راجپوت منگرال کتاب پارٹ 6
کشمیر کی وجہ تسمیہ مختلف مئورخوں کی نظرمیں مختلف ہے۔ ایک مئورخ یوں لکھتے ہیں کہ کشمیر سنسکرت زبان کا لفظ ہے۔ "کم" سنسکرت میں پانی کو اور "شمیر" پانی نکلنے کو کہتے ہیں۔ روایت ہے کہ اس سر زمیں سے پانی نکال کر خشک کی گئِ تھی جس کی وجہ سے اس خطے کا نام "کمشیر" ہوا جو بعد میں کثرتِ استعمال سے "کشمیر" بن گیا۔
گلگت والے اسے "کشمیر"، لداخ کے لوگ "کشن چھپا"، اہلِ تبت اسے "کشن چھپل" کہتے ہیں۔ قدیم یونانی کتابوں میں اس کا نام "کشمیریہ" درج ہے۔ قدیم سیاح اسے "زبدہ القائم" کا نام دیتے ہیں۔ قدیم چینی سیاح اسے "شی می لو" کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ زمانہ قدیم کی ہندووں کی کتابوں میں کشمیر کو "سرد بھومیا" یعنی تیرتھوں کی زمین کہا گیا ہے
کشمیر کی تاریخ کا سراغ چار ہزار سال قبل مسیح سے بھی پہلے کا ملتاہے۔ انگریز مصنف "پیرس جیروس" لکھتا ہے کہ اس بات نے دوسروں کی طرح مجھے بھی متعجب کیا کہ کشمیر کے ماضی کے متعلق معلومات، تحریروں اور تاریخی دستاویزات کا ایک مربوط سلسلہ موجود ہے۔ سر والٹر لارنس "ویلی آف کشمیر میں لکھتا ہے جب سے تاریخ لکھنے کا رواج ہوا، کشمیر ایک باقاعدہ مملت رہی ہے۔
راقم کے خیال میں 326 قبل مسیح میں کھشن بن آکاش بغداد سے اس علاقے میں آیااور اس کی اولاد پوری ریاستِ جموں کشمیر میں پھیلتی چلی گئی۔ "کھش" عبرانی زبان کا لفظ ہے۔ چونکہ اس وقت بغداد کی زبان عبرانی تھی۔ جب کہ مر کا مطلب اس زبان میں "گھر" ہے۔ یوں گھش مر کا مطلب ہوا کھش کا گھر۔ پہلے اس خطے کا نام "کھش مر" تھا جو بگڑ کر "کشمیر" بن گیا۔ چند برس پہلے بھمبر کے قریب سے چند سکے ملے جن پر عبرانی زبان میں تحریریں اور تصاویر موجود ہیں۔
ریاستِ جموں کشمیر کا کل رقبہ 84471 مربع میل ہے۔ ہندستان کے انتہائی شمال میں واقع اس کی سرحدیں ہندستان، پاکستان، افغانستان، روس اور چین سے ملتی تھی، یعنی جغرافیائی اعتبار سے "جموں و کشمیر" دنیا کی اہم ترین ریاست ہے۔ اس کی طویل سرحد 700 میل پاکستان سے، 350 میل ہندستان سے، 160 میل افغانستان سے، 201 میل روس سے، 400 میل چین سے اور اس کی سرحد تبت ترکستان سے 450 میل ملتی ہے۔
سال 1947 میں ریاست کی 80 فیصد آبادی مسلمان تھی جبکہ17 فیصد ہندو تھی اور3 فیصد سکھ اور عیسائی آباد تھے۔ 50 فیصد لوگ کشمیری بولتے ہیں جبکہ باقی 50 فیصد لوگ علاقائی زبانیں مثلاََ گوجری، پنجابی، پہاڑی، بلتی، ڈوگری اور شینا وغیرہ بولتے ہیں۔ اردو سرکاری زبان ہے اور پوری ریاست میں سمجھی اور بولی جاتی ہے۔ کشمیر انتظامی طور پر چار حصوں میں منقسم ہے، جس میں جموں وادی کشمیر اور لداخ پر مشتمل 41342 مربع میل علاقہ ہندستان کے زیرِ قبضہ ہے۔ جب کہ پاکستان کے زیرِ انتظام گلگت بلتستان کا 27946مربع میل علاقہ ہے۔ چین کے زیرِ انتظام علاقہ "اقصائے چن" کا رقبہ 11039 مربع میل ہے۔ چوتھا حصہ آزاد کشمیر کہلاتا ہے جو آزاد ہے اور اس کا رقبہ 4144 مربع میل ہے۔ دنیا کی بلد ترین چوٹیاں "کے-ٹو" اور "نانگا پربت" کشمیر میں ہی واقع ہیں۔
مشہور مئورخ ابو الفضل جو شہنشاہ اکبر کا درباری تھا ، کشمیر کو ایک دلکش اور صدا بہار باغ سے تشبیح دیتا ہے۔ شہنشاہِ جہانگیر "تزکِ جہانگیری" میں لکھتا ہے کہ کشمیر کے پھول شمار نہیں کیے جا سکتے۔ کتنے پھولوں کا نام لوں اور کتنے پھولوں کی خوشنمائی اور دلپزیری کا ذکر کروں ۔ جہانگیر نے تو یہاں تک کہ دیا کشمیر پر اپنی حکومت کو دوسرے حصوں پر قربان کر سکتا ہوں۔
ہیون سانگ ایک عظیم چینی سیاح 631ء میں کشمیر آیا ، یہ ایک بدھ بھکشو تھا۔ وہ لکھتا ہے "یہاں کی زمین بادام اور دوسرے پھل اگانے کے لیے ذرخیز ہے۔ یہاں اژدھے اور خوشبو دار ہلدی کے پودے ہیں جن کو فوچیو کہتے ہیں۔ اس کے علاوہ دوسرے ادویاتی پودے بھی اگتے ہیں۔ ہوا سرد اور خنک ہے۔ کافی برف باری ہوتی ہے مگر ہوائیں کم چلتی ہیں، لوگ چمڑے کی صدری پہنتے ہیں اور سفید لینن کے لباس استعمال کرتے ہیں، یہ لوگ غیر سنجیدہ، کم زور اور ڈرپوک ہیں۔ کیونکہ ملک اژدھے [دیو مالائی] کے باعث محفوظ ہے اس لیے اسے پڑوسی مما لک کے لوگوں پر برتری حاصل ہے۔ لوگ خوبرو لیکن ریا کار ہیں۔ علم و فضل سے آراستہ ہیں۔ یہاں ملحد بھی رہتے ہیں اور خدا پرست بھی
اورنگ زیب کے ہمراہ 1665ء میں ایک فرانسیسی سیاح کشمیر آیا ، وہ لکھتا ہے؛
حقیقت تو یہ ہے کہ یہ سلطنت [کشمیر] حسن و جمال کی تمام جلوہ سامانیوں سے بہت بلد وبالا ہے، جس کا میں نے کبھی تصور بھی کیا ہو۔ کشمیری اپنی زکاوت کے لیے مشہور ہیں ۔ یہ لوگ ہندستانیوں سے زیادہ ذہین سمجھے جاتے ہیں۔ شعر و شاعری اور سائنسی علوم میں یہ ایرانیوں سے کچھ کم نہیں۔ بہت چاک و چوبند اور محنتی لوگ ہیں۔ ان کی کاری گری کا احساس ان پالکیوں، پلنگوں، قلم دانوں، صندوقوں، چمچوں اور دوسری ایسی چیزوں سے ہوتا ہے جو یہ لوگ اپنے ہاتھوں سے بناتے ہیں
مور کرافٹ 1824ء میں کشمیر کی سیر و سیاحت کرتے ہوئے لکھتا ہے
کشمیریوں کے ساتھ جانوروں سے بھی بد تر سلوک کیا جاتا ہے۔ یہ دور سکھوں کا دور تھا۔ اگر کسی سکھ کے ہاتھوں کوئی مقامی قتل ہو جائے تو 16 سے 20 روپے تک جرمانہ کیا جاتا۔ یہ جرمانہ سرکاری خزانے میں جمع ہوتا تھا۔ مقتول اگر ہندو ہوتو 4 روپے مقتول کے ورثا کو، اگر مسلمان ہو تو 2 روپے دیے جاتے تھے۔ جہاں تک ہندو دور کا تعلق ہے تو ان میں سے بعض حکمران ایسے بے ایمان تھے کہ ان کی نظر میں کوئی چیز قابلِ احترام نہ تھی۔ وہ اپنے رعایا کی جائیداد پر قبضہ کرنا اور عورتوں کی بے حرمتی کرنا اپنا حق سمجھتے تھے۔ ان میں سے بعض کا اپنے والدین کے ساتھ سلوک بھی انتہائی شرمناک تھا۔ وہ انتہائی عیاش، بدکار اور بددیانت تھے۔ انھیں کسی قسم کی اخلاقیات سے کوئی سروکار نہ تھا"۔
سر ریچرڈ ٹیمپل بارٹ08 جون سے 08 جولائی 1859ء میں کشمیر میں مقیم رہا۔ اس کا تبصرہ کچھ اس طرح سے ہے؛
شنکر اچاریہ کی بلندی سے میں کشمیر کے منظر دیکھتا ہوں تو ایسا سماں سامنے آتا ہے جو نہایت عمدہ ہے۔ میں نے ایسا سماں کبھی اپنے وطن میں نہیں دیکھا۔ میرا خیال ہے کہ یہ دنیا کا بہتری سماں ہے۔ یہ نظارہ ساری وادی میں پھیلا ہوا ہے- جو چارو طرف برفانی سلسہ ہائے کوہ سے گھرا ہوا ہے"۔
فرانسس ینگ ہسبنڈ 1887ء میں کشمیر آیا۔ اس نے ریزیڈنٹ کی حیثیت سے کشمیر میں 21 برس گزارے۔ وہ کشمیر کے بارے میں رقم طراز ہے؛۔
۔"کشمیر کے حسن کی کشش صرف یہ نہیں کہ یہاں کا ہر مقام دوسرے مقام سے مختلف ہے، بلکہ یہاں کا ہر دن ایک نئی جلوہ سامانی لیے آتا ہے۔ روشن اور سہانے دن بہت زیادہ ہیں لیکن پھیکے اور بے جان دن بھی بہت پر کشش ہیں"۔
کشمیریوں کے بارے میں بی ڈی دو تیڑ نامی ایک پاردی جو 14 سال کشمیر میں مقیم رہا، ہندستان کے اخبار ٹریبیون میں لکھتا ہے؛
۔"میں نے 14 سال کشمیر میں قیام کیااور دورانِ قیام مجھے یہ کافی تجربہ ہوا کہ یہاں کے لوگ ہوشمند، باہمت، برے خصائل سے پاک اور خطرہ رونما ہوتے وقت ہمیشہ بہادر ثابت ہوئے ہیں"۔
مصنف گلدستہ کشمیر پنڈت ہرگوپال کولاپنی تاریخ میں لکھتے ہیں؛
۔"ان کی شکلیں خوبصورت، اعضائے جسم مضبوط، چہرہ خوشنما، رنگ پختہ، گندمی اور اکثر سفیدی مائل، خط و خال صحیح، قد وقامت کوتاہ بھی اور اکثر کا بالا"۔
کشمیر میں مختلف اوقات میں مختلف حکمران رہے۔ ان میں رینچن شاہ [صدرالدین شاہ]، شاہ میر [سلطان شمس الدین]، سلطان شہاب الدین، سلطان سکندر شاہ، زین العابدین بڈ شاہ، اکبر اعظم، جہانگیر، اورنگ زیب عالمگیر اور شاہ جہاں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ چک خاندان، افغانی دور، سکھ دور، اور ڈوگرا دور میں بھی بہت سے حکمران یہاں حکمرانی کرتے رہے ہیں۔
دریائے جہلم، جھیل ڈل اور اس میں تیرتے ہوئے باغات ، چشم شاہی، باغ بہار آرا، اور باغ نور افشاں کے علاوہ بے شمار باغات ہیں۔ ویری ناگ وادی، لُدر کا پر فضا مقام، پہلگام، امرناتھ، شیش ناگ، سن مرگ، وادی لولاب، گاندھر بل اور گل مرگ جیسے حسین و جمیل مقامات اور وادیاں قدرت کے حسن کا مظہر ہیں۔ وولر جھیل کا نظارہ تو انسان پر جادو کر دیتا ہے۔ وادی میں سرخ گلاب ، نرگس اور لالہ کی بہتات ہے۔ اس کے علاوہ حضرت بل اور شاہ ہمدان کی درگاہیں بھی ہیں۔ کہتے ہیں کہ ڈاکٹر کا لاعلاج انسان، کشمیر کے حسن اور رنگینیوں کے دیکھ کر خود بخود صحت یاب ہو جاتاہے۔
ہیون سانگ ایک عظیم چینی سیاح 631ء میں کشمیر آیا ، یہ ایک بدھ بھکشو تھا۔ وہ لکھتا ہے "یہاں کی زمین بادام اور دوسرے پھل اگانے کے لیے ذرخیز ہے۔ یہاں اژدھے اور خوشبو دار ہلدی کے پودے ہیں جن کو فوچیو کہتے ہیں۔ اس کے علاوہ دوسرے ادویاتی پودے بھی اگتے ہیں۔ ہوا سرد اور خنک ہے۔ کافی برف باری ہوتی ہے مگر ہوائیں کم چلتی ہیں، لوگ چمڑے کی صدری پہنتے ہیں اور سفید لینن کے لباس استعمال کرتے ہیں، یہ لوگ غیر سنجیدہ، کم زور اور ڈرپوک ہیں۔ کیونکہ ملک اژدھے [دیو مالائی] کے باعث محفوظ ہے اس لیے اسے پڑوسی مما لک کے لوگوں پر برتری حاصل ہے۔ لوگ خوبرو لیکن ریا کار ہیں۔ علم و فضل سے آراستہ ہیں۔ یہاں ملحد بھی رہتے ہیں اور خدا پرست بھی
اورنگ زیب کے ہمراہ 1665ء میں ایک فرانسیسی سیاح کشمیر آیا ، وہ لکھتا ہے؛
حقیقت تو یہ ہے کہ یہ سلطنت [کشمیر] حسن و جمال کی تمام جلوہ سامانیوں سے بہت بلد وبالا ہے، جس کا میں نے کبھی تصور بھی کیا ہو۔ کشمیری اپنی زکاوت کے لیے مشہور ہیں ۔ یہ لوگ ہندستانیوں سے زیادہ ذہین سمجھے جاتے ہیں۔ شعر و شاعری اور سائنسی علوم میں یہ ایرانیوں سے کچھ کم نہیں۔ بہت چاک و چوبند اور محنتی لوگ ہیں۔ ان کی کاری گری کا احساس ان پالکیوں، پلنگوں، قلم دانوں، صندوقوں، چمچوں اور دوسری ایسی چیزوں سے ہوتا ہے جو یہ لوگ اپنے ہاتھوں سے بناتے ہیں
مور کرافٹ 1824ء میں کشمیر کی سیر و سیاحت کرتے ہوئے لکھتا ہے
کشمیریوں کے ساتھ جانوروں سے بھی بد تر سلوک کیا جاتا ہے۔ یہ دور سکھوں کا دور تھا۔ اگر کسی سکھ کے ہاتھوں کوئی مقامی قتل ہو جائے تو 16 سے 20 روپے تک جرمانہ کیا جاتا۔ یہ جرمانہ سرکاری خزانے میں جمع ہوتا تھا۔ مقتول اگر ہندو ہوتو 4 روپے مقتول کے ورثا کو، اگر مسلمان ہو تو 2 روپے دیے جاتے تھے۔ جہاں تک ہندو دور کا تعلق ہے تو ان میں سے بعض حکمران ایسے بے ایمان تھے کہ ان کی نظر میں کوئی چیز قابلِ احترام نہ تھی۔ وہ اپنے رعایا کی جائیداد پر قبضہ کرنا اور عورتوں کی بے حرمتی کرنا اپنا حق سمجھتے تھے۔ ان میں سے بعض کا اپنے والدین کے ساتھ سلوک بھی انتہائی شرمناک تھا۔ وہ انتہائی عیاش، بدکار اور بددیانت تھے۔ انھیں کسی قسم کی اخلاقیات سے کوئی سروکار نہ تھا"۔
سر ریچرڈ ٹیمپل بارٹ08 جون سے 08 جولائی 1859ء میں کشمیر میں مقیم رہا۔ اس کا تبصرہ کچھ اس طرح سے ہے؛
شنکر اچاریہ کی بلندی سے میں کشمیر کے منظر دیکھتا ہوں تو ایسا سماں سامنے آتا ہے جو نہایت عمدہ ہے۔ میں نے ایسا سماں کبھی اپنے وطن میں نہیں دیکھا۔ میرا خیال ہے کہ یہ دنیا کا بہتری سماں ہے۔ یہ نظارہ ساری وادی میں پھیلا ہوا ہے- جو چارو طرف برفانی سلسہ ہائے کوہ سے گھرا ہوا ہے"۔
فرانسس ینگ ہسبنڈ 1887ء میں کشمیر آیا۔ اس نے ریزیڈنٹ کی حیثیت سے کشمیر میں 21 برس گزارے۔ وہ کشمیر کے بارے میں رقم طراز ہے؛۔
۔"کشمیر کے حسن کی کشش صرف یہ نہیں کہ یہاں کا ہر مقام دوسرے مقام سے مختلف ہے، بلکہ یہاں کا ہر دن ایک نئی جلوہ سامانی لیے آتا ہے۔ روشن اور سہانے دن بہت زیادہ ہیں لیکن پھیکے اور بے جان دن بھی بہت پر کشش ہیں"۔
کشمیریوں کے بارے میں بی ڈی دو تیڑ نامی ایک پاردی جو 14 سال کشمیر میں مقیم رہا، ہندستان کے اخبار ٹریبیون میں لکھتا ہے؛
۔"میں نے 14 سال کشمیر میں قیام کیااور دورانِ قیام مجھے یہ کافی تجربہ ہوا کہ یہاں کے لوگ ہوشمند، باہمت، برے خصائل سے پاک اور خطرہ رونما ہوتے وقت ہمیشہ بہادر ثابت ہوئے ہیں"۔
مصنف گلدستہ کشمیر پنڈت ہرگوپال کولاپنی تاریخ میں لکھتے ہیں؛
۔"ان کی شکلیں خوبصورت، اعضائے جسم مضبوط، چہرہ خوشنما، رنگ پختہ، گندمی اور اکثر سفیدی مائل، خط و خال صحیح، قد وقامت کوتاہ بھی اور اکثر کا بالا"۔
کشمیر میں مختلف اوقات میں مختلف حکمران رہے۔ ان میں رینچن شاہ [صدرالدین شاہ]، شاہ میر [سلطان شمس الدین]، سلطان شہاب الدین، سلطان سکندر شاہ، زین العابدین بڈ شاہ، اکبر اعظم، جہانگیر، اورنگ زیب عالمگیر اور شاہ جہاں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ چک خاندان، افغانی دور، سکھ دور، اور ڈوگرا دور میں بھی بہت سے حکمران یہاں حکمرانی کرتے رہے ہیں۔
دریائے جہلم، جھیل ڈل اور اس میں تیرتے ہوئے باغات ، چشم شاہی، باغ بہار آرا، اور باغ نور افشاں کے علاوہ بے شمار باغات ہیں۔ ویری ناگ وادی، لُدر کا پر فضا مقام، پہلگام، امرناتھ، شیش ناگ، سن مرگ، وادی لولاب، گاندھر بل اور گل مرگ جیسے حسین و جمیل مقامات اور وادیاں قدرت کے حسن کا مظہر ہیں۔ وولر جھیل کا نظارہ تو انسان پر جادو کر دیتا ہے۔ وادی میں سرخ گلاب ، نرگس اور لالہ کی بہتات ہے۔ اس کے علاوہ حضرت بل اور شاہ ہمدان کی درگاہیں بھی ہیں۔ کہتے ہیں کہ ڈاکٹر کا لاعلاج انسان، کشمیر کے حسن اور رنگینیوں کے دیکھ کر خود بخود صحت یاب ہو جاتاہے۔
مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کو اقوامِ متحدہ کی قائم کردہ غیر قدرتی جنگ بندی لائن ایک دوسرے سے جدا کرتی ہے۔ اس لائن کی لمبائی "مناور" سے "کیرن" تک 800 میل ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادیء کشمیر کےلیے ایک لاکھ مسلمان قربانی دے چکے ہیں جبکہ ہزاروں لوگ معزور اور سینکڑوں عورتیں بیوہ ہو چکی ہیں۔ ہندستان کی آٹھ لاکھ سے زائد فوج تعینات ہے۔ فوج کی تعداد پڑھانے سے امن قائم نہیں ہو سکتا بلکہ لوگوں کو آزادی دینے سے امن قائم ہوتا ہے۔ وہ وقت بہت قریب ہے جب پوری ریاست آزاد ہو کر دنیا کے نقشے پر ایک آزاد اور خود مختار ریاست کے طور پر ابھرے گی۔
ریاستِ جموں کشمیر میں بہت سی قومیں اور قبائل بکثرت آباد ہیں۔ ان قبائل میں ایک قبیلہ منگرال راجپوت بھی ہے۔
لاگر راجہ ممتاز احمد
ریاستِ جموں کشمیر میں بہت سی قومیں اور قبائل بکثرت آباد ہیں۔ ان قبائل میں ایک قبیلہ منگرال راجپوت بھی ہے۔
لاگر راجہ ممتاز احمد
نوٹ: بلاگر کا کتاب کے کسی بھی متن سے متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں ہے۔
خوش رہیں. زبردست
جواب دیںحذف کریں