راجپوت منگرال پارٹ21

 جسٹس راجہ رفیع سلطانی

 ممتاز قانون دان جناب راجہ رفع اللہ سلطانی ضلع نیلم میں کنڈل شاہی کے مقام پر پیدا ہوئے۔ آپ کے والد محترم محکمہ جنگلات میں رینج آفیسر تھے اس لیے آپ نے اپنی ابتدائی تعلیم سیاکھ تحصیل ڈڈیال، کوٹلی اور پنجیڑہ سے حاصل کی۔ میٹرک سے بی اے تک کوٹلی میں رہے۔ قانون کی ڈگری پنجاب یونیورسٹی لاء کالج سے حاصل کی۔ 1977ء میں بحیثیت وکیل پریکٹس کا آغاز کیا۔ پیشہ ور وکیل کے طور پر نام کمایا اور آزاد کشمیر ہائی کورٹ کے جج بھی رہے۔

راجہ رفیع اللہ سلطانی 10 مارچ 1954ء کو بمقام کنڈل شاہی اٹھمقام ضلع نیلم میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد راجہ زراعت اللہ خان دورانِ سروس وہاں تعینات تھے۔ آپ کے والد محترم نے 35-1934 میں مقبوضہ کشمیر میں بحیثیت فاریسٹر خدمات سرانجام دیں۔ آپ کے والد 1916ء میں گنگناڑہ میں راجدھانی کے مقام پر پیدا ہوئے۔ آپ کا بچپن گائوں میں گزرا۔ آپ کی پیدائش پر آپ کے والدین نے گائوں میں دعوتِ عام کی۔ راجہ زراعت اللہ خان بڑے اصول پسند، وضع دار، نڈر اور بے باک انسان تھے۔ آپ میں یہ خوبیاں اپنے والد زیلدار راجہ سیف علی خان سے ورثےمیں ملی تھیں جو پاکستان بننے سے پہلے علاقہ کے زیلدار تھے اور بڑے جاہ و جلال کے مالک تھے۔ کسی کو بھی جراءت نہ تھی کہ ان کی بات کی نفی کرتا۔

آپ کی ابتدائی تعلیم میں نشیب و فراز آتے رہے۔ اس کی وجہ آپ کی اپنےوالد کے ساتھ رہائش تھی۔ چونکہ پاکستان بننے کے بعد وہ بحیثیت رینج آفیسر تعینات ہوئے اور لیے دورانِ سروس جہاں تبادلہ ہوتا وہاں اپنی فیملی ساتھ لے جاتے۔ ابتدائی سالوں میں آپ چناری، کوٹلی، راولا کوٹ، مظفر آباد، بھمبر، ہل بگام تحصیل ڈڈیال اپنے والد صاحب کے ساتھ رہے۔ وہ ان علاقوں میں بحیثیت رینج آفیسر تعینات رہے تھے۔ آپ کا ننھیال چک پٹھانا تھا۔ یہ گائوں سیاکھ [تحصیل ڈڈیال] سے تھوڑے فاصلے پر تھا۔ جو ان منگلا جھیل بننے کی وجہ سے ختم ہو گیا ہے۔ آپ کے ننھیال اب رنگ پور، قاضیاں [گوجر خان] اور دینہ میں آباد ہیں۔

آپ نے چوتھی اور پانچویں جماعت ہائی سکول ہل بگام تحصیل ڈڈیال سے پاس کی۔ چھٹی جماعت میں پائلٹ ہائی سکول کوٹلی میں داخل ہوئے اور امتیازی نمبرات سے پاس ہوئے۔ ساتویں جماعت میں راولا کوٹ میں داخل ہوئے لیکن شدید سرد موسم کے باعث پھر ننھیال چک پٹھاناں واپس آ گئے اور ہائی سکول سیاکھ سے ساتویں جماعت پاس کی۔

آٹھویں جماعت آپ نے پنجیڑہ ہائی سکول سے پاس کی اور پھر نویں اور دسویں جماعت ہائی سکول کوٹلی سے فرسٹ ڈویژن میں پاس کی۔ والد صاحب کی شدید خواہش تھی کہ آپ ڈاکٹر بنیں اس لیے میٹرک سائنس میں پاس کرنے کے بعد فرسٹ ائیر میں پری میڈیکل میں داخلہ لیا۔ والد صاحب کا تبادلہ راولا کوٹ ہو حیا تھا اس لیے راولا کوٹ کالج میں داخل ہوئے۔ لیکن کچھ عرصہ کے بعد والد صاحب کا تبالدہ دوبارا کوٹلی ہوا جس کی وجہ سے آپ کوٹلی پوسٹ گریجویٹ کالج میں انٹرمیڈیٹ  میں داخل ہوئے جہاں آپ نے سائنس مضامین کو چھوڑ کر آرٹس میں داخلہ لیا اور سوکس، اسلامیات اور تاریخ کے مضامین اختیار کیے۔ 

اس زمانے میں پوسٹ گریجویٹ کالج کوٹلی کے پرنسپل ملک محمد دین تھے۔ ان اساتذہ میں جہاں چودھری محمد یوسف، ملک محمد دین، میرزا محمد جمیل، اعظم طاہری تھے وہاں خان زمان مرزا نے بھی آپ کی شخصیت نکھارنے میں اہم کردار ادا کیا۔ 

آپ اپنے اساتزہ کا بے حد احترام کرتے تھے جن کی کاوشوں اور کوششوں سے آپ نے ایف اے کا امتحان امتیازی نمبروں میں پاس کیا۔ بی اے کے لیے انہی کے مشوروں سے آپ نے گورنمنٹ کالج اصغر مال راولپنڈی چلے گئے جہاں آپ نے خوب محنت کی اور ایک بار پھر اپنے اساتزہ اور والدین کی امیدوں پر پورا اترے اور بی اے پاس کر کے لاہور چلے گئے جہاں آپ نے لاء کی ڈگری پنجاب یونیورسٹی لاہور سے حاصل کی۔ آپ نے ایف سی کالج لاہور سے ایم اے پولیٹیکل سائنس کرنے کا ارادہ کیا لیکن پھر تعلیم کو خیر باد کہ کر عملی زندگی کا آغاز کیا اور وکالت کا پیشہ اپنایا۔

راجہ رفیع اللہ سلطانی نے جنوری 1977ء سے سہنسہ میں بحیثیت وکیل پریکٹس شروع کی جو 1997ء تک سہنسہ ہی میں جاری رہی۔ اسی دوران میں آپ نے 1984ء میں ہائی کورٹ کا لائسنس حاصل کیا ۔ پھر ہائی کورٹ میں بھی بحیثیت وکیل مختلف مقدمات کے سلسلے میں پیش ہوتے رہے۔ آپ 1997ء میں کوٹلی شفٹ ہو گئے اور چوہدری عبدل کریم ایڈووکیٹ چیمبر میں شامل ہو گئے [چوہدری عبدل کریم ایڈووکیٹ جاٹ قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے اور ضلع کوٹلی میں آپ کا شمار بڑے وکلاء میں ہوتا ہے۔ آج وہ زندہ ہوتے تو کسی اعلی عدالت کے جج ہوتے۔]۔ آپ دورانِ وکالت اپنی اصول پسندی اور شرافت کی وجہ سے مشہور تھے۔ آپ نے کبھی تھانے میں جانے یا کسی جج سے میل ملاپ کرنے ی کوشش نہیں کی بلکہ اپنے پیشے میں ایمانداری اور محنت کو اپنا شعار بنایا۔ آپ کی پیشہ ورانہ صلاحتوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے آزاد حکومت نے آپ کو جنوری 2007ء میں ہائی کورٹ کا جج تعینات کیا اور 30 اپریل 2010ء کو آپ کو ایک عدالتی فیصلے سے اس عہدے سے علیحدہ کر دیا گیا۔

آپ نے زمانہ طالب علمی میں کبھی سیاست میں حصہ نہ لیا  اور ایک لائق، ذہین اور ہونہار طالبِ علم کے طور پر جانے جاتے تھے۔ آپ ایک پہترین ڈیبیٹر تھے۔ آپ نے کالج میں دورانِ پڑھائی کئی مباحثوں میں حصہ لیا اور کوئی نہ کوئی پوزیشن ضرور حاصل کی۔ آپ نے اپنی پیشہ ورانہ عملی زندگی میں  سیاست میں بھی قسمت آزمائی لیکن شاید قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ عملی زندگی میں آپ نے ابتدا میں پی پی میں شمولیت اختیار کی اور ذولفقار علی بھٹو سے بہت متاثر تھے۔ اس دوران آپ کو دو مرتبہ جیل بھی جانا پڑا۔  پہلی بار 1979ء  میں جب ذولفقار علی بھٹو کو پھانسی سی گئَ اور دوسری بار 1983ء میں ۔ آپ 1987ء تک پی پی سے وابسطہ رہے اور اس دوران آپ سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے ممبر بھی رہے۔ آپ نے 1983ء میں ڈسٹرکٹ کونسلر کا الیکشن لڑا لیکن اس میں کامیاب نہ ہوسکے۔ آپ نے 1987ء میں مسلم کانفرنس میں شمولیت اختیار کی اور کئی بار الیکشن میں ٹکٹ کے لیے درخواست دی لیکن آپ جماعت کا اعتماد حاصل نہ کر سکے، اس لیے آپ نے 1996ء میں سیاست سے مکمل کنارہ کشی اختیار کر لی ۔

آآپ کی زندگی کا یادگار اور انقلابی لمحہ  1988ء میں قبلہ حضرت پیر صادق مدظلہ علیہ آف گلبہار شریف والوں سے بیعت تھا۔ آپ قبلہ حضرت مدظلہ علیہ کے حکم سے آپ کے فرزند ارجمند جناب حضرت حاجی پیر صاحب مدظلہ علیہ سے جہلم میں بیعت ہوئے۔ قبنلہ حضرت پیر صادق صاحب مدظلہ علیہ جب گلہار تشریف لائے تو یہ علاقہ وہران تھا جہاں آج کل درس شریف ہے۔ آپ کی آمد تھی کہ جنگل میں منگل ہوگیا۔ حضرت صاحب مدظلہ علیہ نے یہاں تبلیغ کا سلسلہ شروع کیا کیوں کہ علاقے کی کثیر آبادی مرزئِت اختیار کر چکی تھِی۔ کوٹلی شہر میں مرزائیت کا پرچار ببانگِ دھل جاری تھا۔ آپ کی آمد کے باعث اس میں ٹھہرائو آ گیا۔ لوگ آپ کے کردار اور تبلیغ سے متاثر ہو کر دائرہ اسلام میں داخل ہونا شروع ہو گئے۔ شہر کے سبھی بڑی آڑھتی سود کا کرو ار کرتے تھَے۔ آپ کی تعمیلات سے متاثر ہو کر انھوں نے اس لونت سے توبہ کر لی۔

آپ نے نہ صرف کوٹلی کے اندر بلکہ پورے ملک میں ہزاروں مساجد تعمیر کروائیں۔ ان مساجد میں دینی تعملیم کے لیے تدریس کا نظام شروع کروایا۔ مختلف مدارس میں فارغ التحصیل حفاظِ کرام ہزاروں میں ہیں۔ یہ حفاظِ کرام رمضان المبارک میں مختلف علاقوں میں مساجد میں نمازِ تراویح پڑھاتے اور امامت کے فرائض بھِی سر انجام دے رہے ہیں۔

قبلہ حضرت پیر صادق صاحب مدظلہ علیہ کا فیض گھر گھر پہنچا۔ آپ کی برکت سے مرزائیت کا خاتمہ، سود سے نجات اور مساجد تعمیر ہوئیں۔ اسی لیے کوٹلی شہر کو مدینۃ المساجد بھی کہتے ہیں [اس سے پہلے ڈھاکہ شہر میں مساجد کی تعداد پوری دنیا میں سب سے زیادہ تھی لیکن اب یہ اعزاز کوٹلی کو حاصل ہے۔]۔ جب حضرت صاحب مدظلہ علیہ کا وصال ہوا تو لاکھوں لوگ آپ ے جنازے میں شریک تھے۔
آج کل قبلہ حضرت پیر صادق صاحب کے پسر خورد حضرت پیر زاہد سلطانہ صاحب مدظلہ علیہ درس شریف گلہار میں دین کی تبلیغ و اشاعت اور دیگر فرائض انجام دے رہے ہیں۔ اس دربار گوہر بار کے معتقد رفیع اللہ سلطانہ باقاعدگی سے گلہار شریف درس میں حاضری دیتے ہیں۔
 


بلاگرراجہ ممتاز احمد

        نوٹ: بلاگر کا کتاب کے کسی بھی متن سے متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں ہے۔
  

 


 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

MANGRAL RAJPOOT BOOK PART 9

منگرال راجپوت کتاب پارٹ 11

MANGRAL RAJPOOT BOOK PART 7