منگرال راجپوت کتاب، پارٹ 3

راجہ نوید احمد ---------- نویدِ صبح نو

منگرال راجپوت خاندان کے چشم و چراغ راجہ نوید احمد نے ضلع کوٹلی، آزاد کشمیر کے گاٰوں سرساوہ میں1988 میں آنکھ کھولی۔ جوں جوں وہ تعلیمی سفر میں ترقی کرتے گئےان میں علم و ادب سے شغف بڑھتا گیا۔  حصول  تعلیم کے بعد انھوں  نے تحقیق و تحریر  سے اپنا  رشتہ استوار کر لیا اور اب وہ قلم و قبیلہ کے ممبر بن گئے ہیں۔ اس سفر میں راجہ نوید احمد کا جذبہ عشق آگاہی اگر توانا نہ ہوتا تو یہ نوجوان  ستم گر زمانے کے ہاتھوں لٹ پٹ کر کسی ایسی تاریک کھائی میں جا گرتا جہاں سے ہمیں اس کے ہونے ، نہ ہونے کی کوئی خبر نہ مل پاتی۔ اس کے والدین بھی قابلِ ستائش ہیں  جنھوں نے اپنے پیٹ پر پتھر بانھ کر اپنے بچوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کیا۔
حصول علم کے سفر میں راجہ نوید احمد کو  سبزی منڈی لاہور میں بھی مشقتیں اٹھانا پڑی لیکن ان کے پائے استقلال میں کوئی لغزش نہ آئی۔ یہاں سلطان عبدلقادر خان جیسے علم دوست شحصیت کے زیرِ سایہ اپنی تعلیم مکمل کی۔ تکمیل تعلیم کے بعد راجہ نوید احمد گورنمنٹ ڈگری کالج ڈڈیال میں بطور لیکچرار تعینات ہوئے۔
راجہ نوید احمد بچپن سے ہی اپنے والد صوبیدار راجہ شہباز خان  سے اپنے خاندان کے تاریخ کے بارے میں پوچھا کرتے تھے۔  جب وہ سنِ شعور کو پہنچے توکاغز اور قلم ہاتھ میں لیے اپنی تاریخ کے ان کرداروں کو ڈھونڈھنے نکلا جو ان کے قلب و ذہن میں جا گزیں تھے۔  تاریخ کے اس کھوجی نے قریہ قریہ اور بستی بستی چان ماری۔ ان کے والد قدم قدم پر ان کی ہمت بندھاتے رہے تھے جنہوں نے نصیحت کی تھی کہ " بیٹا، خاندانی تاریخ لکھتے وقت ذاتی پسند و ناپسند کو پیشِ نظر نہ رکھنا، صحیح حقائق قارئین کے سامنے لانا."
راجہ نوید احمد تاریخ سے گہری دلچسپی رکھتے تھے اور تاریخ کو قوموں کے لیے سنگِ میل قرار دیتے تھے۔  انھیں اس بات کا شدت سے احساس ہے کہ اس سے پہلے کبھی کسی نے منگرال قبیلے کی تاریخ مرتب کیوں نہیں کی۔ یہ امر ان کے لیے باعث اطمنان بھی ہے  اور باعثِ مسرت بھی کہ قدرت نے یہ فریضہ سر انجام دینے کے لیے انھین منتخب کیا۔ راجہ نوید احمد نے یہ کتاب لکھ کر یقیناََ علمی و ادبی حلقوں میں بحیثیت قلم کار اپنی ایک منفرد پہچان پیدا کر لی۔
میرے خیال میں منگرال راجپوت خاندان کے حوالے سے اتنی جامع اور مفصل کتاب پہلے کسی نے نہیں لکھی۔ اس کتاب میں راجہ نوید احمد نے اپنے خاندان کا سینکڑوں سال پرانا شجرہ نسب، قبیلہ کی تاریخ اور کارِ ہائے نمایاں پر تفصیل سے بحث کی ہے۔ کتاب میں خاندان کے نمایاں افراد کا تعارف اور تصااویر بھی شامل کی گئی ہیں جس سے کتاب کی اہمیت و افادیت بڑھ گئی ہے۔
امیدِ واثق ہے کہ راجہ نوید احمد کی یہ اوّلین کاوش علمی و ادبی حلقوں میں ایک منفرد مقام پائے گی اور نوجوان نسل اپنے اسلاف کے کارہائے نمایاں سے آگاہ ہو کر اپنے آپ کو علم و عمل کے میدان میں آگے بڑھنے پر آمادہ کرے گی۔
مجھے توقع ہے کہ راجہ نوید احمد قلم و قرطاس کے اس سفر کو جاری رکھیں گے  اور تاریخ و تہزیب، علم ا ادب اور شعور و آگاہی کے افق پر نت نئے سورج اور چاند تراشتے رہیں گے۔

محمد سعید اسد
ڈائریکٹر
ادارہ نکس میر پور آزاد کشمیر
بلاگر راجہ ممتاز احمد
نوٹ: بلاگر کا کتاب کے کسی بھی متن سے متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں ہے۔  
 

        

تبصرے

  1. میرے خیال میں یہاں تاریخ پیدائش میں غلطی ہے. جہاں تک مجھے یاد ہے نوید بھائی اور میں ہم عصر ہیں.

    جواب دیںحذف کریں

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

MANGRAL RAJPOOT BOOK PART 7

MANGRAL RAJPOOT BOOK PART 12

منگرال راجپوت کتاب پارٹ 14