منگرال راجپوت کتاب پارٹ 11

کوٹلی منگرالاں


مختلف محققین نے اس بارے میں اپنی آراء لکھی ہے۔ بعض کے نزدیک پہاڑوں کے دامن میں ایک وسیع میدان کی وجہ سے "کوہ تلی" نام تھا جو بگڑ کر "کوٹلی" بن گیا۔

دوسرے مئولف کی رائے میں کوٹلی کے منگرال حکمران راجہ دیال خان کی وفات کے بعد اس کے فرزند راجہ شاہ سوار خان نے موضع دکھاری کے پہاڑ "ہالا کیری" کی ڈھلوان پر کوٹ آباد کیا۔ بعد میں علاقے کا نام بدل کر کوٹلی بن گیا۔ راجہ شاہ سوارخان کوٹلی کا آخری مسلمان حکمران تھا جس نے دو مرتبہ سکھوں کےحملے کا منہ توڑ جواب دیا۔ پہلی بار 1812ء میں جبکہ دوسری بار 1814ء میں رنجیت سنگھ سے معرکہ ہوا۔ راجہ شاہ سواار خان چونکہ منگرال قبیلے سے تعلق رکھتا تھا اس لیے اس کے خاندان کے لوگ کثیر تعداد میں یہاں آباد تھے۔ لوگ اپنے حکمران سے بہت خوش تھے اور اس کے ساتھ سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑے تھے۔  راجہ شاہ سوار خان کی کوئی نرینہ اولاد نہ تھِی۔ وہ اپنی رعایا سے بہت پیار کرتا تھا۔

سنہ 1816ء میں سکھوں نے تیسرا اور فیصلہ کن حملہ کوٹلی منگرالاں پر کیا۔ وہ جدید اسلحہ سے لیس تھے اور ان کے پاس کمک بھی زیادہ تھی۔ میں سکھوں نے تیسرا اور فیصلہ کن حملہ کوٹلی منگرالاں پر کیا۔ وہ جدید اسلحہ سے لیس تھے اور ان کے پاس کمک بھی زیادہ تھی۔ انھوں نے کوٹلی منگرالاں پر قبضہ کر لیا اور حکمران راجہ شاہ سواار منگرال کو کرفتار کر کے لاہور لےگئے جہاں سکھوں کا تحتِ شاہی تھا۔ آپ کو قلعہ لاہور میں بند کر دیا گیا جہاں کچھ عرصہ قید رہنے کے بعد راجہ شاہ سوار وفات پا گئے۔ اور وہیں قلعے کے اندر گمنام قبر میں دفن کر دئے گئے۔

سکھوں نے راجہ شاہ سوار منگرال کی بیوی "ہاشو رانی" کو موجودہ شہر کوٹلی کے پاس جاگیر دے دی جو آج بھی ریکارڈ میں ہاشورانی کے نام سے چلی آ رہی ہے۔ ہاشورانی نے یہاں وفات پائی اور یہی دفن ہوئیں۔ ان کی قبر کے نقوش اب مٹ چکے ہیں۔ منگرال قبیلہ کے باقی لوگوں کو علاقہ بدر کر دیا گیا تا کہ منگرال قوم کی طاقت کو ختم کر دیا جائے۔ سکھوں نے "کوٹلی منگرالاں"  کا نام بھی تبدیل کر کے صرف "کوٹلی" رکھ دیا جو اب تک چلا آ رہا ہے۔

درحقیقت کوٹلی سنسکرت زبان کا لفظ ہے۔ پہلے وقتوں میں  علاقے کی زبان سنسکرت تھی۔ سنسکرت زبان میں کوٹلی کا مطلب "ڈیرہ" یا "رہائش" ہے۔ جس طرح کوٹلی ستیاں "قومِ ستیاں" کا ڈیرہ، کوٹلی لوہاراں "لوہاروں کا ڈیرہ"، کوٹلی سوہلناں "قوم سہلن کا ڈیرہ"، اور کوٹلی افغاناں "قوم افغان کا ڈیرہ" وغیرہ۔ چونکہ یہاں منگرال قوم کی اکثریت چلی آ رہی تھی اس لیے یہ کوٹلی منگرالاں کے نام سے مشہور ہوئی جس کا مطلب "منگرال قوم کا ڈیرہ" تھا۔ بعد میں سکھوں کے دور میں نام صرف کوٹلی رہ گیا۔

یہ دلیل سب سے مضبوط ہے کہ کوٹلی لوہاراں میں کوئی پہاڑ نہیں ہے پھر بھی اس کا نام کوٹلی لوہاراں ہے لہٰذا کوٹلی سنسکرت زبان سے لیا گیا لفظ ہے اور "کوٹلی منگرالاں" منگرال قوم کا ڈیرہ تاریخی حقائق کی رو سے درست ہے۔

کوٹلی کے مشرق میں راجوری اور مینڈھر، مغرب میں ضلع راولپنڈی [پاکستان] کی تحصیل کہوٹہ، شمال میں ضلع پونچھ اور جنوب میں ضلع میرپور واقع ہے۔ شہر کی جانبِ مغرب آدھا کلومیٹر کے فاصلے پر دریائے پونچھ اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ بہہ رہا ہے جس کے ساتھ ایک خوبصورت پارک بھی ہے۔

سنہ 1981ء کی مردم شماری کے  مطابق ضلع کوٹلی کی کل آبادی 364558 نفوس پر مشتمل تھی جب کہ کل رقبہ 407421 ایکڑ ہے۔ 1998ء کی مردم شماری کے مطابق آبادی چھ لاکھ کے لگ بھگ تھی۔ 2011ء میں یہ اعداد و شمار تقریباََ آٹھ لاکھ ہیں۔ ضلعی صدر مقام سطح سمندر ہے 1960 فٹ بلند ہے۔

ضلع کوٹلی کو تحصیل کا درجہ کب ملا، تاریخی طور پر کوئی شواہد نہ ہیں اور محکمہ مال کے ریکارڈ میں بھی کوئی ثبوت نہیں ہے۔ البتہ کوٹلی کا پہلا بندوبستِ ارضیات -22-1921 بکرمی بمطابق 65_1864ء ہوا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ کوٹلی کو تحصیل کا درجہ پہلے مل چکا تھا۔

دوسرا بندوبستِ ارضی 61-1960ء میں ہوا تھا۔ مہاراجہ کے خلاف مسلح تحریک میں 1947ء کے دوران کوٹلی پر حملہ کے دوران جب ہندوئوں نے علاقہ خالی کیا تو بھاگنے سے پہلے انھوں نے اپنی املاک اور دستاویزات کو آگ لگا دی تھی۔ یو ں ہم اس قیمتی ریکارڈ سے محروم ہو گئے۔ یہ ریکارڈ آج بھی مقبوضہ کشمیر میں جموں کے مال خانے میں محفوظ ہے مگر وہاں سے ریکارڈ کا حصول جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔

تیسرا بندوبستِ ارضیات 1964 میں چودھری میر زمان خان مہتمم بندوبست کی نگرانی میں شروع ہوا اس کا بیشتر کام 1976ء میں مکمل کر لیا گیا تھا۔ عملہ کے پلندری منتقل ہونے کے بعد بقیہ کام محمکہ مال کے اہلکاروں نے مکمل کیاتھا۔ 

سکھوں کے دور میں وادی کوٹلی منگرالاں کا نقشہ کچھ ہوں تھا:
سنہ 1873ء میں یہاں 284 مکانات تھے۔ چند اینٹوں سے بنے تھے جب کہ زیادہ تر ایک منزلہ گارے اور گول پتھروں کے بنے ہوئے کچے مکانات تھے۔ جن کی چھتیں چپٹی تھی اور انتہائی خستہ حال تھے۔ قصبے میں تحصیل دار اور کوتوالی کے دفاتر تھے۔ قصبے میں ہندوئوں کے دو مندر تھے۔ ایک دھرم سالہ اور دو مساجد تھیں جن میں سے ایک کھنڈر کی صورت اختیار کر چکی ہے۔

یہاں پر بہت سی پن چکیاں لگی تھی جو ندی کے ساتھ ساتھ تیار کردہ پانی کی نالیوں کے زریعے چلتی تھیں۔ پونچھ دریا کو کشتیوں کے ذریعے عبور کیا جاتا تھا۔ ایک کشتی گھاٹ، قصبے کے اوپر کی جانب کہ دوسرا کشتی گھاٹ قصبے کے نچلے حصہ کی جانب تھا جہاں سے دریا عبور کرایا جاتا تھا۔ دریا اگرچہ چوڑا تھا لیکن اس کا پانی زیادہ گہرا نہیں تھا۔ سردیوں میں تو پانی اور بھی کم ہو جاتا ہے۔ مقامی باشندوں اور تجارت پیشہ لوگوں کی فہرست درج ذیل ہے:

         600                                 ہندو مرد
مسلمان مرد                             200
ہندوئوں کی دکانیں                      96
مسلمانوں کی دکانیں                    6
منگرال قبیلہ کے مسلمان              60
زرگر ہندو                                14
گھوڑا بان                                 10
دھوبی                                     6
انگریز                                     6
قصائی                                     1
مالی                                        1
موچی                                      2
جاروب کش                              3
چوکیدار                                   3
کمہار                                      11
ترکھان                                    1
لوہار                                       2
پن چکیوں پر کام کرنے والے       16
ڈھول بجانے والے                      4

قصبے میں ایک کنواں اور چار تالاب تھے جن کا پانی انتہائی گندہ تھا۔ صاف پانی دریا سے حاصل کیا جاتا تھا جو زیادہ فاصلے پر نہیں تھا۔ کوٹلی کی آب و ہوا بہت گرم تھی۔ دریائے پونچھ کے ساتھ ساتھ تنگ وادی سے قصبے میں داخل ہونے والی ٹھنڈی ہوا کوٹلی کی گرمی کو کم کر دیتی ہے۔ یہ علاقہ درختوں سے خالی تھا البتہ تھوڑے بہت سایہ دار درخت قصبے میں موجود تھے۔ ڈوگرا دور میں تحصیل کوٹلی 228 موضعات پر مشتمل تھی۔ لائن آف کنٹرول قائم ہونے کے بعد وادی بناہ کے 11 موضعات مقبوضہ علاقہ میں چلے گئے۔ یوں پرانی تحصیل کوٹلی کے 217 موضعات باقی رہ گئے تھے۔ تحصیل راجوری کے دو موضعات "مٹھی دھڑہ" اور "سوہانہ" لائن آف کنٹرول قائم ہونے کے بعد علاقے میں شامل ہوئے اور موضعات کی تعداد 219  ہو گئی۔ بعد میں تحصیل فتح پور تھکیالا [نکیال] انیس موضعات پر مشتمل تحصیل عمل میں لائی گئی۔  

ضلع  کوٹلی کے کل 237 موضعات تھے۔ چند برس پہلے موضع "آئین پانہ" کو تحصیل سہنسہ ضلع کوٹلی سے انتظامی بہتری کے لیے خارج کر کے ضلع  سدھنوتی [پلندری]  میں شامل کر لیا گیا۔ دورانِ بندوبست سال 76-1964ء دو موضعات کو ایک دوسرے میں ضم کر دیا گیا تھا۔ اب ضلع کوٹلی 234 موضعات پر مشتمل ہے۔

سنہ 22-1921ء میں کوٹلی کی پہلی سڑک بنی جو میرپور سے اسلام گڑھ [اکال گڑھ]، پیر گلی، پونا سے گزر کر "سریا" اور پھر وہاں سے براستہ ٹائیں، کھوئی رٹہ، کوٹلی اور پھر یہاں سے تتہ پانی، منڈھیر اور مدار پور سے پونچھ جاتی ہے۔ یہ سڑک کچی تھی اس کے علاوہ اور کوئی سڑک نہ تھی۔ 1947ء کی جنگ کے بعد "سریا" والا حصہ مقبوضہ علاقہ میں چلا گیا اور سڑک بند ہو گئی۔ 1948ء میں براستہ بڑالی، ناڑ، راجدھانی روڈ تعمیر کر کے لنک  ملایا گیا۔

سنہ 1947ء میں جن نامور شخصیات نے معرکہء کوٹلی میں حصہ لیا، ان میں فاتح راجوری راجہ سخی دلیر خان، کرنل راجہ محمود احمد خان، راجہ غلام حسین عرف راجہ مجاہد، راجہ دلاور خان جیسے نامور لوگ سرِفہرست تھے، جنھوں نے بغیر گولی چلائے کوٹلی شہر پر قبضہ کیا اور دشمن کو مار بھگایا۔ یہ ان کی ذہانت اور جنگی حکمتِ عملی کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ کوٹلی شہر مکمل طور پر مسلمانوں کے قبضے میں آجانے کے بعد امن و امان کے لیے مختلف کمیٹیوں کا قیام عمل میں لایا گیا تو ان شخصیات کی سیاسی بصیرت ہی تھی کہ کوٹلی ایک پر امن شہر بن گیا۔

ضلع کوٹلی اب پانچ ڈویژن پر مشتمل ہے، جن میں سب ڈویژن کوٹلی، سب ڈویژن سہنسہ، سب ڈویژن چڑہوئی، سب ڈویژن کھوئی رٹہ اور سب ڈویژن فتح پور تھکیالہ [نکیال] شامل ہیں۔ ضلع کوٹلی میں اب تک 12 قانون گوئیاں اور 68 پٹوار حلقہ جات ہیں۔

تحصیل کوٹلی کو 1952ء میں سب ڈویژن کا درجہ ملا۔ مگر تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا کہ سب ڈویژن کا عملہ، اسسٹنٹ کمشنر اور پولیس کے آپس کے جھگڑے کے باعث واپس بلا لیا گیا۔ یوں یہ سب ڈویژن ختم کر دیا گیا تھا۔ 1962 میں ایک بار پھر تحصیل کوٹلی کو سب ڈویژن کا درجہ ملا۔ اس سب ڈویژن کے سب سے پہلے اسسٹنٹ کمشنر سردار غلام نبی عباسی تھے جو دھیر کوٹ کے رہائشی تھے

سنہ 1974ء میں سردار عبدالقیوم خان صدر ریاست تھے۔ جب کہ سردار سکندر حیات خان وزیرِمال تھے۔ سردار سکندر حیات خان جو آج کے ضلع کوٹلی کی تعمیر و ترقی کے ہیرو ہیں، کی کاوشوں سے سب ڈویژن کو ضلع کا درجہ ملا۔ ضلع کوٹلی کے پہلے ڈپٹی کمشنر چودھری محمد رشید نے یکم ستمبر 1974 کو اپنے عہدے کا چارج سنبھالا تھا۔ ضلع کوٹلی کے بانی سردار سکندر حیات خان [سابق صدر و وزیرِاعظم] اکثر اس بات کا زکر کیا کرتے تھے کہ کوٹلی کو ضلع بنوانے میں ان کی کوششوں کے پیچھے چودھری رحیم داد خان ساکن چوکی منگ [پہلے چیف جسٹس آزاد کشمیر سپریم کورٹ] اور راجہ اکبر داد خان ساکن سہر منڈی، سہنسہ [پہلے کمشنر انکم ٹیکس] تھے جنھوں نے تمام تکنیکی امور کی بروقت تکمیل کی تھی۔

ضلع کوٹلی میں تعلیم کا معیار بہت بلند ہے۔ گورنمنٹ اسکولز، کالجز کے ساتھ ساتھ پرائیویٹ سیکٹر میں بھی بے شمار تعلیمی ادارے قائم ہیں جو آنے والی نسلوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کر رہے ہیں۔ ضلع کوٹلی میں گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ بوائز کالج اور گرلز کالج کے علاوہ آزاد جموں کشمیر یونیورسٹی کا کمپس بھی ہے۔ یہاں سے ہزاروں طلبہ ہر سال فارغ التحصیل ہوتے ہیں۔

صحت کے میدان میں جہاں ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال قائم ہے- وہاں ہارٹ سنٹر، ڈی ایچ او سنٹر کے علاوہ مختلف ڈسپنسریاں اور پرائیویٹ ہسپتال عوام الناس کو صحت کی سہولیات بہم پہنچا رہے ہیں۔ انتظانی لحاظ سے اسسٹنٹ کمیشنر کا دفتر، سول جج کی عدالت، سیشن جج کی عدالت، ہائی کورٹ کا سرکٹ بینچ، ڈپٹی کمیشنر آفس، سپرنٹینڈینٹ پولیس، سٹی تھانہ پولیس بھی قائم ہیں۔
ضلع کوٹلی کی وجہ شہرت جہاں تعمیر و ترقی ہے وہاں اسے مدینتہ المساجد  بھی کہا جاتا ہے۔ حضرت قبلہ پیر صادق صاحب مدظلہ علیہ نے گلہار شریف سے درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا جس نے مرزائیت کا خاتمہ، سودی کاروبار کی لعنت اور باہمی رنجشوں کو ختم کیا، وہیں آپ نے جگہ جگہ مساجد تعمیر کروائیں۔ مساجد کی تعمیر نہ صرف کوٹلی شہر میں کی گئی بلکہ پورے آزاد کشمیر اور پاکستان میں تعمیر کی گئیں۔ ان مساجد سے ہزاروں حفاظِ کرام فارغ التحصیل ہیں جو مختلف مساجد میں امامت کے فرائض انجام دینے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔

حضرت قبلہ پیر صادق مدظلہ علیہ 31 دسمبر 2009ء میں اس دنیائے فانی سے رخصت ہوئے۔ آپ کے مریدین کی تعداد لاکھوں میں ہےجو دنیا کے کونے کونے میں پھیلے  ہوئے ہیں۔ حضرت صاحب مدظلہ علیہ کے دو فرزندانِ ارجمند ہیں۔ بڑے صاجزادے حاجی پیر عبدالوہاب صاحب عرف حاجی پیر صاحب مدظلہ علیہ "کالا دیو" ضلع جہلم میں روحانیت کا فیض پھیلہ رہے ہیں جب کہ چھوٹے صاحب زادے پیر زاہد سلطانی صاحب مدظلہ علیہ کوٹلی میں دینی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ 

لاگرراجہ ممتاز احمد 

نوٹ: بلاگر کا کتاب کے کسی بھی متن سے متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں ہے۔  
 

تبصرے

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

MANGRAL RAJPOOT BOOK PART 9

MANGRAL RAJPOOT BOOK PART 7