منگرال راجپوت کتاب پارٹ 17

 راجہ سر بلندخان عرف پہاڑ خان

  راجہ سر بلند خان عرف پہاڑ خان علاقہ سرساوہ اور علاقہ کٹھار سہنسہ میں منگرال قبیلہ کے جدِ امجد ہیں۔ ان دو علاقوں میں بسنے والے منگرال آپ کی اولاد میں سے ہیں۔ راجہ سر بلند عرف پہاڑ خان کا جنم سہنسہ میں ہوا۔ آپ کلیا خان کے بڑے بیٹے تھے۔ آپ کا نسب ساتویں پشت میں راجہ دان خان سے ملتا ہے۔ راجہ دان خان، راجہ سینس پال کے چار بیٹوں میں سے سب سے بڑے بیٹے تھے۔
راجہ سر بلند خان عرف پہاڑ خان نے دو شادیاں کی۔ پہلی بیوی سے ان کی اولاد کٹھار سہنسہ میں آباد ہے۔ جب کہ دوسری شادی انھوں نے "تہاڑ تریچھ" کے سدھن قبیلے سے کی جس سے ان کی اولاد علاقہ سرساوہ میں آباد ہے۔ یوں سرساوہ میں بسنے والے منگرال سدھن قبیلے کے نواسے ہیں۔ سدھن قبیلہ صدیوں سے ضلع سدھنوتی اور قرب و جوار میں آباد چلا آ رہا ہے۔ یہ ایک جنگ جو قبیلہ ہے جو پٹھان قبائل سدوزئی سے ہے۔

سرساوہ کی بستی کا نام راجہ سربلند خان نے اپنے نام پر رکھا۔ آپ پندرھویں صدی عیسوی کے آخر میں سرساوہ آئے۔ آپ کے ساتھ اپنے قبیلے کے چند جاں نثار بھی تھے۔ آپ براستہ بروئیاں، گنگ ناڑہ، سوئیاں سیاہ یہاں آئے تھے۔ اس وقت علاقہ سرساوہ میں پوغل راجپوت آباد تھے۔ یہاں انھوں نے اپنی چھوٹی سے سلطنت قائم کر رکھی تھی۔ راجہ سربلند خان اپنے قبیلے کے چند جاں نثاروں کے ہمراہ جب علاقہ سرساوہ میں داخل ہوئے تو انھوں نے پوغل راجپوتوں سے مطالبہ کی کہ وہ آج کے بعد انھیں خراج دے کر رہیں گے۔ جس پر پوغل راجپوت خاصے جزبر ہوئے۔ انھوں نے خراج دینے سے انکار کر دیا۔ پوغل راجپوتوں کے پاس کوئی منظم فوج نہیں تھی البتہ برادری کے نوجوان ہر وقت مسلح رہتے تھے۔ راجہ سر بلند خان نے ان سے لڑائی کا ارادہ کر لیا۔ اب تک راجہ سرپلند خان کے پاس اپنے برادری کے علاوہ سدھن قبیلے کے لوگ بھی شامل ہو چکے تھے۔چنانچہ راجہ سربلند خان اور پوغل راجپوتوں کے درمیان معرکہ ہوا جس میں بہت سا جانی نقصان ہوا۔ آخر کار پوغل راجپوتوں کو شکستِ فاش ہوئی اور وہ اپنی لاشوں کو چھوڑ کر موجودہ کوٹلی شہر کی طرف بھاگ نکلے۔ یوں پوغل راجپوتوں میں صرف ایک فیملی نے بھاگ کر اپنی جان بچائی اور بعد میں راجہ سر بلند خان کی حکمرانی تسلیم کرتے ہوئے جان کی امان چاہی جو راجہ سر بلند خان نے قبول کر لی۔ اس پوغل راجپوت خاندان کا ایک فرد راجہ عزیز عرف بلا حیات ہے۔ وہ علاقہ سرساوہ کی ڈھوک "سیری" میں آباد ہے۔اب پوغل خاندان کی منگرال قبیلے سے رشتہ داریاں بھی ہو چکی ہیں۔

راجہ سربلند خان عرف پہاڑ خان والئی سرساوہ کے ہاں دو فرزند تولد ہوئے۔ بڑے بیٹے کا نام رزاق خان اور چھوٹے بیٹے کا نام قائم علی خان تھا۔ علاقہ سرساوہ میں رہنے والے تمام منگرال جو مقامی ہیں، وہ رزاق خان کی اولاد سے ہیں۔ جب کہ قائم علی خان نے یہاں سے ہجرت کی۔ تاریخ اس کی جائے ہجرت اور اولاد کے بارے میں مکمل خاموش ہے۔ یوں آج تک یہ راز طشت از بام نہ ہو سکا کہ راجہ قائم علی خان کی اولاد کہاں آباد ہے۔

راجہ سربلند خان کی وفات کے بعد انھیں گوڑاہ سرساوہ کے قبرستان میں دفن کیا گیا اور ان کی قبر نمبردار راجہ جھلا خان کے گھر کے بلکل سامنے واقع ہے۔ قبر کو چند سال پہلے عدالت خان آف میراہ کے بیٹے راجہ شوکت خان نے دوبارہ تعمیر کر کے تختی لگوائی تھی۔
منگرال قبیلے کی یہ صدیوں پرانی ریت ہے کہ جب کوئی مرد شادی کرتا ہے تو بارات لے کر سب سے پہلے اپنے جدِ امجد راجہ سربلند خان عرف پہاڑ خان کے قبر پر حاضری دیتاہے اور فاتحہ خوانی کے بعد وہ دلہن کے گھر کی راہ لیتا ہے۔
راجہ سر بلند خان کی اولاد پہلی بیوی سے کٹھار سہنسہ اور دوسری بیوی سے سرساوہ میں آباد ہے۔ جب کہ آپ کے چھوٹے بھائی راجہ شیر خان کی اولاد پیڑیاں، چچلاڑ، دگالہ، نمب کوٹلی جاگیر اور چھوچھ میں آباد ہے۔ یوں راجہ سینس پال کے بڑے بیٹے راجہ دان خان کی اولاد ان علاقوں میں بکثرت آباد ہے۔ 

بابا سائیں کالو بادشاہ

بابا سائیں کالو بادشاہ علاقہ سرساوہ میں بیسویں صدی کے شروع میں آئے جب کہ آپ یہاں سائیں کالو کے نام سے مشہور ہوئے۔ آپ کے رنگت بھی سیاہ تھی اور آپ سیاہ رنگ کا لمبا چغہ زیب تن کیے ہوئے تھے۔ شاید اسی وجہ سے سائیں کالو مشہور ہوئے۔
آپ کی جائے پیدائش ضلع میر پور کی تحصیل ڈڈیال کے ایک دور افتادہ گائوں "پپلی گھنیر" ہے۔ آپ عین جوانی میں ہجرت کر کے سرساوہ تشریف لائے اور لوگوں کی دین کی تبلیغ اور روحانیت کا درس دینا شروع کیا۔ آپ وقت کے کامل اولیاء میں شمار ہوتے ہیں اور کئی کرامات کا آپ سے ظہو ہوا۔ آپ کے ہاتھ میں ایک عصا [ڈنڈا] ہوتا تھا جو کسی کوڑ کے مریض کے جسم پر پھیرتے تو وہ بیماری اللہ کے فضل و کرم سے رفع ہو جاتی تھی۔

آپ کا معمول تھا کہ کسی کے ہاں بھی نہ ٹھہرتے، البتہ علاقہ سرساوہ میں نالہ رنگڑ سے کوٹلہ تک کا علاقہ آپ کے معمول میں تھا کہ چکر لگاتے رہتے تھے۔ جہاں کوئی بیمار ہوتا تیمارداری کرتے اور اس کی صحت یابی کے لیے دعا فرماتے۔
آپ دراز قد تھے، آواز بھاری تھی اور بعض اوقات گرج دار آواز میں بھی گفتگو فرماتے تھے۔ آپ ڈھول کے بڑے شیدائی تھے اور شاہولی مصلی جس کو آپ نے "سائیں شاہولی" کا خطاب دے رکھا تھا، آپ کے ساتھ ساتھ رہتا تھا۔

آپ عموماً لوگوں کی محفل میں کم ہی بیٹھتے تھے۔ آپ کا لباس اور کھانا پینا انتہائی سادہ تھا۔ آپ کے پاس اکثر علاقہ کے کتے جمع رہتے تھے اور جب آپ علاقہ کا چکر لگاتے تو وہ بھی آپ کے ساتھ ساتھ چلتے۔ کسی کو مجال نہ تھی کہ کوئی ان کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتا۔
آپ کا مزار سرساوہ میں ہے جہاں ہزاروں لوگ زیارت کے لیے آتے ہیں۔ محکمہ اوقاف نے آپ کی قبر پر جدید طرز کا مزار تعمیر کروایا ہے جو آنے والی نسلوں میں آپ کی عظمت کی یاد دلاتا رہے گا۔ آپ کا عرس ہر سال بڑی دھوم دھام سے منایا جاتا ہے۔ جس میں آپ کے ہزاروں مردین اور عقیندت مند حاضری دیتے ہیں اور فیض حاصل کرتے ہیں۔  

       

بلاگرراجہ ممتاز احمد

        نوٹ: بلاگر کا کتاب کے کسی بھی متن سے متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں ہے۔
  

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

MANGRAL RAJPOOT BOOK PART 9

منگرال راجپوت کتاب پارٹ 11

MANGRAL RAJPOOT BOOK PART 7