سے سبھاش چندر بوس کے حالات زندگی اور آئی این اے میں آپ کی خدمات، آپ کے منہ سے سننا چاہتا تھا۔ آپ کچھ عرصہ سبھاش چندر بوس کے ساتھ رہے تھے اور اس کی زندگی کے گمنام گوشوں کے بارے میں خاصی معلومات رکھتے تھے۔   

سنہ 1946ء، 14 جون میں آپ رام چندر کاک وزیرِ اعظم کشمیر سے ملاقات کے لیے روانہ ہوئے۔ مہاراجہ ہری سنگھ سے اپنی جیپ اور ساتھ میں دوسری جیپ پر چند سپاہی آپ کی حفاظت کے لیے سری نگر روانہ کیے۔ آپ وزیرِ اعظم کشمیر کے پاس تین چار دن رہے۔ وزیرِ اعظم کشمیر کی رہائش و دفتر "بلال نگر سرنگ" میں تھا۔ آپ دن کے ایک بجے پہنچے تو وزیرِ اعظم کشمیر مہاراجہ کے حکم کے تحت دفتر میں موجود تھا۔

راجہ سخی دلیر خان نے بیگم شیخ محمد عبدللہ سے بھی ملاقات کی۔ یہ ملاقات ان کے گھر "پرانا پل" سری نگر میں ہوئی۔ آپ 29 روز تک ان کے مہمان رہے۔ آپ نے وزیرِاعظم کشمیر کو کہ بھیجا کہ پولیس بیگم شیخ محمد عبدللہ کے گھر اب نہ آئے۔ پولیس کا معمول تھا کہ ہر روز شیخ محمد عبللہ کے گھر آتی تھی تا کہ حالات سے باخبر رہا جائے۔  

راجہ سخی دلیر خان نے پوری وادی کا دورہ کیا۔ آپ کے دورے میں بیگم شیخ عبدللہ ساتھ ساتھ تھی۔ بیگم شیخ عبدللہ کی شدید خواہش تھی کہ آپ ان کی بڑی بیٹی خالدہ سے شادی کر لیں، جو اس وقت میٹرک کی طالبہ تھی۔ آپ نے اس بات کو شیخ محمد عبدللہ کی جیل سے واپسی سے مشروط کر دیا۔ آپ چونکہ کسی خاص مشن پر تھے اس لیے آپ کے نزدیک کسی بھی ایسی بات کی کوئی اہمیت نہ تھی جو آپ کے مقاصد کی تکمیل میں رکاوٹ بنتی۔  

آپ 29 روز شیخ محمد عبدللہ کےگھر گزارنے کے بعد آپ سری نگر سے براستہ بارا مولا اڑی آئے، جہاں رات قیام کرنے کے بعد آپ صبح آپ پونچھ پہنچے اور ڈاک بنگلہ میں رہائش اختیار کی/ اگلی سبح آپ دریا کے کنارے کھڑے تھے جو ڈاک بنگلہ کے تھوڑے فاصلے پر تھا۔ آپ کی ملاقات ایک نوجوان نور محمد شاہ سے ہوئی۔ جس نے بتایا کہ آپ کو پولیس تلاش کر رہی ہے۔ آپ نے پونچھ میں وزیرِ حکومت سے بھی ملاقات کی ، دن کا کھانا کھایا اور آئی این اے پر سیر حاصل  گفتگو ہوئی۔ آپ سید نزیر حسین شاہ سے بھی ملے جو پونچھ میں مسلم کمیونٹی کے ایک متحرک لیڈر تھے۔ راجہ سخی دلیر خان نے غلام احمد بانڈے سے بھی ملاقات کی۔ وہ پونچھ میں نیشل کانگرس کے صدر تھے۔  

دو دن بعد آپ واپس کوٹلی تشریف لائے۔ آپ نے کوٹلی میں وزیرِ حکومت رائو رتن سنگھ، ایس پی پولیس یحی سے کوٹلی ڈاک بنگلہ میں ملاقات کی، سب نے اکٹھے کھانا کھایا اور شہریوں سے ملاقات بھی کی۔ آپ کو پانچ سو روپے بطورِ انعام بھی دیے گئے۔ ملاقاتیوں میں میجر شاہ پال جو رولی کے رہائشی تھے، وہ بھی آئی این اے میں رہ چکے تھے کے علاوہ وکلاء اور ججز بھی شامل تھے۔  آپ خصوصی طور پر چودھری رحیم داد خام ایڈووکیٹ سے بھی ملے اور انھیں ساری صورتِ حال سے آگاہ کیا۔  چودھری رحیم داد خان ایڈووکیٹ  آپ کے معتمد ساتھیوں میں شمار کیے جاتے تھے۔ [چودھری رحیم داد خان جو کہ وینس راجپوت قبنیلہ سے تعلق رکھتے تھے، آزاد کشمیر سپریم کورٹ کے پہلے  چیف جسٹس ہونے کا اعزاز بھی رکھتے ہیں]۔  

آپ میر پور میں میجر علی احمد شاہ سے ملے، وہاں سے جہلم کے راستے دہلی روانہ ہوئے۔ دہلی میں پہلے آپ نے لیاقت علی خان سے ملاقات کی پھر ان کے ہمراہ قائدِ اعظم محمد علی جناح سے ملے۔ راجہ سخی دلیر خان نے قائدِ اعظم محمد علی جناح کو صورتِ حال سے آگاہ کیا اور تین ماہ کے دوران میں تمام ملاقاتوں اور لوگوں کے حالاتِ زندگی بتائے۔ آپ کے خیال میں جموں اور سری نگر کے لوگ سیاسی شعور رکھتے تھے جب کہ باقی لوگ دیہاتی تھے اور بہت زیادہ سہمے ہوئے تھے۔ 

قائدِ اعظم محمد علی جانح نے تمام معلومات کا بغور جائزہ لینے کے بعد آپ کو ایک رقعہ لکھ کر دیا۔ یہ رقعہ ممدوٹ اور دولتانہ صاحب کے نام تھا۔ آپ وہ رقعہ لے کر لاہور آ گئے۔ آپ چند روز علامہ عنایت اللہ مشرقی کے ہاں ٹھہرے اور مخلف شہروں کا دورہ کیا۔ آپ واپس میر پور آئے تو کچھ اسلحہ اور دیگر جنگی سامان بھی آپ کے ساتھ تھا۔ 

آپ نے میر پور میں میجر علی احمد شاہ [جو بعد میں صدر ریاست بنے] ، غازی الہی بخش، شیخ فضل عالم کے بیٹے شیخ محمد لطیف [بعد میں ایس پی کے عہدے پر فائز ہوئے] سے ملاقات کی اور ایک جہادی تنظیم کی بنیاد رکھی۔ میر پور میں کام کی تکمیل کے بعد آپ سماہنی آئے اور یہاں بھی لوگوں میں اسلحہ تقسیم کیا۔ ان علاقوں میں اپنا کام مکمل کرنے کے بعد آپ نے پونچھ کے علاقوں کا رخ کیا جہاں سدھن قبیلہ کے لوگ آباد ہیں۔ یہ لوگ صدیوں سے جنگجو مشہور چلے آرہے ہیں۔ پونچھ میں کہالہ، پلندری، بارل، منگ، گراہ کے لوگوں کا جزبہ دیدنی تھا۔ یہاں کے لوگوں نے آپ کو ہر طرح کے تعاون کی یقین دہانی کرائی۔

پاکستان کا قیام عمل میں آ چکا تھا۔ راجہ سخی دلیر خان نے بلوچ کلاں کے مقام پر بلے شاہ کی درگاہ کے پاس سابقہ فوجیوں پر مشتمل ایک جلسہ کا انعقاد کیا۔ آپ نے جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے مہاراجہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ "پاکستان سے الحاق کرو ورنہ نتائج بھگتنے کے لیے تیار ہو جائو"۔ جلسہ کے اختتام کے بعد آپ اسی رات وہاں سے نکل آئے لیکن آپ کے ایک ساتھی مولوی عبدلعزیز راجوری کو فوج نے بغاوت کے الزام میں کرفتار کر لیا۔ وہ چھے سال قید رہے، بعد میں شیخ محمد عبدللہ نے انھیں رہائی دلوائی۔ 

راجہ سخی دلیر خان نے کھوئی رٹہ میں بارہ آدمیوں پر مشتمل جہادی تنظیم قائم کی جس کی سربراہی چراغ دین زرگر کے پاس تھی۔ چراغ دین زرگر بعد میں چوہدری چراغ دین کے نام سے مشہور ہوئے۔ انھوں نے تمام اسلحہ، چھریاں اور کلہاڑیاں تھصیلدار کے پاس جمع کروا دیں اور ساتھ میں آپ کی تمام تنظیمی سر گرمیاں بھی بتائیں۔ راجہ سخی دلیر خان پہلے ہی جہادی مشہور ہو چکے تھے۔ اس بات نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ آپ کے وارنٹ کرفتاری جاری ہو گئے۔ آپ رات کے تین بنجے سرساوہ میں اپنے سسر لیفٹیننٹ سردار بہادر راجہ زمان رلی خان کے گھر پہنچے۔ رات آپ نے وہاں گزاری۔ آپ کے ساتھ کرنل ہدایت اللہ بھی تھے۔ آپ نے انھیں واپس بھیج دیا اور صبح صادق آپ ہمراہ راجہ محمد اسماعیل خان دریائے پانچھ کو عبور کر کے کوٹلی شہر میں چوہدری رحیم داد خان ایڈووکیٹ کے گھر پہنچ گئے۔ 

انھیں ساری صورتِ حال سے آگاہ کیا اور ان کے مشورے سے اگلی صبح نالہ دھرنگ کے پاس سے دو خوااتین کے ہمراہ برقع پہنے بس میں بیٹھ گئے۔ وہ خواتین میر پور میں بیاہی گئی تھیں اور اپنے گھر میر پور آ رہی تھیں۔ میر پور میں آپ نے تین دن میجر علی احمد شاہ کےہاں قیام کیا اور ان کے صلاح مشورے سے اگلی منصوبہ بندی کی۔

پاکستان بن چکا تھا۔ راجہ سخی دلیر خان نے میجر علی احمد شاہ کے مشورے سے قائدِ اعظم سے ملاقات کا فیصلہ کیا۔ حالات انتہائی خراب تھے، مہاراجہ کی فوج آپ کے درپے تھی اور کوئی پناہ دینے کو بھی تیار نہ تھا۔ مالی طور پر بھی مستحکم نہ تھے۔ چنانچہ میجر علی احمد شاہ نے آپ کو بیس روپے دے کر روانہ کیا۔ آپ میر پور سے پنڈی کے لیے براستہ جہلم روانہ ہوئے۔ جہلم میں آپ نے وہاں کے ارشد نامی ڈپٹی کمیشنر سے ملاقات کی۔ ڈی-سی ارشد نے اپنی سرکاری گاڑی میں آپ کو پنڈی پہچایا جہاں آپ ریٹائیرڈ جسٹس خواجہ شہاب الدین سے ملے  اور انھیں ساری صورتِ حال سے آگاہ کیا۔

آپ کی یہ ملاقات سرکٹ ہائوس راولپنڈی میں ہوئی تھی۔ جسٹس ریٹائیرڈ خواجہ شہاب الدین نے آپ کو کراچی روانہ کرنے کے لیے ائیر فورس کے جہاز کا بندوبست کیا اور خرچے کے لیے دو سو روپے بھی دیے۔ آپ اس جہاز میں کراچی روانہ ہوئے۔

راجہ سخی دلیر خان تمام دستاویزار ساتھ لے کر خان لیاقت علی خان سے ملے۔ خان لیاقت علی خان آپ کو گورنر جنرل قائدِ اعظم کے پاس لے گئے، کافی غور و حوض کے بعد قائدِ اعظم نے آپ سے پوچھا کہ میں کیا کر سکتا ہوں۔ راجہ سخی دلیر خان نے تمام حالات بتائے اور ہتھیاروں کی ڈیمانڈ کی جس پر قائدِ اعظم نے فرمایا "ہمارے پاس قلم دوات اور کرسی نہیں کہ جس پر بیٹھ کر ہم خط لکھ سکیں تم ہتھیار مانگتے ہو، ہم کہاں سے دیں" آپ نے رات قائدِ اعظم کے ہاں قیام کیا اور صبح ہوتے ہی خان لیاقت علی خان نے آپ کو ایک خط دے کر اپنی گاڑی میں جہاز تک پہنچایا جہاں سے آپ واپس راولپنڈی آ گئے۔ آپ وزیرِ اعلی خیبر پختون خواہ [صوبہ سرحد] خان عبدلقیوم خان سے ملے اور انھیں خان لیاقت علی خان کا خط دیا۔ اس ملاقات کے دوران میں پیر آف مانکی شریف بھی موجود تھے۔ یہ ملاقات پزاور سے چار میل آگے ہوئے تھی۔ وزیرِ اعلی نے اپ کو 210 رائفلیں دیں اور باقی مادا جاری رکھنے کا بھی یقین دلایا۔ پیر آف مانکی شریف نے بھی اپنی ایک رائفل دی۔ آپ کو اس امداد سے بہت حوصلہ ملا اور آپ کے اندر ایک نیا جزبہ پیدا ہوا۔ واپسی کے لیے پنڈی کے لیے رختِ سفر باندھا۔

راوالپنڈی آپ کا قیام پیلس ہوٹل جو صدر میں واقع ٹھا میں ہوا۔ وہاں منشی سردار علی خان بھی آپ کا انتظار کر رہے تھے۔ اگلے دن سردار محمد ابراہیم خان [صابق صدر آزاد جموں و کشمیر] آ گئے لیکن جلدی کی وجہ سے انھوں سڑک پر کھڑے کھڑے ملاقات کی اور لاہور کے لیے روانہ ہو گئے۔ راجہ سخی دلیر خان نے صوبیدار میجر راجہ سرور خان  آف بھبر آزاد کشمیر سے ملاقات کی اور انھیں سارے حالات سے آگاہ کیا۔  صوبیدار میجر راجہ سرور خان   کی کمپنی مورگا ہ پر لگی ہوئی تھی۔ انھوں نے آپ کو 45 باکس ایمونیشن دیا اور ایم ٹی گاڑی پر سارا ایمونیشن کہوٹہ تک پہنچا دیا جہاں سے آپ گدھوں اور اونٹوں کی مدد سے یہ سامان "پنجاڑ" سے "سونا" لائے اور ایک مکان میں ڈمپ کیا ۔ اس سارے عمل کے دوران میں منشی سردار فیروز خان آپ کے ساتھ ساتھ رہے۔

راجہ سخی دلیر خان نے سدھنوتی [پلندری] کے قابلِ اعتبار لوگوں کو پیغام بھیجا کہ آپ آئیں اور ایمیونیشن کو دریا سے پار کروائیں۔ آپ نے دس دس رائفلوں کے بنڈل بنائے اور دریا پار کرنے لگے۔ اس دوران میں دس رائفلوں کا یک بنڈل دریا برد ہو گیا۔  یہ ایمیونیشن آئیں پانہ گائوں کی خواتین نے گھاس کے گاڑوں میں چھپا دیا تا کہ آرمی آئے تو اسے پتہ نہ چلے ۔ اہلِ سدھنوتی کی یہ بہت بڑی قربانی تھی۔

آپ پل کے پار کہوٹہ کی طرف تھے۔ آپ کے پاس ایک پسٹل ایک رائفل، دو سو رائونڈ  اور ایک سٹین گن تین سو رائونڈ تھے۔ آپ نے پلان کیا کہ چند جانباز بھیس بدل کر چھمن پتن پل کے بالکل سامنے ٹیکری کے ارد گرد چکر لگائیں گے۔ یہ کام صبح دس بجے سے شام چار بجے تک جاری رہا۔ اس سے مراد یہ تھی کہ دشمن سمجھے کہ مجاہدین بہت بڑی تعداد میں ہیں۔ شام چار بجے ڈوگرہ فوج نے پل کے رسوں کو آگ لگا دی۔ آپ نے فائر کھول دیا۔ ڈوگرہ فوج اور مجاہدین کی فائرنگ جاری تھی کہ مقامی لوگ بھی آوازیں سن کر آ گئے۔ ڈوگرہ فوج کے دس میں سے نو، جوان مارے گئے اور ایک جوان بھاگ کے سدھنوتی [پلندری] شہر کہ طرف آ گیا تھا۔ آ نے مقامی لوگوں کے ساتھ مل کر پل کو لگی آگ بجھائی اور وہاں آزاد پتن کا نام لکھ دیا۔ یہ پل آج تک آزاد پتن کے نام سے مشہور ہے۔

سدھنوتی [پلندری] شہر سے دشمن بھاگ چکا تھا۔ آپ نے ہمراہ چند ساتھیوں مختار خان جمعدار۔ بگا خان صوبیدار اور صوبیدار فرمان علی خان نے دشمن کا پیچھا کیا اور دیوی گلی تک چلے گئے۔ صبح دیوی گلی کے مقام پر دشمن سے معرکہ ہوا۔ دشمن کا بھاری جانی نقصان ہوا اور وہ بھاگ گیا جب کہ ایک مجاہد شید ہوا۔ کرنل ہدایت خان جو انڈین آرمی میں صوبیدار تھے اور گھر چھٹی پر آئے ہوئے تھے بھی معرکہ میں شامل تھے۔ راجہ سخی دلیر خان نے کمان کرنل ہدایت خان کے سپرد کر دی اور واپس بمع چند مجاہدین سدھنوتی [پلندری]  گئے۔

قدرت اللہ شہاب اپنی شہرہ آفاق تصنیف "شہاب نامہ" میں صفحہ نمبر 281 پر یوں رقم طراز ہیں؛
۔"کپتان حسن خان اور سخی دلیر نے اپنے اپنے گوریلہ دستوں کے ساتھ دریائے جہلم پر لچھمن پتن پل پر متعین ڈوگرہ فوج پر حملہ کیا اور کئی گھنٹے کی شدید دست بدست جنگ کے بعد پل کو صحیح سالم اپنے قبضے میں لے لیا۔ دوگرہ فوج پسپا ہو کر پلندری کی طرف بھاگ گئی 

اگلے روز راجہ سخی دلیر خان نے ایک ہنگامی اجلاس پلندری کے مقام پر بلایا جس کی صدارت "بابائے قوم خان آف منگ" نے کی۔ اس اجلاس میں منشی فیروز علی خان، کرنل شیر احمد خان کے علاوہ عوام علاقہ کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ اجلاس میں متفقہ طور پر چند فیصلے کیے گئے۔ پہلا فیصلہ پلندری کو مجاہدین کا ہیڈ کوارٹر بنایا گیا۔  یہ ہیڈ کوارٹر بابائے قوم خان آف منگ کی زیرِ سرپرستی کام کرے گا۔ ہیڈ کوارٹر میں نئے مجاہدین کی بھرتی کے ساتھ ساتھ انہیں اگلے محازوں پر بھیجنے کا کام بھی سونپا گیا۔ دوسرا فیصلہ یہ ہوا کہ اس علاقہ کے تمام محازوں کے کمانڈر انچیف راجہ سخی دلیر خان مقرر ہوئے جب کہ تیسرا فیصلہ یہ ہوا کہ کرنل ہدایت خان کو ایک بٹالین کا کمانڈر بنا کر پونچھ مینڈر کے لیے روانہ کیا جائے۔ ان کی معاونت کے لیے ایک اور بٹالین جس کی کمانڈ کیپٹن چودھری نتھا خان آف سہنسہ کر رہے تھے، تیار کی گئی۔ راجہ سخی دلیر خان خود کوٹلی کے علاقے کو کنٹرول کرنا چاہتے تھے۔ 

سنہ 16 اکتوبر 1947ء کا دن تھا۔ دریائے پونچھ میں کشتی کمیٹی کے ٹھیکیدار "شام دین" نے عنایت خان ولد کالو خان آف سرساوہ کو بتایا کہ سرکار نے ہمیں کل صبح سویرے کشتیوں پر حاضر رہنے کا حکم دیا ہے۔ شام دین کا خیال تھا کہ فوج کوئی سامان دریا سے پار کروائے گی۔ شام دین نے عنایت خان کو یہ پیغام راجہ محمد اسماعیل خان یا سید باقر حسین شاہ تک پہنچانے کا کہا۔ عنایت خان خان آف درہیڈہ سرساوہ نے یہ پیغام راجہ اسماعیل خان کو دیا۔ راجہ محمد اسماعیل نے مستری الف دین کے زریعے یہ پیغام راجہ کریمداد خان عرف منور تک پہنچایا، راجہ کیماں خان  نے ہمراہ مستری الفہ یہی بات رات کے پہلے پہر راجہ سخی دلیر خان کو بتائی۔ راجہ سخی دلیر خان اپنی فورس کے ہمراہ پلندری میں "ٹالیاں" کے مقام پر موجود تھے۔ اور صبح سہنسہ جانے کی تیاری کر رہے تھے۔ راجہ سخی دلیر خان نے جب یہ خبر سنی تو انھوں نے راجہ کیماں خان کے مشورے سے سہنسہ جانے کا ارادہ ترک کر دیا۔ راجہ سخی دلیر خان نے مجاہدین سے مختصر خطاب کیا اور کوٹلی کی طرف مارچ کا حکم دیا۔

سنہ 17 اکتوبر 1947ء کو جب سورج طلوع ہوا تو راجہ سخی دلیر خان مع اپنے مجاہدین سرساوہ نگئی رنگڑ نالے پر پہنچ چکے تھے۔ راجہ کریم داد خان عرف کیماں خام، مستری الف دین عرف مستری الفی اور مولوی غلام قادر آف گوہڑہ کے علاوہ ایک بڑی تعداد عوام علاقہ کی تھی۔ مجاہدین کے ساتھ لوگوں نے بھی ڈنڈی، کلہاڑے اور رائفلیں اٹھا رکھیں تھیں۔ مجاہدین میں بلا تفریق تمام برادریوں کے لوگ تھے۔ راجہ سخی دلیر خان نے مجاہدین سے مختصر خطاب کیا اور انھیں اپنی اپنی پوزیشنیں سمبھالنے کو کہا۔ راجہ سخی دلیر خان نے مجاہدین کو تاکید کی کہ جب وہ پہلی گولی فائر کریں اس کے بعد ہر طرف سے لگاتار فئرنگ کرنی ہے۔ مجاہدین اپنی اپنی پوزیشنوں پر چلے گئے راجہ سخی دلیر خان مرزا انور محمد کے گھر کے سامنے والی ٹیکری پر پہنچ گئے۔

تمام مجاہدین نالہ رنگڑ کی مغربی جانب موجود تھے۔ تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ "پناکھ" سے گورکھا فوج نمودار ہوئی، گورکھا فوج میں گھڑ سواروں کے ساتھ ساتھ پیدل دستے بھی تھے۔ جب کہ امیونیشن خچروں پر لدا ہوا تھا۔ جب فوج نالہ رنگڑ کے پار مشرقی جانب پہنچی تو سامنے ٹیکری پر موجود راجہ سخی دلیر خان نے نعرہ تکبیر بلند کرتے ہوئے فائر کیا، اس کے ساتھ ہی مجاہدین نے گورکھا فوج پر دھاوا بول دیا۔ اچانک زبردست حملے سے دشمن اپنے حواس کھو بیٹھا۔
دشمن بھاگنا شروع ہو گیا لیکن وہ راجہ سخی دلیر خان کی جنگی حکمتِ عملی سے بھاگ کر کہاں جا سکتا تھا۔ دشمن کے بہت سے سپاہی مارے گئے اور کچھ کو زندہ گرفتار کر لیا گیا۔ صرف ایک سپاہی زخمی حالت میں زندہ بچ کر کوٹلی پہنچا۔ اس دست بدست لڑائی میں زیلدار راجہ سیف علی خان بھی مارے گئے [مکمل احوال زیلدار راجہ سیف علی خان میں ملاحظہ کریں] 

راجہ سخی دلیر خان نے گرفتار سپاہیوں کو دعوت اسلام دی جس کو انھوں نے قبول نہ کیا اور انہیں ہلاک کر دیا گیا۔ یہ معرکہ صبح سے عصر تک جاری رہا جس میں مسلمانوں کو کامیابی ملی اور بہت سا سازو سامان بھی ہاتھ لگا۔ اس معرکے میں چند مجاہدین نے بھی جامِ شہادت نوش کیا جن کی قبریں سرساوہ میں "سیری" کے قبرستان میں موجود ہیں۔ راجہ سخی دلیر خان نے مجاہدین کع اکٹھا کر کے ان سے خطاب کیا جس میں کامیابی کی مبارک باد کے ساتھ ساتھ اگلے دو دن اسی جگہ پر رہنے کا فیصلہ کیا گیا۔ شہدا کو دفن کیا گیا جب کہ گھورکھا فوج کو گڑہوں میں پھینک دیا گیا تا کہ تعفن ن پھیلے۔ مجاہدین کے لیت کھانے پینے کا اہتمام عوام علاقہ کے ساتھ ساتھ راجہ محمد اسماعیل خان نے کیا۔

راجہ سخی دلیر خان نے گرفتار سپاہیوں کو دعوت اسلام دی جس کو انھوں نے قبول نہ کیا اور انہیں ہلاک کر دیا گیا۔ یہ معرکہ صبح سے عصر تک جاری رہا مجاہدین بدستور اپنی اپنی پوزیشنوں  پر موجود تھے۔ راجہ سخی دلیر خان نے اب کی بار حکمتِ عملی تبدیل کی۔ چند مجاہدین کو "چھیتراں" کے راستے "کلاہ" کی طرف بھیج دیا جب کہ چند مجاہدین اپنے ساتھ رکھ لیے۔ تیسے دن دشمن کی اسلحہ سء لیس دو کمپنی فوج ایک بار پھر پناکھ سے نمودار ہوئی۔ جب دشمن کی فوج نالہ رنگڑ میں پہنچی تو اسے مجاہدین کی زبردست مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ راجہ سخی دلیرخان چند مجاہدین ہمراہ شمال کی جانب سے ہوتے ہوئے دشمن کی پشت پر پہنچ گئے۔ ادھر "کلاہ" کی طرف سے بھی دشمن کو مزاحمت کا سامنا تھا جب کہ سامنے مجاہدین مورچہ زن تھے ۔ دشمن کی جب ایک نہ چلی تو اس نے بھگنے میں ہی عافیت جانی۔ بھاگتے ہوئے دشمن اپنی چند لاشیں اور بہت سا ایمیونیشن بھی چھوڑ گیا جو مجاہدین کے کام آیا۔ اللہ تعالی کے فضل و کرم سے مجاہدین کا کوئی جانی نقصان نہ ہوا۔       

کوٹلی اس زمانے میں ایک پڑا تجارتی مرکز تھا جس پر ہندوئوں کی جارہ داری تھی اور یہ فوج کا بھی ہیڈ کوارٹر تھا۔ دشمن نے شہر کے چاروں طرف فوج پہرے پر لگا رکھی تھی۔ راجہ سخی دلیر خان نے مہادرین کو ساتھ لیا اور کوٹلی شہر کا دریائے پونچھ کی مغربی جانب سے محاصرہ کیا۔ راجہ سخی دلیر خان کو تازہ کمک کرنل حسین خان آف "کہالہ" پلندری کی زیرِ کمان پہنچی۔ اب تک مجاہدین میں صرف مقامی لوگ ہی تھے لیکن کرنل حسین خان کی کمک میں زیادہ تعداد قبائلی پٹھانوں کی تھی۔ راجہ سخی دلیرخان  نے کوٹلی کے محاصرے کی کمان کرنل حسین خان کے سپرد کی اور چند مجاہدین کو لیکر راجوری کی طرف چلے گئے ان مجاہدین میں بھی اکثریت قبائلی پٹھانوں کی تھی۔

راجہ سخی دلیر خان ہمراہ مجاہدین جب راجوری پہنچے تو دیکھا کہ راجوری میں ہندو پوری منظم ہیں۔ راجوری تھانے میں سرساوہ کے ایک سپاہی محمد صادق سوز بحیثیت کانسٹیبل فرائض انجام دے رہے تھے۔ راجہ سخی دلیر خان نے جاسوس کے ذریعے محمد صادق سوز کے اطلاع دی کہ آپ راجوری چھوڑ دیں محمد صادق سوز رات کے اندھیرے میں راجوری سے نکل آئے۔ راجہ سخی دلیر خان نے راجوری کی تمام برادریوں جن میں منگرال راجپوت، جرال مرزا، درال ملک اور گوجر تھے کہ چیدہ چیدہ افراد جمع کیا اور انہیں جہاد میں شمولیت کی دعوت دی۔ سب لوگ مع اپنی اپنی برادری راجہ سخی دلیر خان کی آوز پر لبیک کہا اور جہاد کی تیاری شروع کر دی چند دنوں میں ہزاروں کی تعداد میں مجاہدین جمع ہو گئے۔

راجہ سخی دلیر خان نے ایک بھر پور حملہ راجوری شہر پر کیا، درجنوں ہندئوو کو واصل جہنم کیا بہت سے ہندو بھاگ کر عید گاہ جو شہر کے عقب میں واقع تھی، جمع ہوئے جنہیں مسلمانوں نے کلہاڑیوں کے وار کر کے مار دیا۔ بہت سے ہندئوو نے اسلام قبول کیا۔ اسلام قبول کرنے والوں میں راجہ سخی دلیر خان کے سسر بھی تھے، جنھوں نے اپنی بیٹی راجہ سخی دلیر خان کے عقد میں دی۔ راجہ سخی دلیرخان نے راجوری کو فتح کیا اور شہر میں آزادی کا پرچم لہرایا۔ چھ دن قیام کے بعد راجہ سخی دلیرخان نے راجوری کا کنٹرول مقامی کمانڈروں کے حوالے کیا اور خود واپس سرساوہ آگئے۔ راجوری میں مجاہدین کے ساتھ بہت سا مالِ غنیمت لگا۔ راجہ سخی دلیرخان جب سرساوہ واپس آئے تو ان کے ساتھ ان کی نو مسلم بیوی بھی تھی۔ راجہ سخی دلیرخان نے گھر بیٹھنے کے بجائے دوبارہ کوٹلی کا رخ کیا اور کوٹلی کے محاصرے میں شریک ہو گئے۔ راتح راجوری راجہ سخی دلیر خان نے کوٹلی کی آزادی میں  بھی اہم کردار ادا کیا۔   

راجہ سخی دلیر خان  نے آزادی کے بعد سماجی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصی لیا۔ انھوں نے سیاست میں بھی حصہ لیتے ہوئے الیکشن لڑا لیکن ان کا یہ تجربہ تلخ ثابت ہوا اور وہ الیکشن میں کامیاب نہ ہو سکے۔ راجہ سخی دلیر خان  کا اہل سرساوہ پر بہت رعب تھا، کسی کو بھی ان کے سامنے باتح کرنے کی جراءت نہ تھی اور وہ سب لوگوں کی "چینے برگے" کہ کر پکارتے تھے۔
راجہ سخی دلیر خان  چند دن علیل رہے اور 16 ستمبر 1994 کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ اناللہ وانا علیہ راجعون، ان کی نمازِ جنازہ میں آزاد کشمیر کے وزیرِ اعظم، صدر، اعلی فوجی و پولیس قیادت کے علاوہ عوام کی بہت بڑی تعداد نے شرکت کی۔ راقم بھی جنازے میں شریک تھا۔ فاتح راجوری غازی راجہ سخی دلیر خان [مرحوم] کو پولیس کے چاک و چوبند دستے نے سلامی پیش کی۔
راجہ سخی دلیر خان  نے چار شادیاں کیں اور ان کے سات بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ تحریکِ آزادی کشمیر میں اس ہیرو فاتح راجوری کا نام ہمیشہ جلی حروف میں لکھا جائے گا۔ قوم اپنے اس عظیم جرنیل کے کارناموں پر ناز کرتی رہے گی اور آئندہ نسلوں کے لیت ان کے کارنامے مشعلِ راہ ہوں گے۔

آزاد جموں و کشمیر گورنمنٹ نے انھین تحریک آزادی ء کشمیر میڈل دیا اور کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل غلام محمد ملک نے خدمات کے اعتراف میں تعریفی سند بھی عطا کی۔ پہلی وابستگی پیپلز پارٹی سے تھی، بعد میں مسلم کانفرنس میں شامل ہوئے اور مرتے دم تک مسلم کانفرنس سے وابستہ رہے۔
قوم بجا طور پر ان پر فخر کر سکتی ہے۔ ان کے کارنامے رہتی دنیا تک تاریخِ منگرال قوم کے اس ہیرو کی یاد دلاتے رہیں گے۔

بلاگرراجہ ممتاز احمد

        نوٹ: بلاگر کا کتاب کے کسی بھی متن سے متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں ہے۔
  

 


 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

MANGRAL RAJPOOT BOOK PART 9

منگرال راجپوت کتاب پارٹ 11

MANGRAL RAJPOOT BOOK PART 7