منگرال راجپوت کتاب پارٹ 18

 زیلدار راجہ سیف علی خان

سیاسی سمجحھ بوجھ رکھنے والے، معاملہ فہم اور صلح جو راجہ سیف علی خان سرساوہ کے انتہائی زیرک زیلدار تھے۔ آپ ایک بہترین منظم تھے، آپ نڈر انسان تھے اور مہاراجہ کے سامنے عوام کے حقوق کی بات کرنے میں کوئی باک محسوس نہ کرتے تھے۔ البتہ آپ سرکار کے خلاف مسلح جدوجہد کرنے کے بجائے پر امن طریقے سے مزاکرات کے ذریعے عوامی حقوق کی بحالی اور آزادی کا حصول چاہتے تھے۔ لیکن شومئی قسمت کہ آپ نے مسلح جدوجہد کے دوران شہادت کا مرتبہ پایا۔  

زیلدار راجہ سیف علی خان انیسویں صدی کی آخری دہائی میں علاقہ سرساوہ کے گائوں گنگ ناڑہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا نام بھادو خان تھا۔ بھادو خان علقہ سرساوہ میں ایک کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ راجہ سیف علی خان کی پیدائش پر آپ کے والد نے علاقہ کے لوگوں میں مٹھائی تقسیم کی۔ غرباء اور مساکین میں کھانا اور کپڑے تقسیم کیے۔ بھادو خان کے والد کے بارے میں مشہور روایت چلی آ رہی ہے انھوں نے سکھوں کو مالیا دینے سے انکار کیا اور ان کے خلاف باضابطہ جنگ کی۔ وہ نہ صرف نام کے شیر خان تھے بلکہ آپ نے سکھوں کو للکار کر عملی طور پر اپنے نام کی لاج بھی رکھی تھی۔ آپ نے شہادت کی موت قبول کر لی لیکن مہاراجہ کے آگے نہ جھکے۔ آپ سکھوں کے خلاف لڑے اور چند ایک کو موت کے گھاٹ بھی اتارا لیکن حکومتِ وقت کے خلاف کون لڑ کر جیت سکا ہے۔ آپ کی شہادت کے ایک عرصے بعد تک بھی مہاراجہ کے آدمی ادھر کا رخ نہ کر سکے۔

ذیلدار راجہ سیف علی خان میں اپنے دادا کی تمام خوبیاں بدرجہ اتم موجود تھیں۔ آپ نے کوئی دنیاوی تعلیم حاصل نہ کی البتہ دینی تعلیم گائوں کے مولوی صاحب سے ضرور حاصل کی۔ آپ اپنے والد کی وفات کے بعد علاقہ سرساوہ کے زیلدار نامزد ہوئے۔ آپ کے ساتھ علاقہ میں چھ نمبردار کام کرتے تھے، جن میں نمبردار خاقان خان، نمبردار غوث محمد، نمبردار ولی داد خان، نمبردار فقیرو خان اور نمبردار مہند خان تھے۔ کہ سکتے ہیں کہ یہ کیبنٹ جو چھ نمبرداروں اور ایک زیلدار پر مشتمل تھی، عملی طور پر علاقہ سرساوہ کے سیاہ و سفید کی مالک تھی، علاقہ میں سب کام انھی کی مرضی و منشاء سے ہوتے تھے۔

زیلدار سہف علی خان اپنے والد کی طرح درمیانے قد اور مضبوط جسم کے مالک تھے۔ آپ بہت آہستہ آہستہ گفتگو کرتے تھے لیکن جب کبھی غصہ آتا تو بہت گرجدار آواز میں بات کرنے کے عادی تھے۔  جب کوئی مسئلہ آپ کے سامنے رکھا جاتا، آپ بہت سوچ سمجھ کر اور پوری چھان بین کر کے فیصلہ دیتے تھے۔ جو فیصلہ کرتے اس پر سختی سے پابند بھی رہتے تھے اور عمل درآمد بھی کرواتے تھے۔ آپ نے بہت چھوٹی عمرمیں زیلداری کی زمہ داریاں اپنے کندھوں پر سنبھالیں اور بطریق احسن سرانجام دیں۔ جب کبھی مہاراجہ سے ملاقات ہوتی، اُ اپنا موقف بڑے واضع انداز میں بیان کرتے تھے۔

زیلدار سیف علی خان جب کبھی ایک جگہ سے دوسری جگہ تشریف لے جاتے تو پالکی میں سفر کرتے تھے۔ پالکی لوگ اپنے کندھوں پر اٹھا کر چلتے تھے۔ آپ ایک قابل جرنیل کی طرح جب دربار لگاتے تو کسی کو بھی لایعنی گفتگو کرنے کی جازت نہ ہوتی اور کوئی بھی ایسی بات سننا پسند نہ کرتے جو موضوع یا حالات سے ہٹ کر کی جاتی۔ آپ گفتگو کے دوران کسی کو بھی بولنے نہ دیتے تھے کہ یہ آدابِ محفل کے خلاف ہے۔ آپ خود بھی نظم و نسق سے زندگی گزار رہے تھے اور دوسروں سے بھی یہی توقع رکھتے تھے۔

سنہء 32-1931 میں تحریک عدم ادائیگی مالیہ کے دوران جب پنجیرہ سے راجہ کریم داد خان عرف راجہ کیماں خان اور راجہ ہاشم خان عرف راجہ ہاشو خان کو کرفتار کیا گیا تو آپ نے مہاراجہ سے ملاقات کی۔ علاقہ سرساوہ کی صورتِ حال اس کے سامنے رکھی اور ان کی رہائی کو یقینی بنایا۔ زیلدار راجہ سیف علی خان کی یقین دہانی پر مہاراجہ نے ان پر مقدمہ نہ چلایا بلکہ انھیں باعزت بری کر دیا۔ اس بات سے آپ کی بلدیوسنگھ بٹھانیاں سے ٹھن گئی لیکن آپ موقف سے ایک انچ پیچھے نہ ہٹے۔

سنہء 1946 میں مہاراجہ ہری سنگھ نے کوٹلی کا دورہ کیا اور یہ اس کا کوٹلی میں آخری دورہ ثابت ہوا۔ حالات بہت خراب تھے۔ آزادی کی تحریک زوروں پر تھی۔ جگہ جگہ شورش برپا تھی۔ امن و امان کا بہت مسئلہ تھا۔ کوٹلی میں مہاراجہ کے دربار میں سب زیلدار موجود تھے۔ مہاراجہ ان سے اپنے اپنے علاقوں میں امن وامان کے قیام پر زور دے رہا تھا۔ زیلدار سیف علی خان نے دو ٹوک الفاظ میں اپنا موقف راجہ کے سامنے رکھ دیا کہ

آپ لوگوں کے جزبات کو مزید بھڑکانے کے بجائے ان کے بنیادی حقوق کی بحالی کی بات کریں۔ ہم حکومت کے نمائندے ضرور ہیں لیکن لوگوں کا خیال رکھنا بھی ہمارا فرض ہے۔  ہم ان ہی کی نمائندگی کرتے ہیں۔

 اس بات کی تصدیق راجہ محمود داد خان نے بھی کی جو اس وقت اپنے والد زیلدار راجہ کرم داد خان کے ساتھ وہاں موجود تھے۔

مہاراجہ اتنا صاف، واضع اور دلیرانہ موقف سن کر خاموش ہو گیا اور کچھ دیر بعد محفل برخواست کر دی۔ یہ اس بات کی غمازی ہے کہ مہاراجہ کو یہ بات پسند نہ آئی کہ کوئی لوگوں کے حقوق کی بات کرے جو زیلدار راجہ سیف علی خان کا موقف تھا۔
سنہء 1947 ء میں مہاراجہ کی حکومت کے خلاف تحریک بھی زوروں پر تھی۔ آپ آزادی کے حق میں تھے لیکن آپ غریب لوگوں کوکسی صورت بھی موت کے گھاٹ نہیں اتارنا چاہتے تھے۔ علاقہ میں امن و امان کے حوالے سے آپ خصوصی توجہ دیتے تھے۔ آپ کا خیال تھا کہ خدانخواستہ 32-1931ء کی تحریک عدم ادائیگی مالیہ کی طرح یہ تحریک بھی ناکام ہو گئی تو اس کی بھاری قیمت چکانا پڑے گی، تحریک عدم ادائیگی مالیہ میں عوام علاقہ نے ایک روپیہ مالیہ کے ساتھ ایک روپیہ زائد ادا کیا تھا۔ آپ اپنے علاقہ میں امن و مان کے لیے فوج کے حق میں بلکل نہ تھے۔ آپ یہ مسئلہ بھی مقامی عمائدین کے ساتھ بیٹھ کر حل کرنا چاہتے تھے۔ آپ نے مہاراجہ کو یقین دلایا تھا کہ میرے علاقہ میں سب امن و سکون سے رہ رہے ہیں۔ مہاراجہ کے پاس علاقہ میں بغاوت کی خبریں پہنچ چکی تھی۔ آپ کوٹلی شہر میں تھے کہ فوج کو علاقہ میں بھیجنے کے احکامات آ گئے - آپ نے مخالفت کی لیکن کوئی شنوائی نہ ہوئی۔

فوج آپ کو اپنے ساتھ سرساوہ لانا چاہتی تھی۔ آپ نے فوج کو قائل کرنے کی بھر پور کوشش کی کہ علاقہ میں امن ہے لیکن فوج کو حکم تھا کہ سرساوہ ضرور جانا ہے۔ آپ کی کوششیں بار آور نہ ہوئیں ، اس لیے آپ کو بھی مجبورا ہمراہ فوج آنا پڑا۔ آپ نے یقین دلایا تھا کہ علاقہ میں کوئی گڑ بڑ نہ ہے۔ جب آپ نالہ رنگڑ سرساوہ پہنچے تو مجاہدین راجہ سخی دلیر خان کی زیرِ کمان موجود تھے۔ مجاہدین نے آرمی کو آتا دیکھ کر مورچے سنبھالے اور نالہ رنگڑ کے شمال اور مغرب سے فائرنگ شروع کر دی۔ آرمی نے راجہ سیف علی خان زیلدار کو سب سے آگے رکھا ہوا تھا۔ جب فائرنگ ہوئی تو آرمی کے کمپنی کمانڈر جو راجہ زیلدار سیف علی خان کے بائیں طرف گھوڑے پر پیچھے پیچھے چلا آ رہا تھا، یہ سمجھا کہ راجہ زیلدار سیف علی خان نے ڈبل کراس کیا ہے۔ اس نے پستول سے فائر کیا جو آپ کے بائیں طرف کمر سے تھوڑا اوپر لگا اور آپ موقع پر ہی شہید ہو گئے۔ بعد میں یہ بات زبانِ زد عام ہو گئی کہ آپ کو راجہ سخی دلیر خان نے قتل کی ہے۔ راقم نے اس بارے میں مکمل تحقیق کی ہے اور دلائل کو طور پر چند واقعات پیش ہیں۔

زیلدار راجہ سیف علی خان کی عمر اس وقت 65 سال تھی۔ جب آپ کو غسل دیا گیا تو بائیں طرف کمر کے اوپر پیٹھ کی طرف چھوٹا سا سوراخ تھا جبکہ اگلی طرف پیٹ میں نسبتاً بڑا سوراخ  اور آنتیں باہر نکلی ہوئیں تھیں۔ زخم سے خون بہ رہا تھا جس کو گھریلو روئی رکھ کر بند کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ پیٹَھ کی طرف چھوٹا زخم اور پیٹ کی طرف بڑا اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ گولی آپ کو پیچھے سے اور قریب سے لگی تھی۔ آپ کا ملازم "پھاناں" جو پیرن کا رہنے والا تھا اور گھوڑے کی لگام پکڑ رکھی تھی، نے بتایا تھا کہ زیلدار صاحب کو گولی کمپنی کمانڈر نے ماری تھی اور ساتھ گالیاں بھی دے رہا تھا کہ تم نے ہمارے ساتھ دھوکہ کیا ہے۔  

محلِ وقوع کے اعتبار سے مجاہدین نالہ رنگڑ کے مغربی طرف تھےجب کہ مجاہدین کمانڈر راجہ سخی دلیر خان شمالی جانب پہاڑی پر تھے۔ مجاہدین کے پاس پرانی رائفلیں تھیں جو راجہ سخی دلیر خان کو خان عبدلقیوم خان نے قائدِاعظم کی سفارش پر دی تھیں۔ راجہ سخی دلیر خان کے پاس سٹین گن تھی۔ زیلدار راجہ سیف علی خان کو جو گولی لگی وہ ان کے بائیں طرف لگی تھی جبکہ راجہ سخی دلیر خان جس جگہ پوزیشن لیے ہوئے تھے اگر وہاں سے گولی چلتی تو بلکل سامنے پیٹ میں یا سینے پر لگتی۔ 

طب کے نقطہ نظر سے گولی جہاں سے جسم میں داخل ہوتی ہے وہاں اس کا سوراخ چھوٹا اور جہاں سے باہر نکلتی ہے وہاں زخم بڑا ہوتا ہے- یوں راجہ زیلدار سیف علی خان کو لگنے والی گولی کمپنی کمانڈر سے ہی چلائی تھی کیونکہ وہ گولی پستول کی تھی اور بائیں طرف سے لگی تھی۔ قریب ہونے کی وجہ سے گولی جسم سے نکل گئی تھی۔ کمپنی کمانڈر اور آرمی مجاہدین کے اس اچانک حملے سے بوکھلا چکے تھے اور بھاگ بھی نہیں سکتے تھے۔ آرمی کے خیال میں زیلدار راجہ سیف علی خان نے مجاہدین کو یہاں بٹھایا تھا جس کا بدلہ انھوں نے شہید کر کے لے لیا تھا۔

راجہ سخی دلیر خان کا راجہ زیلدار سیف علی خان سے کوئی حقیقی رشتہ نہ تھا اور نہ راجہ سیف علی خان ان کے رشتے میں ماموں تھے بلکہ دور کے رشتہ دار تھے۔ ان کی شہادت سے ہم ایک مدبر، معاملہ فہم اور صلح جو شخصیت سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محروم ہو گئے۔

         

بلاگرراجہ ممتاز احمد

        نوٹ: بلاگر کا کتاب کے کسی بھی متن سے متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں ہے۔
  

 

تبصرے

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

MANGRAL RAJPOOT BOOK PART 9

منگرال راجپوت کتاب پارٹ 11

MANGRAL RAJPOOT BOOK PART 7