منگرال راجپوت کتاب پارٹ 9
سہنسہ
سہنسہ ایک وادی کی مانند ہے جس کے مشرق میں دریائے پونچھ، مغرب میں وسیع میدان، شمال اور جنوب میں پہاڑیاں ہیں۔ سطح سمندر سے 2262 فٹ بلند ہے۔ اس کی آبادی تقریباََ 63000 نفوس پر مشتمل ہے۔ سہنسہ میں ایک ٹاءون، پانچ یونین کونسلیں اور 71 موضعات ہیں۔ سہنسہ کی سب سے بڑی یونین کونسل "اینٹی منگرالاں" ہے۔
سہنسہ کی وجہ تسمیہ کچھ یوں ہے کہ اس کا نام منگرال قبیلہ کے یہاں موجود جدِامجد راجہ سینس پال کی نسبت سے ہے۔ راجہ سینس پال نے اس علاقے پر بہت عرصہ حکمرانی کی۔ راجہ سینس پال کو جب1424ء میں ملک مسعور وزیرِ اعظم کشمیر نے دعوت اسلام دی تو نہ صرف آپ نے خود اسلام قبول کیا بلکہ اپنی رعایا کو بھی دائرہ اسلام میں لے آئے۔ راحجہ سینس پال نے قبول اسلام کے بعدبھی اپنا نام عوام کے اصرار پر تبدیل نہ کیا۔ آپ کی رعایا آپ سے بے حد پیار کرتی تھی۔ راجہ سینس پال نے جب یہاں پڑائو کیا تو اس علاقے پر مہترائوں کی حکومت تھی جس کو مارنے کے بعد آپ نے یہاں اپنی حکومت کا اعلان کیا اور موجودہ سہنسہ شہر سے جانب مغرب "سائینلہ" کو اپنا رادلحکومت بنایا۔ بعد میں علاقے کا نام سہنسہ رکھا گیا جو آپ کی نسبت سے تھا۔
سہنسہ میں بسنے والے قبائل میں منگرال راجپوت، جاٹ چودھری، گُجر چودھری، سُدھن، سادات، مغل [مستری، موچی، تیلی]، قریشی ملک اور کھوکھر شامل ہیں۔ سہنسہ میں بڑے نامی گرامی لوگ پیدا ہوئے جنھوں نے ایسے تاریخی کارِ ہائے نمایاں سر انجام دیے جو رہتی دنیا تک یاد رکھے جائیں گے۔ ان شخصیات میں صوبیدار راجہ سردار حیات علی خان، کیپٹن راجہ سردار خان [1945 میں او بی آئی ایوارڈ یافتہ] کیپٹن چودھری نتھا خان [گجر]، صوبیدار سردار بارُو خان، لیفٹیننٹ راجہ ولی داد خان، لیفٹیننٹ راجہ کرم داد خان، ذیلدار راجہ کرم داد خان، [پہلے پرجا سبھا کے نامزد ممبر 1942ء]، راجہ اکبر داد خان [پہلے مسلم گریجویٹ1938ء تحصیل کوٹلی]، راجہ محمد ایوب خان [پہلے ریاستی اکائونٹنٹ ممبر انکم ٹیکس اپیلنٹ ٹریبیونل] شامل ہیں۔ علاقہ سہنسہ میں چند بڑے سیاستدانوں نے جنم لیا۔ ان میں راجہ فضل داد خان [تین بار ممبر اسمبلی]، چودھری مظہر حسین [سابق ڈپٹی اپوزیشن لیڈر]، راجہ منشی خان، ڈاکٹر محمود ریاض [پکھڑال راجپوت]، چودھری محمد یعقوب [گجر]، سید غلام رضا نقوی، سردار بشیر پہلوان، راجہ ضیاءالحمید خان، چئیرمین راجہ محمود داد خان کے علاوہ راجہ عبدالمجید خان قابلِ ذکر شخصیات ہیں۔
ء32-1931 کی تحریکِ عدم ادائیگی مالیہ کے دوران میں علاقہ سہنسہ کے عوام نے بھی بھر پور حصہ لیا۔ شیخ محمد عبداللہ [صدر نیشنل کانفرنس]، مولانہ عبداللہ سیاکھوی اور تحریکِ عدم ادائیگی مالیہ کے روحِ رواں راجہ محمد اکبر خان بھی یہاں تشریف لائے اور عواام سہنسہ نے ان کے استقبال کے لیے کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔
مہاراجہ کی حکومت کے خلاف مقامی لوگوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ مجاہدین دو حصوں میں تقسیم کیے گئے۔ ایک حصے کی کمانڈ کیپٹن چودھری نتھا خان کر رہے تھے جو فاتح راجوری راجہ سخی دلیر خان سے منسلک تھی۔ دوسرے حصے کی کمانڈ لیفٹیننٹ راجہ کرم داد خان کر رہے تھے جو کرنل راجہ محمود خان سے منسلک تھے اور ان سے ہدایات لے کر ایکشن کرتے تھے۔ جب مہاراجہ کے خلاف محاز زوروں پر تھا۔ اسی دوران چند مجاہدین نے جامِ شہادت نوش کیا جن میں صوبیدار سردار بارو خان سرفہرست ہیں۔
نوجوان نسل اپنے اسلاف کے کارناموں پر چلتی ہوئی اب بھی عملی طور پر ہندستان کے خلاف برسرِ پیکار ہے۔ علاقہ کے چند جوانوں نے مقبوضہ کشمیر میں ہندو فوج کے خلاف لڑتے ہوئے جامِ شہادت نوش کیا۔ ان میں راجہ ارشد محمود شہید، نصیر احمد شہید اور راجہ اشفاق عاصم شہید شامل ہیں۔
شہنسہ میں تعلیمی میدان میں انقلابی تبدیلیاں آئی ہیں۔ علاقہ میں جموں سیکٹر کا سب سے پرانا پرائمری سکول جو 1890ء میں قائم ہوا تھا۔ جب کہ یہاں پونچھ سیکٹر کا بھی سب سے پرانا پرائمری سکول موجود ہے۔ یہ سکول صوبیدار سردار حیات علی خان نے 12-1911ء میں ٹھلی کے مقام پر منظور کروایا تھا۔ اب علاقے میں 48 مردانہ پرائمری سکول ہیں جبکہ خواتین کے پرائمری سکولوں کی تعداد بھی اسی کے لگ بھگ ہے۔ سہنسہ میں پہلا ہائی سکول 64-1963ء میں بنا تھا جس کے پہلے ہیڈ ماسٹر مولوی عبدالشکور تھے۔ جب کہ پہلا انٹر کالج1990ء میں قائم ہوا جو اب ڈگری کالج سہنسہ ہے۔ گرلز انٹرکالج سہنسہ 1990ء میں قائم ہوا جس کے پہلے پرنسپل پروفیسر چودھری محمد صدیق تھے، یہ ادارہ 2003ء میں گرلز ڈگری کالج بن گیا۔ سہنسہ میں درجنوں پرائمری اور ہائی سکول پرائویٹ سیکٹر میں قائم ہیں جب کہ چند پرائویٹ کالج بھی تعلیم کے میدان میں گراں قدر خدمات سرانجام سے رہے ہیں۔
سہنسہ کو تحصیل کا درجہ 1974 میں دیا گیا۔ سول و مالی عدالتوں کا قیام بھی عمل میں لایا گیا۔ تحصہل سہسہ کے پہلے سب جج چودھری محمد اسحاق تھے جب کہ پہلے تحصیل قاضی چودھری محمد بشیر تھےعلاقہ کے پہلے سب ڈویثنل مجسٹریٹ[ SDM] قاضی محمد لطیف، تحصیلدار میرغلام نبی، اور نائب تحصیلدار محمد اجمل خان تھے۔ 2009ء میں یہاں سب ڈویژن برقیات کا قیام عمل میں لایا گیا جس کے پہلے ایس ڈی او برقیات سلیم اعوان اور پہلے ایکسئین حفیظ بٹ تھَے۔
سہنسہ کو1984 ء میں ٹائون کمیٹی کا درجہ دیا گیا، جس کے پہلے چئیرمین سردار نزر محمد تھے۔ 1998ء میں جب اسے میونسپل کارپوریشن کا درجہ دیا گیا تو اس کے پہلے ایڈمنسٹریٹر سردار سرفراز خان تھے۔
سہنسہ نے جہاں تعلیم اور دیگر وشعبہ جات میں ترقی کی وہاں صحت کے شعبہ میں تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال بھی قائم ہے۔ علاقہ میں چند ویلفئیر ٹرسٹ بھی قائم ہیں جو صحت کی سہولیات بہم پہنچانے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ THQ ہسپتال میں بوستان ٹرسٹ کا قیام صحت کے شعبے میں ایک اہم سنگِ میل ہے۔
رسوم و رواج کے حوالے سے لوگ قدامت پسند ہیں۔ ایک دوسرے کی غمی خوشی میں شریک ہوتے ہیں۔ شادی بیاہ میں ڈھول کے علاوہ شعروشاعری کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے۔ رشتے ناتے زیادہ تر برادریوں میں ہی کیے جاتے ہیں۔ زیادہ تر لوگ انگلینڈ، سپین، سعودی عرب، دبئی اور کویت میں بسلسلہ روزگار مقیم ہیں۔ مالی طور پراکثریت آبادی مستحکم ہے۔
سہنسہ میں قدرتی طور پر کوئی پھل دار درخت نہیں اگتے۔ البتہ امرود، آم، خوبانی اور کیلے کے درخت کہیں کہیں لگائے گئے ہیں۔ سہنسہ بازار میں زیادہ تر کاروباری لوگ مقیم ہیں جبکہ چند علاقہ پنجاب سے بھی یہاں آکر کاروبار کر رہے ہیں۔
وکلاء، ڈاکٹرز، انجینئیر اور آرمی کے علاوہ بہت سے لوگ شعبہ تعلیم سے بھی منسلک ہیں اور اپنے اپنے پیشے میں عوامِ علاقہ کی خدمت کر رہے ہیں۔ تعمیر و ترقی میں راجہ فضل داد خان [مرحوم] ، راجہ عبدالمجید خان [ مرحوم] اور چودھری مظہر حسین کے علاوہ حلقہ نمبر 3 سے لگا تار چار بار منتخب ایم ایل اے و وزیرِ حکومت راجہ نصیر خان کا بھی اہم کردار ہے۔
بلاگرراجہ ممتاز احمد
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں