منگرال راجپوت کتاب پارٹ 10

 سرساوہ

 علاقہ سرساوہ ایک ویلی کی مانند ہے جس کے تینوں اطراف پہاڑیاں ہیں جب کہ جنوب کی سمت "نالہ رنگڑ"  اس کی خوبصورتی دوبالہ کرتا ہے۔ علاقہ کے مشرق سے پہاڑی سلسلہ اس کو کوٹلی سے جدا کرتا ہے۔ جب کہ شمال کی جانب پہاڑیاں ضلع سدھنوتی سے اس کی سرحدوں کو جدا کرتی ہے۔ مغرب کی طرف بہنے والا نالہ رنگڑ نہ صرف جنوب سے علاقہ کی سرحدیں جدا کرتا ہے بلکہ اس نالہ کا پانی کسانوں کی کھیتیوں کو بھی سیراب کرتا ہے۔

سرساوہ کا نام راجہ سر بلند خان عرف پہاڑ خان نے پندھرویں صدی کے آخر میں رکھا۔ راجہ سر بلند خان نے  علاقے پر جب قبضہ کیا تو یہاں پوغل راجپوت رہتے تھے۔ راجہ سر بلند خان عرف پہاڑ خان نے یہاں پوغل قوم کو شکست دے کر اپنی حکومت قائم کی اور اس ویلی کو اپنے نام سے منسوب کر کے سرساوہ کا نام رکھا۔ اس علاقہ میں منگرال قبیلہ کے جدِ امجد، راجہ سربلند خان ہی ہیں۔ اس سے پہلے یہ قوم صرف سہنسہ میں آباد تھی۔

سرساوہ پانچ موضعات پر مشتمل ہے۔ وادی میں موضع سرساوہ، موضع کرنوٹی، موضع سروعہ، موضع چک ناصر اور موضع گلوئیں شامل ہیں۔ ان موضعات کا رقبہ الترتیب 36434 کنال 18 مرلے، 8160 کنال 18 مرلے، 2421 کنال 16 مرلے، 20381 کنال 19 مرلے، اور 309 کنال ہے۔ یوں پٹوار حلقہ سرساوہ کا کل رقبہ 67713 کنال 10 مرلے ہے۔ سرساوہ کی آبادی  1988ء کے مردم شماری کے مطابق 7000 نفوس پر مشتمل تھی جبکہ 2010،11 کی خانہ شماری کے مطابق اس کی آبادی 13100 نفوس ہے۔ سرساوہ کی سطح سمندر سے بلندی 2176 فٹ  ہے

علاقہ سرساوہ کی تعمیر و ترقی میں یو تو یر فرد کا حصہ ہے لیکن اگر چند اشخاص کے نام نہ لیے جائیں تو تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی۔ پہلی شخصیت راجہ سخی دلیر خان جنھوں نے یہ علاقہ آزاد کروایا [مکمل احوال مضمون "راجہ سخی دلیر خان" میں پڑھیے]

آزادی کے بعد علاقہ سرساوہ میں تعمیر و ترقی کی بنیاد رکھنے والی عظیم شخصیت چودھری نظام دین تھے جو جاٹ قبیلہ کے تعلق رکھتے تھے اور چک ناصر کے رہائشی تھے۔ چودھری نظام دین خان، بریگیڈئر حیات خان کے دورِ صدارت میں مشیرِ حکومت رہے۔ اںھوں نے بلاتحصیص تعمیر و ترقی کے منصوبہ جات رکھے۔ ان میں ویٹرنری ہسپتال، بوائیز انٹر کالج، رورل ہیلتھ سنٹر، سپلائی ڈپو آٹا، سرساوہ تا سگری روڈ، بجلی کی ترسیل، دفتر محکمہ زراعت، پوسٹ آفس، پہلی واٹر سپلائی کے علاوہ دیگر بے شمار منصوبے شامل تھے جو انھوں پایہ تکمیل کو پہنچائے۔

تیسری شخصیت راجہ محمد ایوب خان ہیں جنھوں نے بحیثیت ممبر ضلع کونسل انتہائی نا مساعد حالات میں بھی تعمیر و ترقی میں اپنا حصہ ڈالا [مکمل احوال مضمون "راجہ محمد ایوب خان" میں]

چوتھی شخصیت راجہ نصیر احمد خان سابق وزیرِ بلدیات و دہی ترقی ہیں جنھوں نے سرساوہ کی تعمیر و ترقی میں خصوصی دلچسپی لے کر ادھورے منصوبے پایہ تکمیل کو پہنچائے۔ انھوں نے گھرگھر سڑک، بجلی اور پانی مہیا کر کے علاقہ کی تقدیر بدل دی۔ [مکمل احوال مضمون "راجہ نصیر احمد خان" میں ملاحظہ کریں]۔

مہاراجہ کے دور سے بہت پہلے علاقہ سرساوہ تین ونڈوں میں تقسیم تھا۔ یہ ونڈیں راجہ سر بلند خان کے بڑے بیٹے رزاق خان کے تین بیٹوں سے منسوب تھیں۔ پہلی ونڈ عزت خانیاں کے نام سے مشہور تھی، یہ رزاق خان کے سب سے بڑے بیٹے پولا جی عرف عزت خانیاں سے منسوب تھی۔ دوسری ونڈ منجھلے بیٹے سوار خان عرف بوڑھے خانیاں اور تیسی ونڈ باجی خان عرف منجھی خان عرف منجھی خانیاں کے نام سے مشہور تھی اور آج بھی یہ لوگ اپنے آپ کو انھی ونڈوں میں جانتے پہچناتے ہیں۔  

مہاراجہ کے دور میں علاقہ سرساوہ کا نظم و نسق چلاے کے لیے ایک زیلدار اور چھ نمبردار مقرر تھے۔ نمبردار زیلدار کو جواب دہ تھا جب کہ زیلدار براہ راست مہاراجہ کو جواب دہ تھا۔ سرساوہ، پنجیڑہ، انوہی سرہوٹہ کے واحد زیلدار راجہ سیف علی خان آف گنگ ناڑہ تھے [مکمل احوال "زیلدار راجہ سیف علی خان" میں ملاحظہ کریں]۔ جب کہ چھ نمبرداروں میں بالترتیب راجہ غوث محمد خان آف ٹنگی دھڑہ، راجہ خاقان خان آف سید پور، راجہ ولی داد آف سید پور, راجہ محمد خان آف سید پور، راجہ مہند خان آف گواڑہ اور راجہ فقیرو خان آف نالی شامل تھے، یوں علاقہ سرساوہ بعد میں "چھ بنڈاں" سرساوہ مشہور ہو گیا۔

سرساوہ کی سب سے بڑی برادری منگرال راجپوت ہے جبکہ دیگر برادریوں میں بالترتیب جاٹ، گجر، سدھن، مغل [مستری، درزی، موچی، کاسبی، تیلی] جنھال، اعوان، ملک، قاضی، سنبھال اور کھوکھر شامل ہیں۔   

سرساوہ میں قدرتی طور پر کوئی پھل دار درخت نہیں اگتے، البتہ امرود، کیلا، آڑو، آلوچہ، خوبانی اور آم کے درخت کہیں کہیں لگائے گئے ہیں۔ جب کہ بیری کے درخت جا بجا نظر آتے ہیں۔

علاقہ سرساوہ میں دینی تعلیم کی طرف بھی خاص توجہ دی گئی ہے، اب تک سرساوہ میں پانچ مساجد میں نمازِ جمعہ کا اہتمام ہے جب کہ درجنوں چھوٹی بڑی مساجد موجود ہیں۔ ان میں بعض مساجد میں درس و تدریس کا سلسلہ بھی جاری ہے جہاں طلبہ حفظ کے ساتھ ساتھ درسِ نظامی اور دنیاوی تعلیم بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔  اس وقت علاقہ میں ایک درجن کے قریب حفاظِ کرام موجود ہیں۔ مساجد و دینی تعلیم کا نظام حضرت پیر صاحب گلہار شریف والوں کے زیرِ انتظام ہے، آپ کے وصال کے بعد آپ کے چھوٹے صاجزادے حضرت پیر زاہد سلطانی صاحب سارا نظام بطریقِ احسن سر انجام دے رہے ہیں۔

تعلیمی میدان میں علاقہ سرساوہ نے چند سالوں میں بہت ترقی کی ہے۔ اس وقت تک علاقہ میں چھ ایم بی بی ایس ڈاکٹرز اور چار انجینئیرز شامل ہیں۔ جب کہ منگرال قبیلہ کے افراد کی فہرست درج زیل ہے
۔1. پہلا میٹرک پاس                                  صوبیدار [ر] راجہ شہباز خان                    1954 ء
۔2. پہلا باضابطہ صوبیدار/آنریری لیفٹیننٹ     راجہ زمان علی خان                                 1931ء
۔3. پہلا تارک وطن انگلینڈ                          راجہ محمد خان عرف مندی خان بنی نگئی    1958ء

۔4. پہلا ایم-ایس-سی                                  راجہ محمد رفیق [سبجیکٹ سپیشلسٹ]          91-1990ء

۔5. پہلا ایم-ایس-سی                                   راجہ محمد رفیق [سبجیکٹ سپیشلسٹ]         91-1990ء
۔6. پہلا باضا
بطہ ایڈووکیٹ                          راجہ سرفراز احمد ایڈووکیٹ                      2005ء
۔7. پہلا درجہ اول میجسٹریٹ                       راجہ سرفراز احمد ایڈووکیٹ                      2006ء
۔8. پہلا پولیس آفیسر اے ایس آئی                  راجہ توقیر احمد [سب انسپکٹر]                   2004ء

۔9. پہلا انجینئر                                        راجہ محمد بشارت خان آف کرنوٹی              1997ء 

۔10. پہلا ڈاکٹر                                          کوئی نہیں
۔11. پہلا منتخب ممبر یونین کونسل                راجہ محمد اسماعیل خان                            1979ء
۔12. پہلا منتخب ممبر ضلع کونسل                 راجہ محمد ایوب خان                                1979ء

تعلیم کی وجہ سے لوگوں میں شعور بیدار ہوا اور ان کے رہن سہن میں بھی تبدیلی آئی۔ تعلیم نے نا صرف انھیں شعور دیا بلکہ ان کی مالی حالت بھی بہتر ہوئی۔ زیادہ تر لوگ کھیتی باڑی سے منسلک ہیں۔ جب کہ بہت سے لوگ سعودی عرب، کویت، دبئی، قطر، سپین اور انگلینڈ میں بسلسلہ روز گار قیام پزیر ہیں۔ علاقہ کی70 فیصد آبادی مالی طور پر مستحکم ہے۔ شلوار قمیص عموماََ زیب تن کرتے ہیں جب کہ کبھی کبھی پینٹ کوٹ بھی پہنا جاتا ہے۔

خوشی غمی میں لوگ ایک دوسرے کے ہاں شریک ہوتے ہیں۔ قبر کھدائی سے لے کر سارے کام لوگ مل جل کر کرتے ہیں۔ شادی بیاہ میں اپنے اپنے قبیلوں کو ترجیح دی جاتی ہے اور کہیں شاز و نادر ہی شادی دوسرے قبیلوں میں کی جاتی ہے۔ رسمِ مایوں کا خاتمہ علاقے کی سب سے بڑی کامیابی ہے جب کہ رسم مہدی بھی کی جاتی ہے۔ فوٹو گرافی اور فلم بندی کے بغیر شادی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ رسمِ میل، ولیمہ والے دن کا پر تکلف ضیافت شادی کی رسومات کا جزوِ اہم ہے۔

اولیائے کرام کے مزارات کی تعداد تقریباََ ایک درجن ہے۔ مشہور ہستی بابا سائیں کالو بادشاہ ہیں جن کا سالانہ عرس بڑی دھوم دھام اور عقیدت سے منایا جاتا ہے[مکمل احوال مضمون "سائیں کالوبادشاہ" میں پڑھیے]

علاقہ میں گورنمنٹ کے جو ادارے درس و تدریس میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں ان میں بوائیزو گرلز انٹر کالج، بوائیز و گرلز مڈل سکول، بوائیز و گرلز  پرائمری سکول سروعہ، بوائیز و گرلز  پرائمری سکول نگئِ، بوائیز و گرلز  پرائمری سکول  چک ناصر، بوائیز و گرلز  پرائمری سکول  چوہاڑہ، بوائیز مڈل سکول سندھیری کوٹ، بوائیز و گرلز  پرائمری سکول  کوٹلہ اور گرلز پرائمری سکول گلوئیں، بوائز پرائمری سکول ملکان چھیتر، گرلز پرائمری سکول سید پور، بوائز پرائمری سکول گلی، سونچل، چونا پانی اور سیاتھ شامل ہیں۔

پرائیویٹ طور پر چلنے والے اداروں میں سب سے بڑا نام "ریڈ فائونڈیشن اسکول" کا ہے جو جماعتِ اسلامی کی ذیلی تنظیم کے زیرِ انتظام ہے۔ اس کے علاوہ پانچ دیگر ادارے بھی تعلیم کے میدان میں نمایاں خدمات سر انجام دے رہے ہیں، جب کہ واحد نجی ادارہ جوہانی سکول ہے جو ریڈ فائونڈیشن کے زیرِ انتظام کام کر رہا ہے۔

وادی سرساوہ

حسین   و  جمیل  ہے  یہ  سرساوہ  وادی
اللہ   قائم   رکھے  اس  کی  صدا   آزادی
وادی  میں  ثمر و سایہ   دیتے  ہیں  شجر
اور رکھتی ہے دلکش آبشار و چشمہ وادی
حسن  جس  کا  کر دے  نظروں  کو  خیرہ
سرساوہ   کی   ہے   وہ   خوش نما   وادی
جرات  و ہمت  ہے  جن   کی  ضرب المثل
مائوں  کے  شیروں  کی ہے عروصہ وادی
جہالت   و  زلت   پھر   بھاگے  کی   ناصر
تیری   منتظر   ہے    اے   مسیحا    وادی

راجہ توقیر احمد ناصر
سب انسپکٹر
اے۔کے پولیس 

  بلاگرراجہ ممتاز احمد

نوٹ: بلاگر کا کتاب کے کسی بھی متن سے متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں ہے۔  
 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

MANGRAL RAJPOOT BOOK PART 9

منگرال راجپوت کتاب پارٹ 11

MANGRAL RAJPOOT BOOK PART 7